احمد اعوان
خواجہ آصف کے نیویارک میں ایشیاء سوسائٹی سے خطاب کی ملک کے صف اول کے تمام اخبارات نے واضح تشہیر کی۔ خواجہ آصف کے اس بیان پر کہ حقانی نیٹ ورک اور حافظ سعید پاکستان کے لیے بوجھ ہیں، اس پر لبرل اور مذہبی حلقے اپنے اپنے جذبات کا کھل کر اظہار کررہے ہیں۔ مذہبی حلقے خواجہ آصف کے بیان کو ملک دشمنی، غداری جیسے القابات سے نواز رہے ہیں مگر ہمارے خیال میں یہ درست نہیں ہے۔ خواجہ آصف سمیت مسلم لیگ (ن) کی تمام اعلیٰ قیادت اس نقطے پر کافی عرصے سے متفق ہے کہ ہمیں بین الاقوامی برادری کے سامنے ملکی صورت حال کو صاف صاف واضح کردینا چاہیے۔ یہ بیان بھی اسی سلسلے کی کڑی ہے، پاکستان کی دو بڑی سیاسی پارٹیوں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی میں ایک واضح فرق ہے وہ یہ کہ مسلم لیگ (ن) اقتدار میں آنے کے بعد خارجہ پالیسی پر خاص توجہ دیتی ہے۔ مسلم لیگ (ن) پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات اچھے کرنا چاہتی ہے اور جنگ کے خطرات کو جتنا کم کرسکے اس کی کوشش کرتی ہے پڑوسیوں سے تعلقات اچھے کرنے کے چکر میں اکثر مسلم لیگ کے تعلقات گھر کے اندر خراب ہوجاتے ہیں اور وہ اس کی متعدد مرتبہ قیمت بھی چکا چکی ہے۔ جب کہ پیپلز پارٹی کی صدارت جب سے آصف علی زرداری نے سنبھالی ہے تب سے پیپلز پارٹی کے تعلقات اندرون ملک قوتوں سے آئیڈیل ہیں۔ آصف علی زرداری کو خارجہ سے زیادہ خزانہ سے دلچسپی ہے لہٰذا وہ اس فکر سے آزاد ہیں کہ پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات کس طرف جاتے ہیں اس لیے سرکار کو پیپلز پارٹی تحریک انصاف سے بھی زیادہ اچھی لگتی ہے۔ آصف علی زرداری کی آرمی میں فوٹنگ نہ ہونے کے برابر ہے۔ جس کی وجہ سے وہ آرمی کے معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتے۔ اگر تحریک انصاف 2018ء میں اس خوش فہمی کا شکار ہے کہ اقتدار اس کے حوالے کیا جائے گا تو یہ تحریک انصاف کی بہت بڑی غلط فہمی ہے۔ بلاول کو یہ پیغام پہنچایا جاچکا ہے کہ اگر وہ اپنے والد سے جان چھڑالے تو اسٹیبلشمنٹ کو بلاول سے کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ پرویز مشرف کا بی بی کے قتل کا الزام آصف علی زرداری پر لگانا اسی سلسلے کی کڑی ہے۔ اس بار پھر سیدھی دکھا کر الٹی ماری جائے گی، تحریک انصاف اسمبلی میں تو ضرور ہوگی مگر اس قدر مضبوط نہیں کہ اکیلی حکومت یا اپوزیشن چلاسکے اور اس کی وجہ عمران خان کا بچکانہ پن ہے۔
نواز شریف اور شہباز شریف کی پچھلے عرصے میں پاکستان کی ترقی کے لیے کی جانے والی کاوشوں کو نظر انداز کرنا زیادتی ہوگی۔ نواز شریف پاکستان کو ترقی یافتہ ملک بنانا چاہتے ہیں اب بات کو جوڑتے ہیں خواجہ آصف کے بیان سے۔ مذہبی حلقے جن قوتوں کی مان کر کشمیر اور افغانستان میں ایک عرصے لہو بہاتی رہی ہیں ہوسکتا ہے وہ قوتیں کچھ عرصہ مزید ان استعمال کندہ تنظیموں کی حفاظت کریں مگر دیر تک یہ سب نہیں چلے گا۔ حکومت پاکستان اور سرکار، دونوں یہ چاہتی ہیں کہ پاکستان ترقی کرے۔ اس لیے اصل قدر’’ترقی‘‘ ہے۔ دنیا کا ہر وہ ملک جو ترقی کرنا چاہتا ہے وہ سب سے پہلے جس چیز سے آزادی اور چھٹکاراہ حاصل کرتا ہے وہ مذہب ہوتا ہے۔ اس جملے کا مطلب یہ نہیں کہ پاکستان کا کوئی مذہب نہیں ہوگا۔ ہوگا ضرور ہوگا مگر برائے نام۔ اس مذہب کے نفاذ کی اجازت نہیں ہوگی۔ مذہب آپ کا ذاتی معاملہ ہے۔ اگر آپ کو مذہب پر عمل کرنا ہے تو کریں۔ لیکن ریاست اس معاملے میں آپ کو اختیار نہیں دے گی۔ قومی ریاست کا ویسے بھی کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ ہر قومی ریاست آخرکار سرمایہ دارانہ ریاست میں تبدیل ہوجاتی ہے۔
دنیا میں جس ملک نے بھی ترقی کا سفر شروع کیا اس نے سب سے پہلے مذہب کا قتل کیا۔ 17 ویں صدی میں انقلاب فرانس کے ساتھ ہی مغرب نے مذہب کو دفن کردیا۔ مغرب کی ترقی میں سب سے بڑی رکاوٹ مذہب تھا عیسیٰؑ کے پیروکار ہوتے ہوئے کوئی شخص کئی کئی مہینے بند کمرے میں تجربہ کرتا رہے اور جب پادری اس شخص سے چرچ آنے کو کہے، عبادت میں شرکت کرنے کو کہے تو وہ شخص کہے، کہ: ’’میں سائنسی تجربہ کررہا ہوں میں چرچ کی عبادت میں جاکر اپنا دھیان نہیں بٹا سکتا تم چلے جاؤ، مجھے تجربہ کرنا ہے‘‘۔ پادری ایسے سائنس دان کو جوتے لگواتا۔ لہٰذا مغربی فلسفیوں نے سب سے پہلے مذہب سے آزادی حاصل کی، کیوں کہ مذہب سے آزادی ہی ترقی کی نئی راہیں کھولتی ہے۔ وہ عیسیٰؑ جو اپنے پاس دو جوڑے کپڑے نہیں رکھتے تھے، وہ عیسیٰؑ جو سر کے نیچے تکیہ نہیں رکھتے تھے، وہ عیسیٰؑ جو پینے کے لیے کٹورا نہیں رکھتے تھے۔ ان کے پیروکار اربوں روپے چاند پر جانے کے لیے خرچ کردیں۔ کیا یہ عیسائی مذہب کے ہوتے ہوئے ممکن تھا؟
سائنس دان سیاروں پر اس لیے جاتے ہیں کہ زمین کے وسائل تیزی سے ختم ہورہے ہیں اس لیے متبادل سیارے کی ضرورت ہے، اور دنیا کے وسائل ختم بھی سائنس نے کیے ہیں۔ جس طرح مغرب نے ترقی کی راہ میں مذہب کو رکاوٹ سمجھتے ہوئے اس سے آزادی حاصل کی اسی طرح آج ایران اور سعودی عرب ترقی کی راہ پر چلتے ہوئے آہستہ آہستہ تبدیلی کے عمل سے گزر رہے ہیں۔ سعودی عرب نے حال ہی میں عورتوں کو گاڑی چلانے کی اجازت دی جس پر امریکا نے اس اقدام کو سراہا۔ آخر اس معمولی سے اقدام کا امریکی خیر مقدم کیوں؟ سعودی عرب میں تیزی کے ساتھ تیل کے ذخائر ختم ہونے کی طرف جارہے ہیں۔ اس لیے سعودی عرب کو متبادل ذرائع آمدن کی طرف جانا پڑے گا عرصہ ہوا سعودی عرب اپنے ہاں ہر سال ثقافتی ورثہ قرار دیے گئے پہاڑوں میں بنے بتوں کے درمیان میلا لگاتا ہے جس میں دنیا بھر سے سیاح آتے ہیں۔ سعودی عرب ترقی کرنا چاہتا ہے اور ترقی مذہب سے آزادی کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ آج عورتوں کو گاڑی چلانے کی آزادی دی ہے کل یہ عورتیں پردہ بھی اُتاردیں گی۔ سعودی عرب اپنی قوم پرستی کو آئیڈیل کے طور پر لیتا ہے، لہٰذا دنیا میں عظیم قوم وہ ہے جو ترقی یافتہ ہو۔ معیار زندگی کو برقرار رکھنے کے لیے سعودی عرب میں تبدیلی کے خوفناک دور کا آغاز ہوچکا ہے۔ اپنے لوگوں کو معیار زندگی بلند کرنے کی ترغیب دیتا سعودی عرب جلد بادشاہت سے جمہوریت کی طرف آئے گا اور پھر ان قبائلی گروہوں میں وسائل اور حقوق کے حصول کے لیے لڑائیاں ہوں گی جو عرصہ دراز سے بادشاہت میں سکون سے زندگی بسر کررہے تھے یہ سب ترقی کے لیے کرنا پڑے گا۔
خواجہ آصف کا بیان ترقی یافتہ ریاست کی روح کے مطابق ہے مذہبی لوگ اگر عقل کرتے اور ماضی میں استعمال نہ ہوتے تو آج یہ دن نہ دیکھنے کو ملتے۔ حکومت اور سرکاری دونوں ترقی یافتہ پاکستان چاہتے ہیں اور اس کی خاطر میں ممتاز قادری تک کی قربانی دے دی گئی۔ تاکہ دنیا جان سکے کہ پاکستان میں رول آف لا ہے۔ تو بے چارے یہ مذہبی رہنما کیا چیز ہیں؟ اور خود مذہبی رہنما بھی تو کہتے ہیں کہ اسلام ترقی کا حکم دیتا ہے توکیوں نہ اس حکم کی تعمیل کا آغاز آپ سے کیا جائے۔؟؟