امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن پاکستان کے مختصر دورے پر تشریف لائے اور چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے بقول ایسے آئے جیسے کوئی وائسرائے آتا ہے۔ وہ اپنے ساتھ پاکستان کے لیے نئی شرائط کی فہرست بھی لائے ہیں اور پاکستان کی سرزمین پر قدم رکھنے سے پہلے ہی ٹلرسن نے احکامات جاری کرنے شروع کردیے۔ ٹلرسن نے منگل کو آمد کے بعد وزیر اعظم ہاؤس میں شاہد خاقان عباسی سے ملاقات کی اور پاکستانی وزراء سے مذاکرات بھی کیے۔ اس پر بجا طور پر یہ اعتراض سامنے آیا ہے کہ وزیر اعظم کو ٹلرسن سے ملاقات کرنے کے بجائے انہیں وزیر خارجہ پاکستان تک محدودرکھنا چاہیے تھا۔ امریکا کو اس کی اوقات یاد دلانی چاہیے لیکن اس کے لیے بڑی ہمت کی ضرورت ہے۔ بھیک مانگنے والوں کے پاس کوئی اختیار نہیں رہتا۔ یوں تو بڑھ چڑھ کر کہا جارہا ہے کہ اب ڈو مور کا مطالبہ نہیں چلے گا گو کہ پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف امریکا میں اس کا وعدہ کر آئے ہیں ۔ لیکن ٹلرسن پھر یہی رٹ لگاتے ہوئے تشریف لائے ہیں ۔ پاکستان آنے سے پہلے انہوں نے کابل کا غیر اعلانیہ دورہ کیا تاکہ امریکا کی زیر دست کابل انتظامیہ سے بھی پاکستان کے خلاف کچھ مواد حاصل کرلیا جائے۔ انہوں نے صدارتی محل میں صدر اشرف غنی سے ملاقات میں خطہ کے لیے امریکا کی نئی پالیسی کا اعلان کیا اور پاکستان سے مطالبہ کیا کہ امریکا سے اس کے تعلقات کا انحصار اس پر ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کا صفایا کرے، یہ بات پاکستان پر واضح کردی ہے۔ ٹلرسن یہ بھی بتا دیتے کہ 2002ء سے قبضے کے باوجود امریکا اور اس کے صلیبی حواری افغانستان سے دہشت گردوں کا صفایا کیوں نہیں کرسکے۔
عسکری لحاظ سے امریکا کے پاس پاکستان کے مقابلے میں نہایت جدید اسلحہ اور ٹیکنالوجی ہے لیکن وہ افغانستان میں امن قائم کرنے میں ناکام ہے۔ امریکا کے مقابلے میں افغان مجاہدین کے پاس جدید ترین اسلحہ تو نہیں لیکن اپنے وطن کو آزاد کرانے کا جذبہ وافر ہے۔ مجاہدین موت سے نہیں ڈرتے جبکہ امریکی فوجی اپنے محفوظ اڈوں ہی تک محدود رہتے ہیں اور امریکا زمین پر اترنے کے بجائے فضا سے حملے کرتا رہتا ہے۔ ان حملوں میں بے گناہ مارے جارہے ہیں جس سے افغانوں میں انتقام کے شعلے بھڑکتے ہیں۔ اب تو اطلاعات کے مطابق امریکا نے اپنی پروردہ دہشت گرد تنظیم داعش کو بھی افغانستان پہنچا دیا ہے۔ پاکستان سے مطالبہ ہے کہ وہ امریکا سے تعلقات چاہتا ہے تو دہشت گردوں کو ختم کرے۔ جب کہ پاکستان از خود دہشت گردوں کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جس میں متعدد قیمتی جانیں قربان ہوچکی ہیں ۔ ان شہیدوں کی تعداد افغانستان میں مارے جانے والے فوجیوں سے کئی گنا زیادہ ہے۔ ٹلرسن نے کابل میں فرمایا کہ امریکا افغانستان میں امن و استحکام اور دہشت گردوں کی محفوظ پناہ گاہوں کے خاتمے کے لیے پرعزم ہے۔ تو گزشتہ 16برس سے کیا ہو رہا ہے، یہ عزم کہیں نظر کیوں نہیں آتا۔ اس کے لیے پاکستان کے کندھے پر نہیں بلکہ پشت پر بندوق رکھنے سے کیا یہ عزم پورا ہو جائے گا۔ وزیر اعظم شاہد خاقان نے کہا ہے کہ پاکستان دنیا میں دہشت گردی کے خلاف سب سے بڑی جنگ لڑ رہا ہے۔ اب ڈومور کی گنجائش نہیں، افغانستان میں قیام امن سے سب سے زیادہ فائدہ پاکستان کو ہوگا۔ لیکن جب تک امریکا افغانستان پر قابض ہے یہ ہدف حاصل نہیں ہوسکتا۔