ساہیوال پولیس کا کارنامہ

362

پولیس کی غلط کاریوں کا دائرہ بڑھتا ہی جارہا ہے، کراچی میں تو پولیس اہلکار اغوا برائے تاوان میں بھی ملوث پائے گئے ہیں اور کسی بھی بے گناہ کو گھر سے اٹھا لینا بھی معمول ہے۔ تاہم پنجاب کے شہر ساہیوال سے پولیس کا نیا کارنامہ سامنے آیا ہے۔ اس میں صرف مقامی پولیس ہی نہیں ایک خفیہ ایجنسی کا اہلکار بھی ملوث ہے۔ پولیس نے ساڑھے آٹھ سال کے ایک بچے کو گھر پر چھاپا مار کر نہ صرف گرفتار کیا بلکہ اس معصوم کو ہتھکڑیاں لگا کر ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج کی عدالت میں پیش بھی کردیا۔ جج سید فیض الحسن ایک بچے کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں دیکھ کر حیران رہ گئے۔ اس بچے کو ایک دکان پر پیٹرول فروخت کرنے کے جرم میں گرفتار کیا گیا تھا۔ پولیس نے اس جرم کی ایف آئی آر خفیہ ایجنسی کے ایک اہلکار کی ہدایت پر درج کی تھی اور نائب تحصیلدار پولیس کو لے کر دس بجے حسن علی کے گھر پر چڑھ دوڑا۔ گوکہ ایف آئی آر میں ’’اتنے بڑے مجرم‘‘ کی گرفتاری ریلوے روڈ سے ظاہر کی گئی ہے، جج صاحب نے بچے کی ہتھکڑی کھلوا کر اسے عبوری ضمانت پر رہا کردیا لیکن عبوری ضمانت کیوں؟



اس بچے کے خلاف مقدمہ خارج کرکے ہتھکڑیاں ان ہاتھوں میں ڈالی جانی چاہییں جنہوں نے ساڑھے آٹھ سال کے بچے کو گرفتار کرکے ہتھکڑی لگوائی۔ اس خبر میں اہم بات یہ ہے کہ یہ سب کچھ خفیہ ایجنسی کے ایک اہلکار کے اشارے پر ہوا جس کے سامنے نائب تحصیلدار اور پولیس بے بس تھی۔ محض اس ایک واقعے سے خفیہ ایجنسی کی طاقت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے۔ کیا ساہیوال میں تمام جرائم پیشہ عناصر اور خطرناک مجرموں کا خاتمہ ہوگیا کہ اب بچے پکڑے جارہے ہیں؟۔ ڈسٹرکٹ پولیس افسر نے نوٹس لیتے ہوئے ڈی ایس پی کو معاملے کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔ یہ کسی بھی معاملے کو دبانے کے لیے روایتی کارروائی ہوتی ہے۔ ڈی ایس پی صاحب تھانیدار کو اور تھانے دار کسی سپاہی کو تحقیقات پر لگادیں گے اور رپورٹ یہ آئے گی کسی شخص کو معطل کردیا گیا۔ لیکن اس سے پولیس اور خفیہ ایجنسی کی جو بدنامی ہوئی ہے اس کا ازالہ نہیں ہوگا۔ سخت سزاؤں کے بغیر ادارے ٹھیک نہیں ہوں گے۔