ایک اور جعلی مقابلہ

471

یوں تو ملک کے کئی حصوں سے جعلی پولیس مقابلوں کی خبریں آتی رہتی ہیں لیکن کراچی میں ہونے والا تقریباً ہر پولیس مقابلہ مشکوک نکلتا ہے۔ اس کے باوجود اعلیٰ حکام کے کان پرجوں تک نہیں رینگتی۔ کوئی پوچھ پرسش نہ جواب طلبی۔ اس رویے سے جعلی پولیس مقابلوں کو سند توثیق مل جاتی ہے۔ گویا یہ سرکاری پالیسی ہے کہ جس کو چاہو گرفتار کر کے پولیس مقابلے میں ماردو، کون عدالتی کارروائی، ثبوت و گواہ کا جھنجٹ مول لے، ایک گولی سے فیصلہ ہو جاتا ہے۔ جعلی پولیس مقابلے میں ایس ایس پی راؤ انوار نے بڑی شہرت حاصل کی ہے۔ گزشتہ دنوں ہی انہوں نے سچل گوٹھ میں کئی ایسے افراد کو پراسرار مقابلے میں ہلاک کردیا جو پولیس کی تحویل میں تھے۔ کراچی میں لوگوں کو گھروں سے اٹھانے کا سلسلہ جاری ہے اور ان کے لواحقین یہی دعا کرتے ہیں کہ وہ کسی پولیس مقابلے میں مار نہ دیے جائیں۔ اب مبینہ مقابلے کا ایک نیاکارنامہ سامنے آیا ہے جس میں شعبہ انسداد دہشت (سی ٹی ڈی ) اور رینجرز بھی ملوث ہیں۔ گزشتہ ہفتہ اور اتوار کی درمیانی شب پولیس اور رینجرز نے بلدیہ ٹاؤن کے علاقے رئیس گوٹھ میں محاصرہ کر کے 8افراد کو ہلاک کردیا۔ دعوے کے مطابق مارے جانے والوں کا تعلق کالعدم انصار الشریعہ سے تھا اور اس مقابلے میں انصار الشریعہ کا سربراہ شہریار وارثی عرف ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی بھی مارا گیا اور اس طرح کراچی سے انصار الشریعہ کا قلع قمع کردیا گیا۔ اس کامیابی کا اعلان، رینجرز ہیڈ کوارٹر سندھ میں رینجرز کے ترجمان کرنل فیصل عارف اور پولیس کے محکمہ انسداد دہشت گردی کے اے ڈی آئی جی عامر فاروقی نے مشترکہ پریس کانفرنس میں بڑے فخر سے کیا۔ کہا گیا کہ مارے جانے والے افراد شہر میں دہشت گردی کی بڑی کارروائی کی منصوبہ بندی کررہے تھے، مارے جانے والوں میں شہریار عرف عبداللہ ہاشمی بھی شامل ہے۔ جب کہ شہریار ایک عرصے سے پولیس کی حراست میں تھا اور اس کی گرفتاری کی خبریں اخبارات میں شائع ہوچکی ہیں۔



جسارت نے 23اکتوبر کی اشاعت میں روزنامہ جنگ کی خبر کا عکس شائع کیا ہے جس کے مطابق ’’ انصار الشریعہ پاکستان کا سربراہ کراچی سے گرفتار، یہ تنظیم کا ترجمان بھی ہے‘‘۔ سی ٹی ڈی انسپکٹر فیاض فاروقی نے دعویٰ کیا کہ شہریار عرف ڈاکٹر عبداللہ ہاشمی کو کراچی کی کنیز فاطمہ سوسائٹی سے ستمبر کے پہلے ہفتے میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ ایم کیو ایم کے خواجہ اظہار الحسن پر حملے کے بعد عبداللہ ہاشمی کے علاوہ پسنی سے مفتی حبیب اللہ اور کوئٹہ سے جامعہ کراچی کے لیکچرار مشتاق کو بھی گرفتار کیا گیا ہے۔ ابھی تک ان دونوں کو پولیس مقابلے میں مارنے کی خبر نہیں آئی ہے۔ عبداللہ ہاشمی کی گرفتاری کی خبر 6اور 7ستمبر کو کراچی کے کئی اخبارات میں شائع ہوئی اور ہیرالڈ میگزین نے اس بارے میں 19اکتوبر کو ایک تفصیلی رپورٹ شائع کی۔ سی ٹی ڈی نے یکم ستمبر کو عبداللہ ہاشمی کی گرفتاری کا دعویٰ کیا اور رینجرز نے بھی اس کی تصدیق کی۔ یہ کتنا ’’خطرناک‘‘ شخص تھا کہ قید میں رہ کر بھی پولیس سے مقابلہ کررہا تھا۔ پولیس اور اس کے شعبہ سی ٹی ڈی کے ایسے جعلی مقابلے اب کوئی نئی بات نہیں رہی لیکن حیرت اس پر ہے کہ رینجرز اس مقابلے کا دعویٰ کررہی ہے۔ حیرت تو اس پر بھی ہے کہ ابھی تک کسی طرف سے وضاحت نہیں آئی۔ رینجرز، پولیس اور سندھ کے وزیر داخلہ کچھ تو فرمائیں کہ حقیقت کیا ہے؟ ایسے جعلی مقابلے کب تک چلیں گے۔