چیئرمین نیب ریٹائرڈ جسٹس جاوید اقبال نے انتباہ کیا ہے کہ اب مقدمات فائلوں اور الماریوں میں بند نہیں رہیں گے ، بدعنوانی کا خاتمہ میری اولین ترجیح ہے۔ اگر ایسا ہو تو کیا ہی بات ہے اور اس سے یہ بھی واضح ہو رہا ہے کہ اب تک اہم مقدمات فائلوں اور الماریوں میں بند کر کے رکھے گئے تھے۔ نیب کے بارے میں عدالت عظمیٰ بھی بہت منفی تبصرے کرچکی ہے چنانچہ امید ہے کہ اب نئے چیئرمین تیزی سے کارکردگی دکھائیں گے۔ انہوں نے پی آئی اے کے طیارے کی سستے داموں فروخت کے علاوہ ملتان میٹرو بس منصوبے میں بدعنوانی کی تحقیقات کا حکم بھی دے دیا ہے۔ ملتان میٹرو بس کا معاملہ اس لحاظ سے زیادہ اہم ہے کہ اس منصوبے میں جب کرپشن کی خبریں آئی تھیں تو وزیر اعلیٰ پنجاب شہبازشریف نے بڑے طنطنے سے دعویٰ کیا تھا کہ اگر ایک پیسے کی بدعنوانی بھی ثابت ہوگئی تو عوام ان کا گریبان پکڑلیں اور یہ کہ وہ ہمیشہ کے لیے سیاست چھوڑدیں گے۔ گو کہ انہوں نے برسوں پہلے یہ دعویٰ بھی کیا تھا کہ ن لیگ کو اقتدار ملاتو صرف چند ماہ میں بجلی کی لوڈ شیڈنگ ختم ہو جائے گی ورنہ ان کا نام بدل دیا جائے۔ لوڈ شیڈنگ ختم ہوئی نہ شہباز شریف کو نیا نام مل سکا۔ اب اگر ملتان میٹرو بس میں بدعنوانی کے ثبوت مل گئے تو کیا پنجاب اپنے وزیر اعلیٰ سے محروم ہو جائے گا۔ اس کا امکان تو نہیں ہے۔
حکمران طبقے کوئی نہ کوئی جواز ڈھونڈ نکالتے ہیں۔ چیئرمین نیب جناب جاوید اقبال کا کام بڑا کٹھن ہے، اعتراضات آتے رہیں گے، دباؤ بھی بڑھ سکتا ہے۔ گزشتہ پیر کو پیپلز پارٹی کی اہم شخصیت شرجیل میمن پر ہاتھ ڈالا گیا تو پوری پیپلز پارٹی نے واویلا شروع کردیا اور ن لیگ کی پیروی کرتے ہوئے پی پی ترجمان نے کہا کہ شرجیل کو انتقام کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ یہی شور تو نواز شریف، مریم نواز اور ن لیگ کے تمام حواری مچا رہے ہیں ۔ پارٹی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات چودھری منظور نے اسلام آباد سے اعلان کیا کہ ن لیگ کے ساتھ جو ہو رہا ہے وہ ’’کیٹ واک‘‘ احتساب ہے اور ہم سے شودروں جیسا سلوک ہو رہا ہے۔ چودھری منظور کو شاید یاد نہیں رہا کہ سندھ پر انہی ’’شودروں‘‘ کی حکومت ہے۔ اگر کسی چہیتے نے بدعنوانی کی ہے تو اس کی پشت پناہی کرنا زیب نہیں دیتا، عدالت میں الزام غلط ثابت کیا جائے۔ دوسروں سے موازنہ کرنا بے معنیٰ ہے۔