مظفر ربانی
پاکستان کے آئین کی ساری اسلامی دفعات اور خاص طور پر ۱۹۵سی کو خطرات لاحق ہیں ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کہیں بیٹھ کر یہ طے کیا گیا تھا کہ آرٹیکل ۲۰۳ کی آڑ میں آرٹیکل ۱۹۵سی ہی کو ختم کرنے کی طرف قدم بڑھایا جائے اب آ پ سوچ رہے ہوں گے کہ قومی اسمبلی کا حلف نامہ تو آرٹیکل ۱۹۵سی کے تحت نہیں آتا تو اس کا ذکر کیوں ؟ بات آپ کی بھی درست ہے مگر شاطروں نے یہی سوچا تھا کہ اگر حلف نامے سے ختم نبوت کا حلف نکل جائے اور کوئی زیادہ شور شرابہ نہ ہو تو ایسے میں کسی اور موقع پر چپکے سے آرٹیکل ۱۹۵سی پر بھی ہاتھ صاف کرنا آسان ہو جائے گا۔ یہ وہ سازش تھی کہ جس کو عملی جامہ پہنانے کے لیے ایک ایسے وقت کا انتخاب کیا گیا جب پوری قوم ماسوا سیکولر سیاسی منافقین پوری یکسوئی کے ساتھ نااہل وزیر اعظم کو پارٹی صدارت تفویض کرنے پر سراپا احتجاج ہو، اسمبلی میں جعلی ہنگامہ آرائی ہو، قرارداد کی کاپیاں پھاڑی جارہی ہوں تو ایسے میں وہ حلف نامہ کہیں زیر بحث بھی نہیں تھا کہ خاموشی کے ساتھ اس کی عبارت کو قادیانیوں کی طرف سے فراہم کردہ ڈرافٹ کے مطابق تبدیل کر دینے کی گستاخی کی گئی اور اس کو آرٹیکل ۲۰۳ کی آڑ میں اسمبلی سے پاس بھی کروالیا گیا۔ اس وقت پاکستان کی سیاست پر سیکولر منافقین کا قبضہ ہے یہ پہلے ہی کہا جارہا تھا کہ ۲۰۳ کی سینیٹ سے منظوری میں سب کا ہاتھ ہے اس بات کو لوگ ہلکا لے رہے تھے کہ چونکہ ساری ہی سیکولر پارٹیوں کے سربراہ کسی نہ کسی کیس میں الجھے ہوئے ہیں اور نا اہلی کی تلوار تو سب کے سروں پر برابر کی لٹک رہی ہے اس لیے درون خانہ کوئی مک مکا کر لیا گیا۔ مگر جب حقیقت کا پردہ چاک ہوا کہ یہاں تو کاروائی ہی کچھ اور ڈالی جا چکی ہے اور آرٹیکل ۲۰۳ کی آڑ میں حلف نامے ہی کو تہہ وبالا کر دیا گیا ہے تو پاکستانیوں کے کان کھڑے ہوئے اور اس زور کا شدید احتجاج سامنے آیا کے حکمرانوں کی ٹانگیں کانپنے لگیں پھر کوئی کہہ رہا ہے کہ ٹیکنیکل غلطی ہو گئی ہم اس کو درست کر لیں گے اس کے لیے پھر اسمبلی کا اجلاس بلایا جائیگا کب کوئی دوسری قرار دا د پیش ہوگی کورم پورا ہوگا یا نہیں اور بہت سے مسئلے مسائل سامنے آتے رہے۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا کہ اس وقت ایسے حساس ترین معاملے کو چھیڑا ہی کیوں گیا۔ کیا ارکان اسمبلی حلف نامے پر اعتراضات اٹھا رہے تھے اگر ایس کچھ نہ تھا تو زاہد حامد، فواد حسن فواد اور دیگر کو کیوں سوجھی۔ لیکن نہ ہم اتنے بیوقوف ہیں نہ وہ اتنے سادہ ہیں جیسے شیخ رشید کہہ رہے ہیں کہ مجھے تو پتا ہی نہ چلا کہ اسمبلی سے قرار داد پاس ہوگئی کون نہ مرجائے اس سادگی پر شیخ صاحب آپ کو سب سمجھ میں آ رہا تھا مگر اپنی خفت مٹانے اور جواب دہی سے بچنے کے لیے یہ تاثر نہ دیں کہ آپ کو کچھ پتا نہ چلا۔
یہاں پر بینظیر بھٹو مرحومہ کی زیرک سیاست کا حوالہ نہ دینا صحافتی بد دیانتی سے کم نہ ہوگا کہ مرحومہ ایسے حساس معاملات پر کبھی نہ تو اظہار خیال کیا کرتی تھیں اور نہ اپنے کسی پارٹی رہنما کو ایسا کرنے دیتی تھیں حالانکہ سب جانتے ہیں کہ وہ ایک بڑی سیکولر پارٹی کی سربراہ تھیں مگر سیاست کے پیچ و خم سے پوری طرح آگاہ تھیں اسی لیے ان کی ہر طبقے میں برابر مانی جاتی تھی لیکن مسلم لیگ کی عاقبت نا اندیش اور عقل و خرد سے عاری قیادت نے حلف نامے سے نبی کریم ؐ کے نام ہی کو نکالنے کی مکروہ سازش کر ڈالی (نعوذ باللہ من ذالک) پھر یہ کہ اقرار اور حلف جیسے مختلف معنی کے حامل الفاظ کو خلط ملط کرنے کی بھی کوشش کی جس کی رو سے کوئی بھی غیر مسلم اس کو اپنے مقاصد کے لیے استعمال کر سکتا ہے۔
یہ موقع ہے کہ ساری مذہبی سیاسی جماعتیں متحد ہو کر قوم کو ان سیکولر عناصر کا اصل چہرہ اور اصل ایجنڈا دکھا دیں اور قوم کو یہ باور کرائیں کے آئین پاکستان کی اسلامی دفعات کو ان سیکولر عناصر سے کس قدر شدید خطرات لاحق ہیں عوامی رابطوں اور بڑے بڑے جلسوں کا یہی کلیدی نکتہ ہونا چاہیے کہ اگر پاکستان میں اسلامی نظام چاہتے ہو تو ان سیکولر منافقین سے چھٹکارا حاصل کرنا از حد ضروری ہے یہ بھی بعید از امکان نہیں کے یہ سازش ۲۸ جولائی ۲۰۱۷ سے پہلے ہی تیار کی جا چکی تھی جبھی تو پاناما کے بجائے اقامہ کو بنیاد بنا کر نواز شریف کو صرف سابق وزیر اعظم بنا دیا گیا کیوں کہ ملک کا بچہ بچہ جانتا ہے کہ اصل وزیر اعظم اب بھی نواز شریف ہی ہیں اور ایسا شاید عوام کے شدید رد عمل کے پیش نظر کیا گیا ہو۔