کھولا ہے جھوٹ کا بازار ، آؤ سچ بولیں

875
سچائی کے معاملے میں ہم کتنا ’سچ‘ بولتے ہیں۔لکھتے ہیں۔بیان کرن کرتے ہیں۔حلفاً اقرار کرتے ہیں کہ جو کچھ بھی کہوں گا سچ کہوں گا ۔سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گا۔ حقیقت میں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔کتابوں میں لکھی گئی بات کو صرف پڑھنے کی حد تک اور کہیں بات کرتے ہوئے محفل میں جھوٹ کو سچ میں بدل دیتے ہیں جب کہ عملی طور پر ایسا کچھ نہیں ہوتا۔اس معاملے پر میں نے بہت غور کرنے کی کوشش کی اور جاننے کی کوشش کی کہ آئنے کے روبرو ہم کچھ اور ہوتے ہیں اورعملی زندگی میں کچھ اور نظر آتے ہیں ۔ رشتے ناطوں میں بھی کسی شرم کا لحاظ نہیں رکھتے ۔ بیٹی باپ سے جھوٹ بولتی دکھائی دیتی ۔کہیں بیٹا ماں سے جھوٹ بولتا ہے۔شوہر اپنی بیوی سے اور بیوی اپنے شوہر سے جھوٹ بول رہی ہے ۔ جونیئر اپنے افسر سے اور افسر اپنے اوپر موجود افسر سے جھوٹ کہے چلا جا رہا ہے۔کبھی آفس تاخیر سے پہنچنے پر ماتحت جھوٹ پر مبنی کہانی گھڑ کر افسران کے دل میں اپنے لیے اظہارِ ہمدردی کا جذبہ پیدا کر لیتا ہے اور اگر کوئی غلطی سے تاخیر کی وجہ صاف اور سچ بتلا دے اسے سزا الگ ملتی ہے اور افسران کی نظروں میں برا انسان بن جاتا ہے۔ مقدمے کی کارروائی میں کچھ اور لکھا ہے ،اس کا بیانیہ کچھ اور ہے ، حقیقت کچھ اور بتاتی ہے۔ سبزی منڈی،غلہ گودام اور بازاروں میں اشیا کی قیمت ان کے چہروں سے واضح ہو رہی ہوتی ہے اور ہمیں اس کے بھاؤ کچھ اور بتائے جاتے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟سچ کوئی کیوں نہیں بتاتا؟ کون سی لذت آخر جھوٹ بولنے میں مزا دیتی ہے جو سچ بولنے میں نہیں ۔ کیمرے کی آنکھ سے نظر آنے والے مناظر میں سچائی کچھ اور ہے ،ٹی وی اور اخبار کی پیشانی پر لکھی ہوئی تحریر کا بیان کچھ اور کہانی سنا رہا ہوتا ہے۔ بارہا سوچا ایسا کیوں ہے؟ یہ معاشرے کی کون سی روش ہے جسے ہم اپنائے ہوئے ہیں۔سیاست دان آپ کے منہ پر جھوٹ بولتا ہے، قسمیں وعدے اور لالچ دے کر ووٹ لے کر سب کچھ بھول کر ایوانِ بالا میں بیٹھ جاتا ہے۔ہم صرف تماشا
دیکھتے ہیں اور روکتا کوئی نہیں۔ دہشت گردی کے نام پر ہم سے کتنے جھوٹ بولے جاتے ہیں ۔
siman
جھوٹ دراصل ہے کیا؟کس لذت کا نام ہے جس کے کرنے سے تسکین ملتی ہے جو سچ سے نہیں ملتی ۔جھوٹ کی تعریف کیا ہے؟ کیا سچ کےantonym کو جھوٹ کہتے ہیں؟کیا جھوٹ وہ فعل ہے جو کسی حقیقت کے خلاف ہو؟یعنی دھوکا دینا ،غلط بیانی سے کام لیناوغیرہ وغیرہ۔اس کا ایک پہلو یہ بھی کہ سچائی کو چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔بات کو مکرو فریب سے ایسے بیان کیا جائے کہ سننے والا دھوکا کھا جائے۔ جھوٹ کا آغاز کب اور کیسے ہوا؟روایتوں کے مطابق جھوٹ شیطان کی ایجاد ہے۔تاکہ وہ اپنے بہکاوے میں لا کر انسان کودھوکے میں، فریب میں رکھ کر اس سے ایسے عمل کروائے جو اللہ کو پسند نہ ہوں اور انسانوں کے لیے نقصان کا باعث بنے۔بعض لوگ اپنی شان و شوکت کو بڑھا چڑھا کر پیش کرنے کے لیے جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں اور دوسروں کو متاثر کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔کچھ لوگ عادتاً بھی جھوٹ بولتے ہیں۔یعنی انھیں اس عمل سے دلی تسکین ملتی ہے۔کچھ لوگ اس سے فائدہ حاصل کرنے کے لیے بھی بولتے ہیں۔جھوٹ کی ابتدا دراصل بچپن میں ہی ہو جاتی ہے۔بچہ ماں باپ یا استاد کی مار اور ڈر کے خوف سے جھوٹ بولنا شروع کرتا ہے۔ اس کا خیال ہوتا ہے کہ ایسا کرنے سے وہ بچ جائے گا ۔بچپن ہی سے یہ عادت پختہ ہو جاتی ہے اور اگر اس کی روک تھام ابتدا ہی میں کر دی جائے تو اس کی جھوٹ کی عادت وہیں ختم ہوجاتی ہے۔متعدد اقسام کے جھوٹ اور افواہیں ہمارے معاشرے میں اس طرح پھیلے ہوئے ہیں کہ جنھیں ہم سچ مان لیتے ہیں۔ مثلاً بغیر کسی تحقیق یا غور فکر کے اس کو اپنے دماغ میں بٹھا لینا، سمجھ لینا ، قبول کر لینا ،تسلیم کر لینا اور اسی کو مد نظر رکھتے ہیں حقیقت کو جھوٹ کی نظر سے دیکھنا۔اس طرح کے عمل سے انسان تا زندگی فریب کا شکار رہتا ہے۔کبھی سچ نہیں جان پاتا۔جیسے کوئی بات،واقعہ،کہاوت کسی سے منسوب کی جائے اور اسے پھر نسل در نسل دلوں،ذہنوں میں نقش کروایا جائے۔یوں اصل پر نقل کا غلبہ آجائے اور سننے پر ہی سچ مانا جائے ۔ گلے کا کسی وائرس سے خراب ہوجانا اور ٹھنڈی چیزوں کے استعمال سے روکنا۔حالانکہ ٹھنڈی چیزگلے کو نقصان نہیں پہنچاتی بلکہ اس میں آرام کا باعث بنتی ہے۔ایسا میں نے عمل کر کے بھی دیکھا ہے۔ چمگادڑ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اسے دکھائی نہیں دیتا۔اسے نہ صرف دکھائی دیتا بلکہ اس کی نظر انتہائی تیز ہوتی ہے۔ٹوتھ پیسٹ کبھی بھی جسم کے جلے ہوئے حصے ،داغ یا دانو ں میں مددگار ثابت نہیں ہوتی بلکہ اس تکلیف میں مذید اضافے کا باعث بنتی ہے۔ایسی بہت سی مثالیں ہیں۔
قلم سے تعلق رکھنے والے صحافی،ادیب اور رائٹر حضرات بھی اسی جھوٹ کے لفظ کا سہارا لے کر اپنی تحریروں میں’’چمک‘‘ پیدا کرنے کی کوشش میں مصروف نظر آتے ہیں۔ تحریر جو پیمبروں کی میراث ہے اس کے وارث شیطان کے پیرو کار ہیں۔معاف کیجیے گا یہاں میں اپنی تحریر میں کسی شخصیت کو ٹارگٹ کرنا مقصد نہیں ہے۔ میں خود بھی اس کی زد میں ہوں۔خیالات میں اس قدر جھوٹ کی آمیزش ہوچکی ہے توکیسے یہ تحاریر دلوں کو جھنجھوڑیں،معاشرے پر اثرانداز ہوں۔جبکہ قلم کار کا م ہی معاشرے کی ناہمواریوں،بدکاریوں،سیاہ کاریوں اور نہ جانے اس قسم کے کتنے ہی موجود کچرے کے ڈھیر کو صاف کرنا ہے۔صحافی لکھتا ہے لیکن مفادکی حد تک۔ ادیب لکھتا ہے لیکن اپنی پہچان اور مشہور ہونے کی حد تک۔آپ اردوبازار کا چکر لگائیے ،کتابیں دیکھیے اور فیصلہ کیجیے۔مشاعروں میں جائیے سنیے،نہ جانے کتنی ہی آوازوں میں کوئی ایک آواز ہی آپ کوپسند آتی ہے۔حال یہ ہے کہ سب کے خیالات ،افکار ایک ہی جیسے ہیں۔ آپ ڈاکٹر کو ہی لے لیجیے ،جب کوئی مریض اسپتال جاتا ہے اسے کہا جاتا ہے کہ وہ شام کو ڈاکٹر کے کلینک میں آ جائے وہاں اس کا علاج بہترانداز میں ممکن ہوگا۔یہاں سرکاری اسپتال میں اسے فائدہ کم ہوگا۔اسی جھوٹ کی بنیاد پر مریض ڈاکٹرکے کلینک جاتا ہے، اپنا چیک اپ کرواتا ہے اور ڈاکٹر اسے دوا لکھ کر یہ کہتا ہے کہ وہ دوا لے کر آئے ۔مریض کو چاروناچار اسی کے کلینک میں موجود میڈیکل اسٹور سے دوا لینی پڑتی ہے اور وہ ڈاکٹر کے پاس دوا لے کر جاتا ہے ،ڈاکٹر دوا پر صبح و شام کی پرچی لگا کر دوبارہ آنے کا کہتا ہے۔یعنی اس سے کیا ہوا اس کا مریض کہیں اور نہیں جاتا اور وہ جودوا خریدتا ہے وہ ڈاکٹر کے کلینک ہی سے لے کر جاتا ہے، ڈاکٹر کو اس سے دوہرا فائدہ ہوا۔اس قسم کے عمل ہی سے سرکاری اسپتال کرپشن کا شکار رہتے ہیں۔ جب ڈاکٹرز ایسے ہوتے ہیں تو سرکاری اسپتالوں میں موجود دیگر اسٹاف بھی خود کو خالی نہیں جانے دیتے۔
اساتذہ میں بھی کچھ اس قسم کی برائیاں ہیں۔شفاف اور آزاد عدلیہ کا راگ الاپنے والے بھی مقدمات کوایک دو سماعتوں میں فیصلہ دینے کے بجائے اسے لمبے عرصے کے لیے زندان خانوں میں ڈال دیتے ہیں۔ لاکھوں نہیں تو ہزاروں مقدمات فائلوں کی صورت میں ایک دوسرے کے بوجھ سے دبے رہتے ہیں،دیمک چاٹ جاتی ہے لیکن فیصلے نہیں ہوتے۔ان تمام مسائل کی جڑ جھوٹ کے علاوہ کچھ نہیں ہے۔ یہ مسلم یعنی ہمارے معاشرے کا حال ہے ۔جھوٹو ں پر اللہ نے لعنت دی ہے اور اس ے بچنے کو کہا ہے ۔ مغربی معاشروں کو جنھیں ہم برا بھلا اور نہ جانے کیا کچھ نہیں کہتے وہ اللہ کے انسانوں کے لیے بنائے ہوئے اصولوں کی پیروی کرتے نظر آتے ہیں۔آج ان کی تعمیر و ترقی کا اندازہ آپ وہاں جا کر بہ خوبی لگا سکتے ہیں۔ایسی بہت سی بیماریاں معاشرے کی خرابی کا باعث ہیں،یقیناًان سے بھی نجات کاپہلو ہونا چاہیے،بچنا چاہییے،گریز کرنا چاہیے لیکن جھوٹ ان میں سرفہرست ہے۔آئیے اس جھوٹ سے نجات حاصل کیجیے اور سچ بولیے۔سچ لکھیے۔