مجھے مستور رہنے دو

1090

تحریر: صائمہ راحت ’مجھے مستور رہنے دو‘
جماعت اسلامی حلقہ خواتین ضلع وسطی کے تحت ’حجاب‘ کے موضوع پر سیمینار کا انعقاد
حجاب مہلک بیماریوں سے کیسے محفوظ رکھتا ہے؟ پیما کی رکن ڈاکٹرخولہ عبدالصبور کی گفتگو

ہال میں خواتین کی آمدورفت جاری تھی۔ اسٹیج کو خوب صورتی و سلیقے کے ساتھ پھولوں سے مزین کیا گیا تھا۔ ایک جانب استقبالیہ تو دوسری جانب حجاب اسٹال لگایا گیا تھا۔ جماعت اسلامی ضلع وسطی نشرواشاعت کراچی کے تحت ’یوم حجاب‘ کے موقع پر حجاب سیمینار ’مجھے مستور رہنے دو‘ کا آغاز مقررہ وقت پر اسریٰ نذیر نے سورۃ یٰسین کے پہلے رکوع کی تلاوت و ترجمہ سے کیا۔ مریم فاوق نے نعت ’میں اپنے نبیؐ کے کوچے میں چلتا ہی گیا‘ پیش کی۔ نظم ’سورۂ نور کی روشنی میں چلو‘ بہن ہاجرہ منصور نے ترنم سے پڑھ کر سنائی۔ ثمرین فاطمہ حجاب سے متعلق نظمیں‘ اشعار اور اقوال سنا کر جذبات کو مہمیز کر رہی تھیں۔ حجاب ہر مسلم خاتون کی ضرورت ہے یہ وہ اسلامی طریقہ ہے جس سے مسلم خواتین کی پہچان ہوتی ہے۔ حجاب نہ صرف انہیں تحفظ مہیا کرتا ہے بلکہ انہیں معاشرے میں ممتاز مقام بھی عطا کرتا ہے۔
جیسے جدوجہد ضروری ہے دین کے لیے
ایسے لازمی ہے حجاب خواتین کے لیے



2 بچیوں نے شہید حجاب مروہ الشربینی کی کہانی ان کی اپنی زبانی کو ایک خوب صورت منظر نامے کی شکل میں پیش کیا کہ کس طرح مروہ الشربینی نے اسلامی شعائر کے تحفظ کے لیے عدالت سے رجوع کیا اور شر انگیز یہودی نے اس کو بھری عدالت میں شہید کر دیا۔ وہ شہید ہو کر امر ہوگئی اور پوری دنیا اس کی یاد میں ’یومِ حجاب‘ منانے لگی۔
سیمینار کی مہمان خصوصی ضلع وسطی کراچی کی ناظمہ ثمینہ قمر تھیں۔ تقریب میں مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد کو مدعو کیا گیا تھا کہ وہ حجاب کے متعلق اظہار خیال کریں۔
مقامی اسکول کی استانی عینی شاہنواز نے ’حجاب میں وقار ہے‘ کے موضوع پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ موجودہ دور کا پردہ محض رواج نہیں بلکہ آگہی ہے۔ حجاب کو پورے شعور کے ساتھ (ڈاکٹرز‘ انجینئرز اور اساتذہ) اختیار کر رہے ہیں کیوں کہ حجاب تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ مرد اللہ کی شان کی علامت ہیں اور عورتیں اللہ کی رحمت کی علامت ہیں۔ حجاب اختیار کرنا محض دو گز کا ٹکڑا‘ دوپٹہ یا اسکارف لینا ہی نہیں ہے بلکہ مکمل اسلامی زندگی کی تصویر کی علامت ہے۔ یعنی پوری زندگی کا ہر عمل اسلامی رنگ میں رنگا ہوا ہو اور مکمل طور پر اسلامی احکامات و قوانین کا پابند ہو۔
’حجاب اور صحت‘ کے موضوع پر پیما (PIMA) کی رکن ڈاکٹر خولہ عبدالصبور نے نہایت مؤثر انداز میں بتایا کہ کس طرح سے حجاب مسلم خواتین کو مہلک بیماریوں سے محفوظ رکھتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ امریکا میں سب سے زیادہ پھیلنے والے کینسر ’میلانما‘ نامی اسکن کینسر ہے جس میں 60 فیصد خواتین مبتلا ہیں۔ جب سورج کی روشنی براہ راست انسانی جلد پر پڑتی ہے تو کچھ حساس خلیے ہوتے ہیں جو بہت زیادہ متاثر ہوتے ہیں اور جلد کے کینسر کا سبب بنتے ہیں۔ امریکا میں 15 سے 25 سال کی خواتین میں یہ دوسرے نمبر پر آنے والا کینسر ہے جب کہ 25 سے 29 سال کی خواتین میں یہ پہلے نمبر پر آنے والا کینسر ہے۔
حجاب ماحولیاتی آلودگی سے بچاتا ہے۔ جاپان کے بہت سے علاقوں میں لوگ منہ پر ماسک لگا کر گھومتے ہیں تاکہ گردوغبار اور جراثیم سے بچا جاسکے۔



جب سورج کی شعاعیں براہِ راست سر پر پرٹی ہیں تو دماغ میں موجود فاسفورس کیمیکل پگھلنے لگتا ہے جو یادداشت کو متاثر کرنے کے ساتھ دیگر بیماریوں کا سبب بنتا ہے اس کے علاوہ سورج کی براہ راست شعاعیں انسانی بالوں کو خشک اور خراب کر دیتی ہیں۔
MBAکی طالبہ یسریٰ مریم نے ’حجاب میرا اعزاز ہے‘ کے موضوع پر خوب صورت الفاظ کا چنائو کیا۔ انہوں نے کہا کہ پیارے نبی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ’حیا ایمان کا حصہ ہے‘ حیا اور ایمان ساتھ ساتھ ہیں اس لیے ایمان کا لازمی تقاضا ہے کہ حیا و حجاب کو اختیار کیا جائے۔ قرآن میں اس کے لیے ’خمار‘ ایسی اوڑھنی جو زینت کو چھپا لے اور ’جلباب‘ (بڑی سی چادر) کے الفاظ آئے ہیں یعنی کوئی خاتون جب بھی گھر سے نکلے تو اپنے آپ کو خمار یا جلباب میں چھپاکر نکلے تاکہ شیطان کے حملوں سے محفوظ رہ سکے۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے میدانِ جنگ میں فوجی ہتھیار پھینک کر دشمن کے سامنے کھڑا ہوجائے کہ آئو مجھے مارو۔ اسی طرح اگر عورت بے پردہ ہو کر گھر سے نکلتی ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے کہ وہ سب کو دعوت دیتی ہے کہ آئو مجھے دیکھو۔ بقول اکبر الٰہ آبادی:
بے پردہ نظر آئیں جو کل چند بیبیاں
اکبر زمیں میں غیرتِ قومی سے گڑ گیا
پوچھا جو اُن سے آپ کا پردہ وہ کیا ہوا
کہنے لگیں کہ عقل پہ مردوں کے پڑ گیا
گزشتہ دنوں آسٹریلیا میں سینیٹ کے اجلاس میں ایک خاتون نے مکمل پردے میں شرکت کی۔ اجلاس کے دوران اس نے اپنا حجاب اتار دیا اور پردے کے خلاف تقریر کرتے ہوئے مطالبہ کیا کہ آسٹریلیا میں خواتین کے پردے پر پابندی لگائی جائے۔ اسی اجلاس میں ایک غیر مسلم ممبر نے کھڑے ہو کر ان کے مطالبے کی مخالفت کی اور کہا کہ ہم انسانی آزادی کے علمبردار ہیں تو پھر مسلمانوں کے حجاب پر پابندی کیوں لگائیں؟ ایسا نہیں ہوسکتا، اسی طرح ایک اور غیر مسلم نے بھی اسلام کی حمایت میں تقریر کی۔
اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے
اتنا ہی یہ پھیلے گا جتنا کہ دبائو گے
امریکی خاتون مریم جمیلہ نے اسلام قبول کرکے اپنے آپ کو مکمل اسلامی سانچے میں ڈھالا۔ اسی طرح صحافی ’ایون ریڈلی‘ نے اسلامی قوانین سے متاثر ہو کر اسلام قبول کیا اور حجاب اختیار کیا۔
’حجاب تحفظ اور پاکیزدگی کی علامت‘ پر جیو چینل کی سابقہ اینکر تحریم فاطمہ نے اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اپنے آپ کو ڈھانپنے اور لوگوں کی نظروں سے بچانے کے لیے دوپٹہ لینا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ جب انہوں نے دوپٹہ لینا شروع کیا تو سارے آفس کے مرد (ڈرائیور‘ آفس کے ساتھی) ان کا احترام کرنے لگے اور انہیں خود بھی تحفظ و سکون کا احساس ہوا اس کے لیے ان کو اپنے نفس سے بہت جنگ کرنی پڑی۔ لوگوں کی باتیں سننی پڑیں۔ انہوںنے محرم و نا محرم الفاظ کی معنویت سمجھاتے ہوئے کہا کہ اللہ نے مجھے صرف ان لوگوں کے لیے لکھا ہے جو مجھے دیکھنے کے لائق ہیں (یعنی محرم افراد) اور میری آزادی یہ ہے کہ میں جس کو چاہوں اس کو اپنا آپ دکھائوں ہر شخص مجھے نہ دیکھے۔ بقول شاعر:
لعل و گہر کو حفاظت سے رکھا جاتا ہے
سنگریزے یونہی رستے میں رلتے ہیں
اپنی سابقہ زندگی کے تجربات بتاتے ہوئے انہوں ن ے کہا کہ حقیقی حسن بے حیائی اور بے حجابی میں نہ تھا بلکہ حجاب میں ہے۔ اب مجھے اس بات کا شعور آیا ہے تو میری خواہش اور کوشش ہوتی ہے کہ دوسروں تک بھی یہ بات پہنچائی جائے اور انہیں آگ کے گڑھے میں گرنے سے روکا جائے۔
جامعہ المحصنات کی ڈپٹی ڈائریکٹر نزہت منعم نے ’مجھے مستور رہنے دو‘ کے موضوع پر اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ حجاب کا حکم ربِ کائنات کی طرف سے ہے۔ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا حکم ہے‘ حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خواہش ہے۔
پرانے زمانے میں حجاب انگریزی معاشرت کا حصہ تھا۔ پرانی فلموں میں حجاب کے طور پر سروں پر رومال باندھا جاتا تھا اور آج بھی نرسوں کا لباس اس بات کی عکاسی کرتا ہے۔
اجتماعی زیادتی اور جنسی تشدد کے سب سے زیادہ واقعات یورپ‘ سائوتھ افریقا‘ نارتھ‘ سائوتھ اور سینٹرل امریکا میں ہوتے ہیں جس کی بڑی وجہ بے حجابی ہے جبکہ سعودی عرب‘ مصر‘ سوڈان اور ایران میں جنسی بے راہ روی نہیں ہے کیوں کہ یہاں پر عورتوں کے لیے حجاب لازمی ہے۔ اس لیے معاشرے میں اخلاقی برائیاں عام نہیں ہیں کیوں کہ زیادہ تر برائیوں کی جڑ بے حیائی ہے۔ قرآن پاک میں اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں ’شیطان کے راستے پر نہ چلو‘ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے وہ تمہیں بدی اور فحش راستے پر چلنے کا حکم دیتا ہے۔‘ (سورۃ البقرہ)
پروگرام کے اختتام پر ناظمہ ضلع وسطی ثمینہ قمر نے تمام شرکا اور مہمانوں کا شکریہ ادا کیا اور اپنے اختتامی خطاب میں کہا کہ معاشرے کے بنائو اور بگاڑ میں عورت کا بہت اہم حصہ ہوتا ہے۔ آج آزادی کا پُرفریب نعرہ لگا کر عورت کو غیر فطری وادی میں دھکیلا جارہا ہے۔ معاشرتی‘ معاشی اور سیاسی طور پر عورت کا استیصال کرکے اس کو کمزور بنایا جارہا ہے۔ حجاب کو قید و بند کی علامت بنا کر بے حجابی کو اعتماد اور فخر کا ذریعہ بنایا جارہا ہے۔ الغرض ابلیس اپنے تمام شیطانی ہتھکنڈوں کو استعمال کرکے عورت کو بے لگام آزادی دے رہا ہے جس کے نتیجے میں گھر کا شیرازہ بکھر رہا ہے اور معاشرہ انتشار کا شکار ہو رہا ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ عورت کو اسلامی شعائر کا پابند بنایا جائے اور اسلام نے اس کے لیے جو حدود و قیود مقرر کی ہیں ان میں رہتے ہوئے کام کرنے دیا جائے۔ بقول شاعر:
میں حکمِ رب پہ نازاں ہوں مجھے مسرور رہنے دو
ردا ہے یہ تحفظ کی مجھے مستور رہنے دو