وشزکے مطابق ڈومور

335

ان دنوں کی بات ہے جب کراچی میں قدم قدم پر سینما تھے۔ کسی مضافاتی سینما میں ایک فلم دکھائی جارہی تھی۔ انٹرول سے پہلے کاسین چل رہا تھا۔ شوہر کو قتل کردیا گیا تھا۔ ہیروئن اس کی لاش پر ماتم کررہی تھی۔ ان دنوں عموماً انٹرول سے کچھ پہلے ہی دروازے کھول دیے جاتے تھے اور خوانچے والے اپنی چیزیں بیچنے کے لیے اندر داخل ہوجاتے تھے۔ اس موقع پر عجیب اتفاق ہوا۔ ہیروئن نے مرے ہوئے خاوندکو مخاطب کرکے کہا ’’سرتاج! تمہارے بعد اب دنیا میں کیا باقی رہ گیا ہے۔‘‘ خوانچے والے کی آواز آئی ’’ٹھنڈی میٹھی گنڈیریاں‘‘ دوماہ پہلے جب صدر ٹرمپ نے دھمکیوں کے استرے سے پاکستان کو مونڈا تھا لگتا تھا اب پاک امریکا تعلقات میں کچھ بھی باقی نہیں رہ گیا لیکن رواں ماہ کے وسط میں امریکی کنیڈین جوڑے کی پاک فوج کے ہاتھوں بازیابی سے ایسا لگا جیسے کوئی صدا لگا رہا ہے ’’ٹھنڈی میٹھی گنڈیریاں‘‘۔ اس ماہ کی تیرہ تاریخ کو پاکستان کے تمام چھوٹے بڑے اخبارات میں سرخی تھی ’’پاک فوج نے انٹیلی جنس کی بنیاد پر کارروائی کرکے افغانستان سے پانچ سال قبل اغوا ہونے غیر ملکی جوڑے کو ان کے تین بچوں سمیت کرم ایجنسی سے دہشت گردوں کے قبضے سے بازیاب کرالیا‘‘۔ کینیڈین شوہر اور امریکی بیوی، اس جوڑے کو 2012 میں افغانستان سے اغوا کیا گیا تھا۔ عجب زرخیز قید تھی، قید کے دوران ہی ان کے تین بچے بھی ہوگئے۔ اس میں حیرت کی بات نہیں۔ فیض صاحب نے بھی دوران قید زنداں نامہ تخلیق کیا تھا۔ قید میں تخلیقی کام کے سوا کیا ہی کیا جاسکتا ہے۔ ادھر یہ جوڑا اپنی مصروفیات میں لگا تھا ادھر امریکی خفیہ ادارے ان کی تلاش میں ہلکان ہورہے تھے۔ جب تک جوڑا افغانستان میں رہا امریکی ادارے اس کی تلاش میں ناکام رہے لیکن جیسے ہی جنگجوؤں نے مغویوں کو پاکستان منتقل کرنے کا سوچا امریکی ایجنسیوں کو پتا چل گیا۔ انہوں نے پاکستانی فوج سے انٹیلی جنس شئیرنگ کی۔ جس وقت مغویوں کو کرم ایجنسی منتقل کیا جارہا تھا پاک فوج کے جوانوں نے ایک کامیاب آپریشن کرکے مغویوں کو بازیاب کرالیا۔ جوانوں نے مذکورہ گاڑی کو روکنے کی کوشش کی۔ دہشت گردوں نے گاڑی نہیں روکی۔ جوانوں نے گاڑی کے ٹائروں پر فائرنگ کی اور جیسا کہ اس قسم کے آپریشنوں میں ہوتا ہے دہشت گرد مغویوں کو چھوڑ کر پیدل وہاں سے فرار ہوگئے۔ یوں کینیڈین شہری جوشوا، اس کی امریکی نژاد بیوی کیٹلین اور تین بچوں کو بازیاب کروالیا گیا۔ پاک فوج کی اس کارروائی پر امریکی صدر ٹرمپ اور دیگر اعلیٰ امریکی حکام نے تعریفوں کے پل باندھ دیے۔ صدر ٹرمپ نے پاکستان کا شکریہ ادا کیا اور کہا یہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں ایک مثبت تبدیلی کی علا مت ہے (ٹھنڈی میٹھی گنڈیریاں) پاکستان کی حکومت کا تعاون اس بات کی علامت ہے کہ اس کی جانب سے امریکی خواہشات کا احترام کیا جارہا ہے۔ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن، جنرل جوزف اور جان کیلی کا کہنا تھا کہ اس کامیاب کارروائی سے دونوں ممالک کے روابط میں اضافہ ہوگا۔



21اگست 2017 کو جنوبی ایشیا کے بارے میں اپنے خطاب میں صدر ٹرمپ نے پاکستان کو تنبیہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ امریکا پاکستان میں دہشت گردوں کی قائم پناہ گاہوں پر خاموش نہیں رہ سکتا۔ وقت آگیا ہے کہ پاکستان اپنی سرزمین سے ان تمام دہشت گردوں کا خاتمہ کردے جو وہاں پناہ لیتے ہیں۔ ہم پاکستان کو اربوں ڈالر دیتے ہیں لیکن دوسری جانب وہ ان دہشت گردوں کو پناہ دیتے ہیں جو ہمارے دشمن ہیں۔ امریکا سے شراکت داری اسلام آباد کے لیے سود مند ثابت ہوگی لیکن اگر وہ مسلسل دہشت گردوں کا ساتھ دے گا تو اس کے لیے مشکلات پیدا ہوسکتی ہیں۔ صدر ٹرمپ کی اس تقریر سے ہمارے حکمرانوں کو اپنی بے عزتی خراب ہونے کا احساس ہوا۔ جواب میں پاکستان میں ایسی فضا تیار کی گئی جس سے یہ تاثر پیدا ہوا کہ پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے امریکا سے دور ہونے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے مرتب کیا جارہا ہے جس میں امریکی بالادستی کے سامنے سرنگوں ہونے کا تصور بھی موجود نہیں ہوگا۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اپنا دورہ امریکا ملتوی کردیا۔ اس نئی صورت حال میں خارجہ پالیسی کو نئی جہت دینے کے لیے وزیر خارجہ نے چین، روس، ترکی اور ایران کا دورہ کیا۔ ان تمام ممالک نے پاکستان کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔
تاہم اس گرما گرمی ہی میں ایسے اشارے بھی پوشیدہ تھے جن سے احساس ہوتا تھا کہ پرنالہ وہیں رہے گا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے 23اگست کو امریکی سفیر ڈیوڈ ہیل سے ملاقات کی اور کہا ’’ہمیں کسی قسم کی معاشی اور مادی امداد نہیں چاہیے ہمیں آپ کا اعتماد چاہیے۔‘‘ اس کے ایک ماہ بعد وزیر خارجہ خواجہ آصف امریکا گئے۔ وہاں انہوں نے امریکا کو پیشکش کی کہ امریکا دہشت گردوں کے مقامات کی نشاندہی کرے بمباری ہم کریں گے۔ اس ماہ کے شروع میں یہ پیشکش آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنے دورہ افغانستان کے دوران افغان صدر اشرف غنی کو بھی کی تھی۔ اس تناظر میں یہ کوئی حیرت کی بات نہیں کہ غیر ملکی جوڑے کی بازیابی کے معاملے میں سول اور فوجی قیادت نے امریکی انٹیلی جنس کی فراہمی کے مطا بق عمل کیا اور جوڑے کو بازیاب کرالیا۔ اس طرح ہم نے امریکی صدر ٹرمپ کی اس بات کو ثابت کردیا کہ دہشت گردوں کی پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں ہیں اور پاکستان کو ڈومور کرنا پڑے گا۔ اس واقعے کے دو روز بعد کرم ایجنسی میں ہی تین دھماکے ہوئے جن میں کیپٹن سمیت چار اہلکار شہید اور تین زخمی ہوئے۔ ایک اہلکار کینیڈین خاندان کے اغوا کاروں کے خلاف کاروائی کا حصہ تھا۔ تحریک طالبان پاکستان نے واقعے کی ذمے داری قبول کرلی۔ اس واقعے سے ثابت ہوگیا کہ پاکستان کے تمام تر دعووں کے باوجود دہشت گرد آج بھی قبائلی علاقوں میں متحرک ہیں۔ اپنے من پسند اہداف یہاں تک کہ پاک فوج کو بھی نقصان پہنچانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔



پاکستان کی سرزمین پر کینیڈین جوڑے کی بازیابی نے اسامہ بن لادن کے واقعے کی یاد تازہ کردی۔ ایک مرتبہ پھر پاکستان کی سیاسی اور فوجی قیادت نے ثابت کردیا کہ امریکا کی طرف سے پاکستان پر لگائے جانے والے الزامات درست ہیں۔ اس وقت بھی امریکی کوئٹہ شوریٰ اور اسامہ بن لادن کی پاکستان میں موجودگی پر بڑی شدت سے اصرار کرتے تھے اور ہم اس سے کہیں زیادہ شدت سے انکار کرتے تھے۔ لیکن بعد میں ہم نے خود امریکا کو ایبٹ آباد پر حملہ کرنے کی اجازت دی اور اسامہ بن لادن کو پکڑنے میں ہر طرح کی مدد فراہم کی۔ اس مرتبہ منظرنامہ مختلف تھا لیکن مرکزی خیال وہی پرانا۔ ایک جوڑا جو پانچ سال قبل افغانستان میں اغوا کیا گیا تھا اور افغانستان ہی میں موجود تھا لیکن امریکی اس کا سراغ نہ لگا سکے۔ چند دن پہلے اچانک ٹریس ہوگیا اور امریکا پاکستان کو اطلاع دیتا ہے کہ اغوا کنندگان جوڑے کوپاکستان کی طرف لارہے ہیں۔ اگر امریکا نے جوڑے پر اس بری طرح نظر رکھی ہوئی تھی تو کیا امریکا جوڑے کو افغانستان میں بازیاب نہیں کراسکتا تھا جہاں وہ ڈیڑھ عشرے سے زائد مدت سے قابض ہے، جو اس کا خاص علاقہ ہے اور جہاں وہ پاکستان کی فوج سے زیادہ وسائل اور طاقت رکھتا ہے۔
اغوا کنند گان کی بازیابی کے بعد صدر ٹرمپ نے کہا تھا ’’پاکستان نے ڈومور پر عمل کیا۔ پاکستان کی حکومت کا تعاون اس بات کی علامت ہے کہ اب وہ امریکی wishes کے مطابق ڈومور کرنے پر تیا ر ہوگیا ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ یہ تعاون مستقبل میں بھی جاری رہے گا۔‘‘ مستقبل میں پاکستان کے تعاون جاری رکھنے کی بات جس یقین سے صدرٹر مپ نے کہی ہے اس پر پاکستانی فوجی اور سیاسی قیادت نے دل میں یقیناً’’ان شا اللہ‘‘ کہا ہوگا لیکن بظاہر ’’نوڈومور‘‘ کا ڈراما جاری رہے گا۔ (نمبر برائے میسج: 03343438802)