لگتا کچھ یوں ہے کہ نواز شریف عدلیہ اور اسٹیبلشمنٹ کے خلاف فرنٹ فٹ پر کھیلتے رہیں گے۔ کیوں کہ ان کو یہ یقین ہے کہ 2018ء کے الیکشن میں اسی طرح اسٹیبلشمنٹ کے خلاف جارحانہ موقف لے کر جانا فائدے مند رہے گا۔ بظاہر وہ جیل جانے کے لیے تیار نظر آتے ہیں۔ ایسی تیاری 1999ء میں بھی اُن کی تھی۔ لیکن کب، کیسے اور کس طرح ڈیل ہوئی اور وہ سعودی عرب روانہ ہوئے یہ معما کھلا نہیں۔ نواز شریف تو آج بھی یہی موقف رکھتے ہیں کہ انہیں زبردستی سعودی عرب روانہ کردیا گیا جہاں وہ سعودی بادشاہ کے مہمان ہوئے۔
اقامہ تو اب بھی موجود ہے، چناں چہ کس وقت کب کیسے کیا ہو؟ یہ کس کو معلوم ہے۔ اگرچہ نااہلی کے باوجود قومی اسمبلی نے پارٹی صدارت کے حق میں قانون پاس کرالیا تھا لیکن معاملہ پھر اٹک گیا ہے کیوں کہ سینیٹ نے روک لگادی ہے، جہاں اپوزیشن کا پیش کردہ بل کثرت رائے سے منظور کرلیا گیا ہے جس کے تحت نااہل قرار دیا گیا شخص سیاسی جماعت کا سربراہ نہیں بن سکتا۔ پرویز رشید کا کہنا ہے کہ نواز شریف پارٹی صدر ہوں نہ ہوں صرف ان کی تصویر پر مسلم لیگ (ن) الیکشن جیتے گی۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ پارٹی صدارت کی کرسی پر تصور رکھ کر کام نہیں چلایا جاسکتا اس کے لیے کوئی شخص درکار ہے؟ اب یہ شخص کون ہو؟ بقول ریاض پیرزادہ اس کے لیے سب سے مناسب شہباز شریف ہوسکتے ہیں۔ بھائی ہیں، خاندان کے ہیں، پھر یہ گارنٹی ہے کہ کبھی بھائی کے سامنے کھڑے ہونے کا سوچ بھی نہیں سکتے۔ ایک مسئلہ بچوں کی چپقلش ہے جو ایک ساتھ چلنے کے لیے تیار نہیں اور اپنی اپنی لیڈر شپ جمانا چاہتے ہیں۔ نظر تو یہ آرہا ہے کہ مفاہمت کی سیاست کے ذریعے پارٹی بچانے کا فیصلہ ناگزیر ہے۔ نواز شریف اور مریم نواز ٹکراؤ کا لہجہ اپنانے کے بُرے اثرات محسوس کررہے ہیں، ایک طرف وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ انداز اور لہجہ انہیں زندہ رکھے گا تو دوسری طرف یہ انہیں خود اپنی ہی پارٹی میں دراڑ کی خبر سنا رہا ہے۔
وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے لے کر اسی پچاس ارکان قومی اسمبلی اور وفاقی اور صوبائی وزرا تک کوئی ٹکراؤ کی بات نہیں کرتا بلکہ اب تو کھل کر اس کے خلاف بات کی جارہی ہے، پارٹی کے اندر اداروں سے لڑائی کے خلاف آواز اٹھائی جارہی ہے، یہ درست سمت کی نشاندہی ہے۔ احتساب کے ذریعے عدالتوں کا سامنا کرنے میں کوئی برائی نہیں۔ آخر زرداری صاحب نے بھی ایک عرصے تک عدالتوں کا سامنا کیا ہے، ان شاء اللہ آئندہ بھی کرتے رہیں گے۔
نواز شریف عدالتوں کے بارے میں کہتے ہیں کہ ’’انصاف ہورہا ہے یا انصاف کا خون؟؟‘‘ ساتھ واپسی کا اعلان بھی کرتے ہیں لیکن نہ جانے کیا دل میں سمائی کہ آتے آتے سعودی عرب کا رخ کر ڈالا۔ بہرحال انہیں آنا ہی ہوگا۔ مریم نواز کے جارحانہ بیانات انہیں کسی دلدل میں دھکیل نہ دیں۔ اگرچہ کوشش سیاسی شہید بننے کی اپنی جگہ ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ شہادت کے رتبے پر فائز کرنے کے لیے عملی طور پر کوئی تیار نظر نہیں آرہا ہے۔ لہٰذا قیادت کی تبدیلی اور مفاہمت کے ساتھ حالات کا سدھار ہی بہترین راستہ ہے۔ شہباز شریف کا نام متبادل قیادت کے لیے لیا تو جارہا ہے لیکن ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ شہباز شریف تو خود الزامات میں گھرے ہیں۔ جسٹس نجفی کمیشن کی رپورٹ عدالت کے حکم کے باوجود چھپائی جارہی ہے، پھر حدیبیہ پیپر مل کا معاملہ بھی منہ کھولے کھڑا ہے۔ معاملہ یہ ہے کہ عدالت کے سامنے اپنے مقدمات لے کر حاضر ہونے سے کسی کی عزت میں حرف نہیں آتا۔ بلکہ اس بات کا ایک خاص طرح کا احساس عوام پر پیدا ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران خود کو بادشاہ اور شہنشاہ نہیں سمجھتے۔ یہ ہم میں سے ہیں اور ہم ان میں سے ہیں۔ بس بات وہیں ختم ہوجاتی ہے۔
دوسرا راستہ فوری الیکشن کا ہے، لیکن بقول عدالت کے امین و صادق سراج الحق کہتے ہیں کہ عام انتخابات سے قبل بے رحمانہ احتساب ناگزیر ہے اور ساری سیاسی قیادت کا احتساب ہونا چاہیے اور سب سے پہلے میں اپنے آپ کو احتساب کے لیے پیش کرتا ہوں۔ اب معاملہ یہ ہے کہ ان کا احتساب کوئی کرنے کو تیار نہیں اور بقیہ سیاست دان احتساب کے قائل نہیں۔