ناموس رسالت کا فیصلہ

870

عزت مآب جسٹس شوکت عزیز صدیقی نے ناموسِ رسالت کے عنوان سے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر ایک پٹیشن کا تفصیلی فیصلہ لکھا ہے اور ہم بحیثیت مجموعی اس کی تحسین کرتے ہیں۔ اس کی شق نمبر 24 کے بعض مندرجات اگرچہ نہایت اطمینان بخش ہیں، لیکن بصد ادب بعض مندرجات پر ہمیں تحفظات ہیں۔ قارئین کرام پہلے مذکورہ شق کو مِن وعَن پڑھ لیں:
’’24(الف): چند نامور دانشور یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ مسلمان اپنے نبی سیدنا محمدؐ کے لیے کٹ مرنے اور تختہ دار پر چڑھنے کے لیے کیوں تیار رہتے ہیں۔ مسلمان کو اللہ سُبحانہٗ تعالیٰ کا تعارف اور اس کی ہستی کے ہونے کی دلیل آپؐ نے دی، تو اللہ سُبحانہٗ تعالیٰ کی ذات کے حوالے سے ایمان و یقین پیدا ہوا۔ اسی طرح قرآن کریم، جو مختلف اوقات میں نبی مہربانؐ کے قلب اطہر پر وحی کی صورت میں نازل ہوتا تھا اور آپؐ اس کی تلاوت فرما کر صحابہ کرام اجمعین کو سناتے تھے، پر اللہ کا کلام ہونے کا یقین اور ایمان اس لیے پیدا ہوا کہ آپ ؐ نے گواہی دی کہ یہ کلام اللہ کی طرف سے نازل کیا گیا۔ آج ہم قرآن کریم کو جس کتابی صورت میں دیکھتے ہیں، یہ ہرگز اس شکل میں نازل نہیں ہوا تھا۔ اس پہلو پہ غور کرنے سے عاقبت نااندیش مُلحدوں اور کم ظرف دانشوروں کو جواب مل جانا چاہیے کہ اللہ سبحانہٗ تعالیٰ کی ہستی اور قرآن مجید کا الہامی کتاب ہونا نبی آخر الزماں ؐ کی گواہی کا ثمر ہے۔
(ب) ایسے ہی افراد پر مشتمل ایک مخصوص طبقہ کئی دہائیوں سے توہین رسالت کے قانون پر برانگیختہ ہے اور قانون پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے ایک دلیل پیش کرتا ہے کہ اس قانون کاغلط استعمال ہوتا ہے، لہٰذا اس قانون کو ختم کردینا چاہیے۔ یہاں قابل غور امر یہ کہ کیا کسی قانون کے غلط استعمال کی وجہ سے اس کا صحیح استعمال بھی روک دینا چاہیے یا غلط استعمال کے اسباب کو دور کرنا چاہیے؟، یقیناًایک عام فہم آدمی بھی یہی رائے قائم کرے گا کہ غلط استعمال کے اسباب دور ہونے چاہئیں نہ کہ قانون۔ یہ ایک مسلمہ حقیقت ہے کہ پاکستان میں آج تک توہین رسالت کے جرم کے ارتکاب کے نتیجے میں کسی بھی مسلم یا غیرمسلم کی سزائے موت پرعمل درآمد نہیں ہوا۔



(ج) پاکستانی معاشرہ کی ساخت اس نوعیت کی ہے کہ یہاں خاندانی دشمنیاں کئی نسلوں تک چلتی ہیں اور قتل اور بدلہ ایک عمومی کارروائی تصور ہوتی ہے اور اگر معاملہ قانونی کارروائی کی طرف جائے تو بے گناہ افراد کو بھی مقدمہ میں ملوث کرنا لازمی شرط ہے۔ یہ عمل صدیوں سے جاری ہے لیکن قانون کے اس غلط استعمال پرنہ کبھی کوئی نوحہ کناں ہوا اور نہ ہی معترض، محض قانونِ توہین رسالت پر تنقید اور ہرزہ سرائی نیک نیتی کو ظاہر نہیں کرتا۔ عدالت اس حقیقت سے بخوبی آگاہ ہے کہ بعض عناصر اپنے ذاتی مذموم مقاصد کے حصول کے لیے اور اپنے مخالف کو عامتہ الناس کے غصے اور غضب کا نشانہ بنوانے اور قانون کے شکنجے میں پھانسنے کے لیے توہین رسالت کا جھوٹا الزام بھی عائد کردیتے ہیں۔ اس سے ملزم اور اس کا خاندان نفرت کی علامت، لائقِ معاشرتی قطع تعلق اور قانونی کارروائی کے تحت واجب سزا تصور ہوتا ہے، گو ایسے واقعات بہت ہی محدود تعداد میں ہیں، لیکن توہین رسالت کا جھوٹا الزام لگانا کسی جرم کی غلط اطلاع دینے اور دفعہ182مجموعہ تعزیرات پاکستان کے تحت سزاوار عمل نہیں ہے، بلکہ یہ ازخود ایک سنگین جرم ہے جو الزام لگانے والا کسی بے گناہ فرد سے توہین رسالت کے الفاظ، حرکات یا عمل منسوب کرکے، کم ازکم خود اس جرم کا ارتکاب کرتا ہے۔ اس لیے غلط استعمال روکنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ توہین رسالت کا لگایا گیا الزام غلط ثابت ہونے پر الزام لگانے والے کو وہ سزا دی جائے جو توہین رسالت کے قانون کی صورت میں موجود ہے۔ اس لیے یہ معاملہ مقننہ کے پاس لیکر جانا ضروری ہے تاکہ ضروری قانون سازی کی جاسکے‘‘۔
پیرا گراف (ب) میں آپ نے پڑھ لیا کہ اس میں عاقبت نااندیش ملحدین اور کم ظرف دانشوروں کا ذکر کیا گیا ہے جو چاہتے ہیں کہ قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت کے غلط استعمال کی آڑ میں اس قانون کو ختم کرادیں۔ پیرا گراف (ج) میں جج صاحب غلط استعمال کے اسباب کا تذکرہ کرتے ہیں اور آخر میں جو حل تجویز کرتے ہیں، اسے ’’اس لیے غلط استعمال‘‘ سے لے کر آخر تک پڑھ لیں۔ اس حل سے ہمیں اختلاف ہے اور یہ رائے کوئی نئی نہیں ہے، اسے قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت کو بے اثر بنانے والے دانشور اکثر پیش کرتے رہتے ہیں۔ اس رائے پر عمل درآمد کے بعد یہ قانون ’’پاکستان پینل کوڈ‘‘ کی زینت تو بنا رہے گا، لیکن عملی نفاذ کے اعزاز سے محروم رہے گا۔ اس کی مثال اس شیر کی سی ہوگی کہ جس کے دانت اور پنجوں کے ناخن جڑ سے نکال دیے جائیں، تو پھر شیر اور بھیڑ میں کوئی فرق نہیں رہے گا، بلکہ اگر مینڈھا بھاری جسم اور نوکدار سینگوں والا ہو، تو وہ شیر کو لہولہان بھی کرسکتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان میں آئین سمیت دیگر قوانین کا استعمال بالکل ٹھیک ہورہا ہے، آئین کو منسوخ یا معطّل کیا جاتا رہا، بے اثر بنایا گیا تو کیا اب ہمیں آئین کی ضرورت نہیں ہے۔ کیا آئے دن عدالتوں میں جھوٹی اور مشتبہ شہادتیں نہیں دی جاتیں، کیا اِس کی پاداش میں اُن گواہوں کو سزائیں دی جاتی ہیں؟۔



فرض کیجیے: دو گواہوں نے عدالت میں گواہی دی کہ فلاں شخص نے ہمارے سامنے فلاں شخص کو قتل کیا ہے اور وہ گواہی جھوٹی ثابت ہوجاتی ہے، تو کیا ان دونوں گواہوں کو سولی پر لٹکا دیا جائے گا۔ بار بارصرف قانونِ تحفظ ناموسِ رسالت کے لیے یہ اصول تجویز کیا جاتا ہے کہ اہانتِ رسول کے مرتکب شخص کے خلاف جس نے گواہی دی ہے، اگر اس کی گواہی جھوٹی نکلتی ہے تو اسے اہانتِ رسول کی سزا دے دی جائے۔ ہمارے دیہی معاشرے میں تو آئے دن ایسا ہوتا ہے کہ جس خاندان کا کوئی فرد قتل ہوا ہے، وہ حقیقی قاتل کے خلاف ایف آئی آر درج نہیں کراتے، بلکہ اس خاندان کے سب سے طاقت ور اور با اثر شخص کے خلاف ایف آئی آر درج کراتے ہیں تاکہ پورا خاندان اپنے سرپرست سے محروم ہوجائے۔ دوسرا سوال یہ ہے کہ فرض کریں: قتل کی سچی چشم دید گواہی دینے والوں کی گواہی وکلا کی ماہرانہ جرح کے سبب عدالت کے معیار پر پوری نہ اتری، پھر اُسے رد کردیا گیا اور مجرم چھوٹ گیا، تو کیا اب ان سچے گواہوں کو محض عدالتی معیار پر گواہی کے قبول نہ ہونے پر سولی چڑھا دیا جائے گا۔ خدارا! انصاف کیجیے!، ایسے لوگ ہم نے علماء کے بھیس میں بھی دیکھے ہیں، جن کے نام یورو اور ڈالر جرمنی اور امریکا کی ویب سائٹس پر موجود ہیں اور جو بظاہر بڑھ چڑھ کر دعویٰ کرتے ہیں کہ قیامت تک کوئی جرأت نہیں کرسکتا کہ قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت کوکوئی تبدیل کرے، مگر جھوٹے الزام لگانے والے کو وہی سزا دی جائے جو توہینِ رسالت کی ہے اور یہی بات جج صاحب نے لکھی ہے، یہ کسی صورت میں قابلِ قبول نہیں ہے، کیوں کہ یہ قانونِ تحفظ ناموس رسالت کو بے اثر بنانے کے مترادف ہے۔ ایسے کسی مفروضہ قانون کے ہوتے ہوئے کوئی اپنی کھلی آنکھوں سے رسالت مآب ؐ، قرآنِ کریم اور شعائرِ دین کی توہین ہوتے ہوئے دیکھے، تب بھی ایف آئی آر درج کرانے اور عدالت میں گواہی دینے سے اجتناب کرے گا کہ کہیں وکلا کی حجت بازیوں کے سبب کل عدالت اسے ہی سزائے موت کا حق دار قرار نہ دے دے۔



اس کے لیے تعزیراتِ پاکستان کی دفعہ 182پہلے سے موجود ہے، اس میں درج ہے: ’’ایسی صورت میں کہ ایک شخص نے جان بوجھ کر کسی کے خلاف غلط مقدمہ دائر کیا ہے، اسے چھ ماہ قید یا جرمانہ یا دونوں سزائیں دی جاسکتی ہیں۔
یہ جرم ’’قابلِ دست اندازئ پولیس‘‘ نہیں ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ پولیس از خود دفعہ 182 کا مقدمہ درج نہیں کرسکتی۔ عدالت کے سامنے پولیس یا کسی شخص کی شکایت کی صورت میں عدالت اس کا حکم دے گی‘‘۔ کوئی ہمیں بتائے کہ قیامِ پاکستان سے لے کر اب تک تعزیراتِ پاکستان کی اس دفعہ کا اطلاق مختلف مقدمات میں گواہی دینے والے کتنے لوگوں پر کیا گیا ہے۔ مزید یہ کہ اس دفعہ میں ’’جان بوجھ کر جھوٹی گواہی دینے‘‘ کی کڑی شرط ہے۔ اگر اس دفعہ کا بھی اطلاق کرنا ہو تو پھر ملک بھر میں چلنے والے تمام مقدمات پر کرنا پڑے گا، مسلمان قانونِ تحفظِ ناموسِ رسالت کے بارے میں جانبدارانہ قانون کو کسی صورت میں قبول نہیں کریں گے۔
قرآنِ کریم کی رُو سے صرف زنا ایسا جرم ہے کہ کوئی کسی پر الزام لگائے یا عدالت میں دعویٰ دائر کرے اور پھر چار چشم دید گواہوں سے وہ الزام ثابت نہ کرسکے، تو پھر الزام لگانے والے پر حدِّ قذف جاری کی جائے گی، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’اور جو لوگ پاک دامن عورتوں پر زنا کی تہمت لگائیں، پھر (اس کے ثبوت کے لیے) چار (چشم دید) گواہ پیش نہ کرسکیں، تو تم ان کو اسّی کوڑے مارو اور (آئندہ) ان کی گواہی کبھی قبول نہ کرو اور یہی لوگ فاسق ہیں، سوائے ان لوگوں کے جو اس کے بعد توبہ کرلیں اور اصلاح کرلیں، تو بے شک اللہ بہت بخشنے والا بے حد مہربان ہے، (النور: 4-5)‘‘۔
اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کو ایک عام مسلمان کی ناموس اس قدر عزیز ہے کہ قطعی ثبوت کے بغیر تہمت زنا کی ممانعت ہے، اس کا معیار ثبوت بھی دیگر تمام جرائم سے زیادہ ہے اور زنا کی جھوٹی تہمت لگانے پر قرآن کریم میں اسّی کوڑوں کی حد مقرر ہے، جسے کوئی سربراہ حکومت بھی ساقط یا معاف نہیں کرسکتا۔ یہاں تک کہ اس پر اجماع ہے کہ آیت نمبر5میں توبہ کی صورت میں جو استثنا ہے، وہ صرف حکم فسق سے برأت تک محدود ہے، پس اگر کوئی شخص کسی پاک دامن عورت پر زنا کی تہمت لگانے کے بعد اس سے رجوع بھی کرنا چاہے، تو پھر بھی اُسے اسّی کوڑے مارے جائیں گے۔ امام اعظم ابوحنیفہ ؒ کے نزدیک توبہ کے بعد بھی اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی، یہ مسئلہ آیتِ قذف اور سنن ابن ماجہ سے ثابت ہے۔ جب اسلام میں ایک عام مسلمان کی ناموس حُرمت کی حق دار ہے، تو اللہ تعالیٰ، رسول مکرم ؐ، قرآنِ کریم اور شعائر دین کی ناموس کی تقدیس کا آپ خود تصور کرسکتے ہیں۔