لاوارث کراچی اور کے الیکٹرک

291

ڈاکٹر شجاع صغیر خان
میں کراچی کا باسی ہوں، یہ شہر میری شناخت ہے، میری جان ہے، اس شہر کی وجہ سے آج میری ایک شناخت ہے، مجھے اور کیا چاہیے معاشرہ مجھے عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے، میرا پرانا گھر مارٹن کوارٹرز پھر سمن آباد اب نارتھ کراچی۔ میرا کراچی ایک بڑا دل رکھنے والا شہر ہے، میری سماجی تربیت مارٹن کوارٹرز سے شروع ہوئی، میر حفاطت حسین رضوی میرے استاد ہیں، آپ امام بارگاہ شاہ نجف کے ٹرسٹی ہیں، ہومیوپیتھی کے اُستاد ڈاکٹر قاضی صاحب مرحوم اور صحافت میں ہمایوں عزیز ، مظفر اعجاز ، اسد جعفری مرحوم ہیں۔ ٹی وی چینل پر مظفر اعجاز مجھے لے کر آئے یہ سب لوگ کراچی کے ہیں، کراچی میں بڑے بڑے دماغ اور اعلیٰ کردار کے لوگ موجود ہیں، ہم بانیان پاکستان کی اولادیں ہیں مگر افسوس ہمارے ملک میں ہمارا کیا حشر ہورہا ہے۔ ضیا الحق مرحوم کے دور سے پہلے اس شہر میں کوئی فرقہ پرستی نہیں تھی، ایوب خان اور ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں لسانیت نے آگ لگائی پھر تو لسانیت اور فرقہ واریت میرے شہر میں ایسا پھیل گیا کہ لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن گئے۔ کراچی پر کسی نے وہ توجہ نہیں دی جو کراچی کا حق تھا، جنرل پرویز مشرف نے ضرور اپنے دور حکومت میں اس شہر کو تعمیر کرنے کی کوشش کی، آج جب میں اپنے شہر کی طرف دیکھتا ہوں تو رونا آتا ہے، ہر مافیا اس شہر میں موجود ہے، ہر سیاسی جماعت اس شہر کو لوٹ کا مال سمجھ رکھا ہے، 70 سال میں سب سے زیادہ اس شہر کا بیڑہ غرق پیپلز پارٹی کی حکومت نے کیا، آج بھی یہ سلسلہ جاری ہے۔
اس شہر کا نوجوان تباہ ہورہا ہے وہ شہر جو نقل سے نفرت کرتا تھا آج اس شہر کے نوجوانوں کو نقل مافیا نے تباہ کرکے رکھ دیا ہے۔ وہ نوجوان جو قلم دوست تھا اُس کے ہاتھوں میں نااہل سیاست دانوں نے بندوق دے دی، آج میں جب اخبار میں یہ خبر پڑھتا ہوں کہ فلانے قبرستان میں چھپایا گیا اسلحے کا ذخیرہ پکڑا گیا۔ ارے قبرستان تو وہ جگہ ہے جو مقام عبرت ہے مگر ہمارے لوگوں نے تو اُس جگہ کو بھی نہیں بخشا، آج دبئی کو دیکھ لیں اور کراچی کو دیکھ لیں، گدھوں پر سفر کرنے والے یہ عربی لوگ کہاں سے کہاں پہنچ گئے، آپ چائے کا کپ ہاتھ میں لے کر آرام سے گاڑی میں پی سکتے ہیں جب کہ اُس وقت گاڑی 120 کلو میٹر کی رفتار سے چل رہی ہو اور کراچی کی روڈوں پر تو کسی کا باپ چلتی گاڑی میں پانی بھی نہیں پی سکتا، میں جب میت گاڑی کا حال دیکھتا ہوں تو افسوس ہوتا ہے، آج کراچی کی کوئی روڈ بھی سلامت نہیں ہے، جگہ جگہ گندے پانی اور کچرے کے انبار نظر آتے ہیں، ایسا لگتا ہے کہ ہم کسی گاؤں میں سفر کررہے ہیں، اربوں روپے کما کر دینے والے کراچی کو کس جرم کی سزا دی جارہی ہے۔



ہمارے میئر کراچی جناب وسیم اختر صاحب ہر وقت روتے ہوئے نظر آتے ہیں کہ ہمارے پاس نہ اختیار ہے اور نہ وسائل۔ بھائی جب بار بار آپ اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہیں تو اس عہدے کو چھوڑ کیوں نہیں دیتے۔ ایم کیو ایم کو کراچی والوں نے ووٹ دے کر طاقت دی مگر طاقت ملنے کے بعد ایم کیو ایم نے کراچی والوں کو کیا دیا، ہمارا نوجوان کل بھی بے روزگار تھا اور آج بھی بے روزگار ہے۔ ایم کیو ایم غریب اور مڈل کلاس کے مسائل کے حل کے لیے وجود میں آئی، الطاف حسین غریب اور مڈل کلاس کے لوگوں کو آگے لے کر آئے مگر وہ غریب جو پیدل علاقے میں گھومتا تھا، پارلیمنٹ کا رکن بننے کے بعد وہ لکھ پتی اور کروڑ پتی بن گیا۔ متحدہ میں اب کوئی غریب نہیں ہے، متحدہ اب غریب مہاجروں کی جماعت نہیں رہی، آج اگر متحدہ نے شہر کی خدمت کی ہوتی تو اُس کا آج جو حشر ہورہا ہے وہ نہ ہوتا آج متحدہ منتشر ہوگئی ہے۔ خیر اس وقت تو میں لاوارث کراچی کی بات کررہا ہوں جہاں گلیوں اور روڈوں پر کچرے کے ڈھیر، حد تو یہ ہے کہ مساجد کے باہر سیوریج کا پانی کھڑا ہونے سے نمازیوں کو شدید دشواری کا سامنا ہورہا ہے، کراچی کے کئی علاقوں میں پینے کا پانی میسر نہیں ہے، حد تو یہ ہے کہ قبرستانوں کا حال بہت بُرا ہے، قبروں میں سیوریج کا پانی جارہا ہے اس وقت محمد شاہ قبرستان اور سچل قبرستان میں کئی سال سے سیوریج کا پانی قبروں کو برباد کررہا ہے۔ واٹر بورڈ والے تو کام کرنے کو تیار نظر نہیں آتے، نارتھ کراچی کے سیکٹر 7-B اور 8-A کے اطراف کی نکاسی آب اور سیوریج کی لائنوں کا رُخ واٹر بورڈ والوں نے محمد شاہ قبرستان کی جانب موڑ دیا ہے۔ نیوکراچی جو مکمل طور پر تباہ ہوگیا ہے اس کی تمام روڈیں ٹوٹی ہوئی ہیں، نالوں میں کچرے کے انبار نظر آتے ہیں۔ اس کے علاوہ ہمیں کیا ملا ہے، ٹارگٹ کلنگ، چوری، ڈکیتی، بجلی کی لوڈشیڈنگ، اوور بلنگ۔ مگر کسی سیاسی جماعت کو کراچی سے کوئی ہمدردی نہیں۔
جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو عوامی مسائل کے حل کے حوالے سے اپنے احتجاج ریکارڈ کراتی رہتی ہے۔ KE کے خلاف جماعت اسلامی نے ایک عوامی پٹیشن داخل کی ہوئی ہے، 200 ارب روپے KE نے عوام سے لوٹے ہیں، اللہ کرے ہائی کورٹ کو کراچی کے عوام پر ترس آجائے، کراچی کا بلدیاتی نظام تباہ ہوچکا ہے۔ ہمارے بلدیاتی نمائندوں سے اچھا اور بااختیار تو عالمگیر خان ہے جو فکسڈ نام کی این جی او چلاتے ہیں، وہ اپنی مدد آپ کے تحت وہ کام کرتا ہے جو ہمارے بلدیاتی اداروں کے کام ہیں۔



وزیر بلدیات سندھ دونوں ہاتھوں سے کراچی کے وسائل کو لوٹ رہے ہیں، کراچی تو کراچی وہ پورے سندھ میں سرکاری زمینوں پر قبضہ کروا رہے ہیں۔ کے ڈی اے کے افسران ارب پتی بن گئے، ناصر عباس نے بے پناہ دولت کمائی، آج وہ اندر ہیں، واٹر بورڈ کو مصباح الدین فرید نے تباہ کردیا، کراچی کو کراچی والوں نے ہی تباہ کیا، فیڈرل بی ایریا کے کئی علاقوں میں فیکٹریوں کا کیمیکل زدہ آلودہ پانی لوگوں کے گھروں میں داخل ہورہا ہے اس وقت شہر میں کئی مقامات پر سیوریج لائن چوک پڑی ہیں، 7 مہینے سے سلیم سینٹر گلشن اقبال کی سیوریج لائن بند ہے، اداروں کے آپس کے اختیارات اور اختلافات کی وجہ سے کراچی کی عوام بے حد پریشان ہے، میری ملک کے حکمرانوں سے اور کراچی کو Own کرنے والی سیاسی جماعتوں سے ہاتھ جوڑ کر اپیل ہے کہ میرے لاوارث شہر کے حقیقی وارث بن کر اس شہر کے تباہ شدہ انفرااسٹرکچر کی دوبارہ سے تعمیر کی جائے، جرائم کا خاتمہ کیا جائے، تمام مافیا سے کراچی والوں کو آزادی دلائی جائے اگر ہوسکے تو ایک سال کے لیے کراچی کو ٹیکس فری کردیا جائے اور ایماندار افسران محکموں میں لگائے جائیں، خداراہ کراچی پر رحم کریں۔
KE کراچی کا وہ سفید ہاتھی ہے جو بے قابو ہے، انصاف فراہم کرنے والے ادارے اُن کے خلاف فیصلے بھی کرتے ہیں مگر ان فیصلوں پر عملدرآمد نہیں ہوتا، جماعت اسلامی نے KE کی لوٹ مار کے خلاف ایک بڑی مہم چلائی مگر افسوس کہ اُس مہم کا زور بھی ٹوٹ گیا، عوامی پٹیشن کا اب تک کوئی فیصلہ سامنے نہیں آیا، نارتھ کراچی کے تمام فیلٹوں میں KE والوں نے Digital میٹر لگادیے جو پرانے میٹروں سے 35 فی صد تیز چل رہے ہیں اگر گھر میں موبائل چارج کریں گے تو اُس پر بھی یونٹ گرے گا، 2 کمروں کے فلیٹ کا بل 5 سے 7 ہزار تک وصول کیا جاتا ہے۔ چور میٹر لگانے کے بجائے بل فکسڈ کردیا جائے۔ 120 گز کے فلیٹ پر 2 ہزار روپے ماہانہ، 200 گز 4 ہزار، 300 گز 5 ہزار، 400 گز 8 ہزار، سنگل اسٹوری 80 گز اور 60 گز 1000 روپے ماہانہ فکسڈکردیا جائے، مگر KE تو ایک بے لگام ادارہ ہے اُن کے دفاتر میں موجود عملہ انسان کے روپ میں فرعون ہے جن کو صارف سے بات کرنے کی تمیز تک نہیں ہے۔ عوام لوڈشیڈنگ دن کی تو برداشت کرلیتی ہے مگر مغرب کے بعد کی لوڈشیڈنگ ناقابل برداشت ہے، نارتھ کراچی میں رات 10 سے 12189 بجے تک بجلی غائب رہتی ہے اس دوران وارداتیں عروج پر ہوتی ہیں، بچوں کی تعلیم متاثر ہوتی ہے، ہماری نسلیں تباہی کی طرف جارہی ہیں مگر حکمرانوں کو شرم نہیں آتی۔ چیف جسٹس ہائی کورٹ KE کے خلاف ازخود نوٹس لے کر اس سفید ہاتھی کو لگام دیں، عوام آپ کو دعائیں دیں گے۔ پاکستان اور پاکستانی عوام کو بچایا جائے۔