شاہِ کلید کی موجودگی میں یہ حال؟

214

ایک مغربی نفسیات دان کے بقول انسان گولی سے نہیں مرتا بلکہ تفکرات سے مر جاتا ہے، یوں اپنی بہترین قوتوں اور صلاحیتوں کو گنوا بیٹھتا ہے، دیکھا جائے تو من حیث القوم ہم بھی ان گنت فکروں کا شکار ہو کر رہ گئے ہیں، وہ دور آگیا ہے کہ بقول اقبال؂
حیاتِ تازہ لائی اپنے ساتھ لذتیں کیا کیا
رقابت، خود فروشی نا شیکبائی و ہوس ناکی
بنی نوع انسان کو تو اشرف المخلوقات ٹھیرایا گیا ہے کہ وہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ مگر افسوس کہ اکثریت مادی ترقی کے دائروں میں گم ہو کر رہ گئی ہے اور اس پر مستزاد الیکٹرونک میڈیا کے طوفان نے بھی ہمیں آزاد نہیں چھوڑا، غرض ہمارا اجتماعی شعور فکری فقدان کا شکار نظر آتا ہے، آج کل یہ عنوان زبان زدِ عام ہے کہ نیا دور خراب ہوچکا ہے۔ پہلے لوگ اپنے کام سے مخلص اور دیانتدار تھے، محنت کو اپنا شعار سمجھتے تھے، ان میں خود داری کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی مگر اب عوام بالخصوص نوجوان اپنے لیے تیار حلوہ چاہتے ہیں، ان میں علم حاصل کرنے کی جستجو اور لگن باقی نہیں رہی۔ انٹرنیٹ اور موبائل کے اثرات بد نے انہیں ٹی وی اسٹار، فلم اسٹار، راک اسٹار کے بننے میں اُلجھا دیا ہے، ہماری تہذیب و تاریخ سے فراموشی کی ایک بڑی وجہ لائبریریوں کی کمی ہے۔ دوسری طرف تعلیمی اداروں میں اچھے اساتذہ کا نہ ہونا بڑا قومی المیہ ہے۔ قصہ مختصر بحیثیت اُمت مسلمہ ہمارے پاس قرآن مجید کی صورت شاہِ کلید موجود ہے جس میں قوموں کے عروج و زوال کی داستانیں ہیں، ہمارے لیے عبرت کا سامان لیے ہوئے ہیں، جنت اور دوزخ کے ہر احوال ہیں ہمارے تمام جملہ مسائل کے حل کی کنجی ہے، اس لیے یہ وسیع و عریض کائنات تو منتظر ہے کہ ہم اس میں اپنے اپنے علم و فہم کے چراغ جلا کر اپنے حصے کی شمع روشن کریں۔
فرح افتخار، عائشہ منزل، فیڈرل بی ایریا