بائی می بائی می

375
افشاں نوید
کوئی ایسا ویسا شور تھا؟ کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی۔ لگتا تھا اشیاء الماریوں سے ابلی پڑرہی تھیں۔ جتنا لوگوں کا شور تھا اس
سے زیادہ ان چیزوں کا شور۔ اس شور میں ہم میں سے کوئی بھی کچھ سمجھنے کی پوزیشن میں نہ تھا۔ ہم سب اپنی ٹرالیاں بھر رہے تھے اور اندھا دھند ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی کوشش کررہے تھے ۔ کچھ لوگ بھری ہوئی ٹرالیاں دیواروں کے ساتھ کھڑی کردیتے اور لپک کر دوسری ٹرالی لے آتے۔ وہ بھرنا شروع ہوجاتی۔ ایک گھر کے جتنے افراد اس وقت یہاں موجود تھے سب راہداریوں میں ادھر ادھر بھاگ بھاگ کر ریکس میں سے سامان اٹھا اٹھا کر ان ٹرالیوں کے پیٹ بھر رہے تھے۔
سپر اسٹور کی افراتفری دیکھ کر لگتا تھا کہ شاید آج چاند رات ہے اور یہ عید سے ماقبل کے مناظر ہیں‘ مگر ایسا نہیں ہے۔ مہینے کے کسی بھی دن کسی بھی وقت آپ یہاں تشریف لے آئیں آپ کو اتنا ہی رش ملے گا۔ اگر کوئی معصوم دیہاتی پہلی بار ان سپر مارکیٹس میں آئے تو وہ حیران رہ جائے گا کہ ان شہریوں کو اتنے سامان کا کیا کرنا ہے؟ آیا کوئی لوٹ سیل لگی ہے یا کسی آسمانی آفت کی پیش گوئی ہے کہ لوگ دونوں ہاتھوں سے ٹرالیاں بھر رہے ہیں ایسا لگ رہا ہے کہ آج کے بعد یہ موقع ہی ان کے نصیب میں نہیں لکھا۔
میں تو جب بھی کسی سپر اسٹور پر جاتی ہوں مجھے قادر بھائی کی دکان بہت یاد آتی ہے۔ ہماری گلی کے سامنے والی گلی کے نکڑ کا گھر غفار بھائی کا گھر تھا۔ ان کے گھر کے ایک کمرے میں یہ دکان تھی جس کا دروازہ باہر کی جانب کھلتا تھا۔ اوپر نیچے لکڑی کے کئی ریکس لگے تھے باقی چیزیں کچھ کھونٹیوں سے لٹک رہی ہوتیں اور کچھ دو کیلوں کے درمیان فاصلے میں دھاکہ کے ساتھ جھول رہی ہوتیں۔ بڑی بوریاں دیواروں کے ساتھ ترتیب سے لگی ہوئی ہوتیں۔ دکان ان کے بڑے بیٹے قادر بھائی چلاتے تھے ۔ میمن تھے انتہائی تہذیب سے بات کرتے۔ لڑکوں بالوں سے تو منہ ماری ہوجاتی تھی مگر عورتوں اور بچیوں کی بہت عزت کرتے تھے۔ اس دس بائی دس کے کمرے میں ضرورت کی ہر چیز دستیاب ہوتی تھی۔ ماچس سے لے کر سر درد کی گولی اور سوئی دھاگے سے لے کر فنائل کی گولیاں تک۔ خوب رش لگا رہتا تھا ان کی دکان پر صبح سے رات تک ۔ پرائمری اسکول کی عمر میں ہم بھی بھائی کے ساتھ ٹافیاں‘ بسکٹس ‘ مر مرے لڈو‘ نان ختائیاں اور جانے کیا کیا چیزیں ان ہی کی دکان سے لاتے۔ ایک جیلی نم اچیز ہوتی تھی جس پر شکر لگی ہوتی تھی اس کو ’’نہرو کی بوٹی‘‘کہتے تھے۔ اس وقت غالباً71 ء کی جنگ کے فوری بعد یہ بوٹی لانچ ہوئی ہوگی لیکن ہمیں قطعی علم نہ تھا اس وجہ تسمیہ کا اور شاید اس عمر کے کسی بھی بچے کو علم نہ ہو۔ بس بچوں کی دنیا کے بھی اتنے ہی تعیش تھے۔ وہ کوک ‘ آئس کریم ‘ پیزا اور برگر کے تعیش کا زمانہ نہ تھا۔ اب تک ہماری سماعتوں میں کہیں محفوظ ہیں۔ خواتین کی وہ آوازیں کہ ’’قادر بھائی چھولے گلے نہیں ہیں‘ میں واپس کردوں گی‘ چاول تم نے پچھلے بھاؤ پر دیے ہیں مگر نہ وہ خوشبو تھی نہ ذائقہ۔‘‘جواب آتا’’ اچھا بدل کر لے آؤں گا دھوکہ ہوگیا میرے ساتھ‘‘۔ ایک بچے نے کہا ’’قادر بھائی ابا کہہ رہے ہیں تم نے ایک روپے کے پانچ انڈے کردیے رجب بھائی تو اب تک چھ دے رہے ہیں ہم تم سے نہیں لیں گے۔ ’’ہاں ہاں رجب سے لے لو اس کے گھر مرغیاں پلی ہوئی ہوں گی میں تو جس دام لوں گا اسی دام بیچوں گا دو پیسے اپنے بھی تو رکھوں گا۔ ابا سے کہہ دینا پورے بازار میں دام چڑھ گئے ہیں۔‘‘ ایک چھوٹی بچی بولی دادی کہہ رہی ہیں صابن کی ٹکیہ چھوٹی کیوں ہوگئی ہے۔ دام لیتے ہو تو چیز بھی پوری دو قادر بھائی نے بغیر پلٹے بوری میں سے چاول نکال کر خاکی کاغذ کے تھیلے میں ڈالتے ہوئے جواب دیا دادی سے کہہ دینا میں نہیں بناتا صابن جو مال فیکٹری سے آئے گا وہی ملے گا۔ بے ایمانی اوپر سے ہورہی ہو تو نیچے والے کیا کریں۔ الغرض چائے کی پتی کے صحیح رنگ سے لے کر چاول کی خوشبو اور دالوں کے گلنے تک کے قادر بھائی جواب دہ تھے۔
ایسی دکانیں جگہ جگہ گلی کے نکڑ پر ہوتی تھیں۔ محلے والوں کی ساری ضروریات کے لیے کافی ہوتی تھیں۔ عموماً روز کی ضرورت کی چیزیں روز ہی آتی تھیں ماسوائے راشن کی دوچار بڑی چیزوں کے۔ معاشرے کے کتنے گھرانوں کا روزگار یہی تھا۔ تب شاید کچن کے پیٹ بھی اتنے بڑے نہ تھے نہ ضرورتوں کی فہرست اتنی طویل تھی۔
کیش کاؤنٹر کی لمبی قطار میں کھڑے کھڑے ذہن اچانک چار عشرے قبل کے مناظر میں کھو گیا جب خریداری کا تصور بس قادر بھائی کی دکان تک ہی تھا۔
بھری ہوئی ٹرالیاں لیے نڈھال لوگ اب اپنی باری کے انتظار میں کھڑے ہیں جہاں کمپیوٹر ایک ایک چیز کی قیمتیں پڑھ رہے ہیں اور سیکنڈوں میں لمبی لسٹیں نکال رہے ہیں اور لوگ اپنی جیبوں میں ہاتھ ڈالتے ہیں اور کریڈٹ کارڈ کمپیوٹر کے سامنے بیٹھے فرد کے حوالے کرتے ہیں اور دھڑکتے دل سے سوچتے ہیں کہ اتنی خریداری پر اتنا زیادہ میزان بن گیا؟
ایک ہی منظر ہے جو بار بار دھراتا رہتا ہے یہاں۔ لوگ خالی ٹرالیاں لیے داخل ہوتے ہیں۔(مگرمچھ کے ان چرے ہوئے جبڑوں میں انسانی خواہشوں کی یتیمی دیکھی جاسکتی ہے) چکنے فرش اور پھسلتی ٹرالیاں ‘ خود کار زینے‘ جسم کو چھوٹی ٹھنڈی ہوائیں ‘ ہر دو قدم پر یونیفارم پہنے چاق و چوبند لڑکیاں جو ماحول کی دلکشی میں مزید اضافہ کررہی ہیں۔ اس ٹھنڈے ٹھار ماحول میں ہر تھوڑی دیر میں ایک مترنم سی آواز سماعتوں کو بار بار اپنی جانب مبذول کرلیتی ہے۔ سپر اسٹور کی انتظامیہ اپنے گاہکوں کا شکریہ ادا کرتی ہے۔ ان کو نئے مختلف پیکیجز سے متعارف کرایا جاتا ہے۔ اپنے خریداروں کی سہولتوں کے لیے انہوں نے کیا کیا اقدامات کیے ہیں۔ ان سب کی ہدایات ساؤنڈ سسٹم کے ذریعے چاروں منزلوں پر موجود ہر خریدار تک پہنچ رہی ہیں۔ ہم سب خود کو ترقی یافتہ سمجھ رہے ہیں کہاں وہ جمعہ اور اتوار بازاروں کے پھٹے شامیانے‘ رش اور وہ بھی دھول دھپاڑ میں۔ دماغ ہی خراب ہوجاتا تھا۔ ہم بھی ایک متمدن دنیا کے باسی بن رہے ہیں۔ یہ جدید طرز خریداری ہمیں اپنی نظروں میں معتبر بناتا ہے۔ اشیا سے بھرے ہوئے ریکس جو کبھی خالی ہی نہیں ہوتے اس لیے کہ ان کو ہر آن بڑی تندھی سے بھرا جاتا ہے۔ میں نے ایک بچے کی بلند آواز پر دائیں جانب پلٹ کر دیکھا۔ وہ آٹھ یا نو سال کا بچہ باپ سے ضد کررہا تھا کہ مزید چاکلیٹس چاہیں۔ باپ پیکٹ دکھا کر کہہ رہا تھا کہ اتنے تو ہم خرید چکے ہیں وہ بضد تھا کہ آپ نے ’’لوکل‘‘ خریدی ہیں۔ عاشی نے کہا تھا کینڈیز لوکل نہیں لانا ہے۔(غالبا بہن ہوگی اس کی عاشی) باپ نے خفا ہوکر کہا پچھلی بار کتنی چیزیں لے گئے تھے تم سب پڑی ہیں گھر میں وہ بولا میں اسی لیے امی کے ساتھ آتا ہوں مجھے مزہ نہیں آتا آپ کے ساتھ۔ ایک خاتون کوئی پانچ برس کی بچی کو زبرستی ہاتھ گھسیٹتے ہوئے لفٹ کی طرف بڑھ رہی تھیں۔ میں نے بچی کے آنسو دیکھ کر پوچھا لیا کہ بچی رو کیوں رہی ہے بولیں۔ ہر دفعہ اتنے کھلونے لے جاتی ہے۔ نئے کھلونے دیکھ کر مچل گئی ہے یہ سب گھر میں پڑے ہیں۔ میں نے سوچا اس معصوم کی تو خواہش بھی معصوم سی ہیں یہاں ریکس میں پڑی اشیاء میں سے ہر شے کے لمبے لمبے بازو ہیں وہ کبھی ہمارا دامن کھینچتے ہیں۔ کبھی ہاتھ پکڑ لیتے ہیں۔ کبھی شانے پر چٹکی لیتے ہیں کہ آگے کیوں بڑھ گئے مجھے لیے بنا۔ میرے دونوں بازو واقعی تم سے ملنے کے لیے ۔ تم سا بے نیاز تو کوئی نہیں یہاں۔ دیکھ خود سے آنکھیں نہ چراؤ یہاں کی ہر شے ہمارے لیے ہے۔ تمہاری زندگی کو خوبصورت اوپر لطف بنانے کے لیے یہ لوگ باگ جو دوڑ دوڑ کر ٹرالیاں بھر رہے ہیں ایک راہداری سے دوسری میں جارہے ہیں متلاشی نظریں جانے کیا تلاش کررہی ہیں کہ ٹرالیوں سے پیٹ بھر رہے ہیں مگر نظروں کی تلاش ختم ہی نہیں ہوتی۔ دماغ دل سے بار بار پوچھتا ہے سنو جلدی بتاؤ میری او رکیا کیا ضروریات ہیں۔ دل کہتا ہے میری مانو یہ سب کچھ تمہارے لیے ہے۔ پیسوں کا کیا ہے ہاتھ کا میل ہے۔ پیسہ تو ہے ہی زندگی کو خوبصورت اور پر لطف بنانے کے لیے خوشیوں کے سارے سامان ہیں یہاں۔ اپنا دامن خوشیو سے بھرپور زندگی ایک بار ہی ملی ہے۔ اسے سلیقے سے گزارنے کا فن سیکھو۔ یہ سب چیزیں تمہیں زندگی کا سلیقہ سکھانے کے لیے ہیں۔ تب ہی میں نے چالیس روپے کا ٹوتھ پیسٹ واپس رکھ کر تین سو روپے کا خرید لیا کہ آخر عقل کے اندھے تو نہیں وہ لوگ جو اتنامہنگا خریدتے ہیں۔ دانت بڑی قیمتی شے ہیں۔ ضرورت کی اشیاء کے دو انتہائی معیارات ہیں ہر جگہ آپ کہاں کھڑے ہوتے ہیں یہ فیصلہ بڑا مشکل ہے۔ اسی ضرورت کو پورا کرنے والی چیز سو روپے میں بھی دستیاب ہے اور ہزار روپے میں بھی۔ آپ لاکھ نظریں بچائیں لگتا ہے اشیاء کو زبان مل گئی ہے بائی می۔ بائی می۔ بائی می۔ بیشتر اشیاء پر قیمتیں درج نہیں ان کو کمپیوٹر کی آنکھ ہی پڑھ سکتی ہے۔ کوئی روک ٹوک کرنے والا نہیں کسی شے کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کوئی نظر آپ کا تعاقب نہیں کررہی۔ ہاں یہ سب کے علم میں ہے کہ کیمروں کی خفیہ نظریں شاید ہر اک کے اوپر ہیں۔ اس لیے لوگ بڑے مہذب انداز میں خریداری کرتے ہیں۔ کوئی قادر بھائی نہیں جس سے آپ قیمت کے بڑھنے یا اشیاء کے معیار پر بات کرسکیں۔ سرمایہ دار نے آپ کا اندھا اعتماد حاصل کرلیا ہے۔ اشیاء کے تعیشات کو انتہائی ہوشیاری سے اشیائے ضروریات کی فہرست میں شامل کرادیا گیاہے۔ خواہشوں کی کیمسٹری بھی یہ ہے کہ انہیں جتنا پورا کیا جائے وہ اتنی ہی بڑھتی ہیں۔ قادر بھائی جیسی دکانیں دم توڑ رہی ہیں۔سپر اسٹور جدید ثقافت کا حصہ بن رہے ہیں۔ جو ہر ایک کو یہی احساس دلاتے ہیں کہ زندہ رہنے کے لیے مزید دولت کی ضرورت ہے۔ معیار زندگی بلند کرنا آپ کی اولین ضرورت ہے۔ لوگوں کے پاس بہت کچھ ہے آپ نے مفلسی کی زندگی گزار کر اچھا نہیں کیا۔ اب بھی وقت ہے مزید دھن دولت کمانے کے طریقوں پر غور کیجیے۔ بڑے بڑے اسکرین‘ اشیاء کی تشہیر کے نئے نئے انداز‘ قیمتی فانوس‘ پرتکلف ڈسپلے‘ چکاچوند روشنیاں جانے کس کس کو کیا کیا پیغام دے رہی ہوتی ہیں۔ بائی می۔ بائی می کے شور سے بچتے بچتے آپ کے اعصاب شل ہونے لگتے ہیں۔
میں نے سپر اسٹور سے باہر نکل کر پلٹ کر اس کے بلند و بالا مرکزی دروازے کی طرف دیکھا اور سوچا کہ کاش دروازے کی پیشانی پر کوئی تحریر کردے کہ
’’اے ہمارے رب ہمیں ان اشیاء کی حقیقتیں اسی طرح دکھا جیسی کہ وہ ہیں۔‘‘