بلوچستان پسماندہ نہیں۔ قیادت سے محروم

242

بلوچستان کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ یہ پسماندہ ہے ہم نے ہمیشہ یہی سنا اور اس پر یقین کیا۔ یہ کہنے کی بہت سی وجوہات ہوں گی لیکن سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ پاکستان کے 44 فی صد رقبے پر پھیلے ہوئے اس صوبے میں ترقی یا بنیادی ضرورت کی چیزیں موجود نہیں ہیں۔ 2017ء کی مردم شماری کے مطابق ایک کروڑ 24 لاکھ افراد کی آبادی والے اس صوبے میں 32 اضلاع ہیں اعداد و شمار کا کھیل کھیلنے والے اس حوالے سے بات نہیں کرتے، پنجاب میں 36، سندھ میں 29 اور کے پی کے میں 26 اضلاع ہیں۔ گویا اضلاع کے اعتبار سے بلوچستان دوسرے صوبوں کے تقریباً مساوی ہے لیکن حیرت انگیز طور پر 350 نشستوں والی اسمبلی میں اس کے صرف 14 ارکان ہیں۔ کیوں ۔۔۔؟ اس کا جواب کسی کے پاس نہیں حتیٰ کہ حکومت میں شامل کسی فرد کو اس کا جواب نہیں معلوم حالانکہ اس کا جواب ان ہی کے پاس ہے۔ شاید آبادی کی بنیاد پر یہ فیصلہ کیا گیا ہے، لیکن رقبے کو بھی مدنظر رکھنا ہوگا۔ اسی بلوچستان کو 1970ء میں صوبے کا درجہ دیا گیا اس اعتبار سے یہ صوبہ ابھی 47 سال کا ہے جب کہ باقی پاکستان 70 برس کا ہے۔
سوال یہ ہے کہ بلوچستان پسماندہ کیوں اور کیسے ہے۔ یہاں پانی کی قلت ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ تین درجن سے زاید ایسے ذرائع اور وسائل موجود ہیں جو بلوچستان کے پانی کی ضرورت پوری کرسکتے ہیں۔ کئی دریا ہیں جن پر چھوٹے چھوٹے ڈیم بن سکتے ہیں لیکن یہ بھی نہیں بنے سب سے بڑے ڈیم کی فزیبلٹی 1987ء میں بنی تھی اور اب تک یہ بار بار تیار کی جارہی ہے لیکن ڈیم نہیں بنا۔ اس کا جواب بھی حکومتی حلقوں کے پاس ہے لیکن ان کا کہناہے کہ یہ وفاقی اسٹیبلشمنٹ کی کارستانی ہے۔
گزشتہ دنوں سی پی این ای کی اسٹینڈنگ کمیٹی کے اجلاس میں کوئٹہ جانے کا اتفاق ہوا اور اتفاق سے سارا وقت اور زور بعض اخبارات کو سیٹلائٹ فون اور پرچیوں کے ذریعے دھمکیوں پر گفتگو اور اسی حوالے سے صحافیوں کے تحفظ کے مطابق پر لگ گیا۔ سی پی این ای نے گورنر وزیراعلیٰ، ارکان اسمبلی، سابق وزیراعلیٰ وفاقی وزرا سب سے اس مسئلے پر بات کی۔ یقیناًصحافیوں کو دھمکی اور اخبارات پر حملے قابل مذمت ہیں لیکن بلوچستان کا مسئلہ صرف یہ حملے اور دھمکیاں نہیں ہیں۔ اس صوبے کے مسئلے کو سمجھنے کے لیے کچھ چیزوں کو سمجھنا ہوگا۔ ایک یہ کہ بلوچستان میں اربوں ڈالر کا تیل، گیس، زنک، کرومائٹ، سونا، تانبا، کوئلہ، سنگ مرمر وغیرہ موجود ہے، گیس اور تیل گزشتہ 40 برس سے نکالا جارہاہے اس کی رائلٹی بلوچ سردار لیتے رہے ہیں اور یہی بات خطرے کی علامت ہے



بلوچستان میں مقامی، قومی اور بین الاقوامی قوتوں کے مفادات ہیں۔ مقامی قوتوں کا مفاد صرف یہ ہے کہ بلوچ خوشحال ہو اور اسے اس صوبے کے وسائل میں حصہ ملے۔ قومی قوتوں کا مفاد یہ ہے کہ صوبے کے وسائل سے پورا پاکستان استفادہ کرے۔ لیکن بین الاقوامی قوتوں کا مفاد یہ ہے کہ پاکستان بھی ان وسائل سے فائدہ نہ اٹھاسکے اور بلوچ بھی ۔۔۔ بلکہ بلوچوں کے نام پر یہ وسائل ان بین الاقوامی قوتوں کے ہاتھ آجائیں اور یہ کام بلوچستان کو پاکستان سے الگ کیے بغیر ممکن نہیں اور بلوچستان کو الگ کرنے کے لیے بلوچوں کو استعمال کرنا ضرورت ہے۔ لہٰذا جب تک بلوچستان پاکستان کا حصہ ہے ان قدرتی وسائل سے بین الاقوامی قوتیں کچھ حاصل نہیں کرسکتیں۔ خدانخواستہ اگر بلوچستان کو پاکستان سے الگ کردیاگیا تو جن بلوچوں کے بل پر یہ کام کیا جائے گا ان کے پاس ان وسائل کے حصول کے لیے کوئی ذریعہ، ٹیکنالوجی اور پیسہ نہیں ہوگا۔ اس وقت یہ بین الاقوامی قوتیں آگے آئیں گی اور علیحدگی پسند رہنماؤں کو مالا مال کرکے تمام وسائل ہڑپ کر جائیں گی۔ یعنی بلوچ عوام محروم کے محروم رہیں گے۔ ایسا ہونے کا سبب وہی ہوگا جو اب تک رہا ہے۔ اب تک مراعات حاصل کرنے والے سردار تھے جنہیں جام، جمالی، مگسی، زہری کہاجاتا ہے۔ بگٹی، مینگل اور مری بھی مراعات حاصل کرتے رہے۔ تیل کی رائلٹی بگٹی لیتے رہے۔ بگٹیوں کو کیا ملا۔ جتنے قوم پرست لیڈر ہیں ان کا مال و دولت دیکھ لیں ان کا رہن سہن دیکھ لیں اور غریب بلوچ کا رہن سہن دیکھ لیں ساری کہانی سمجھ میں آجائے گی یہ لوگ ا پنی موجودہ دولت سے غریب بلوچوں کے لیے آسانیاں کیوں نہیں پیدا کرتے۔ تمام ہی سردار حکمران رہے اپنے اپنے علاقوں میں اسکول، کالج اور یونیورسٹیاں کیوں نہیں بناگئے، سڑکیں اور اسپتال کیوں نہیں بنائے۔ یہ بتانے کی بھی ضرورت نہیں۔ اسکول بنیں گے، کالج بنیں گے، تعلیم عام ہوگی تو روزگار دینا پڑے گا شعور پیدا ہوگا اور سوال ہوگا کہ سردار صاحب! ہمارا حصہ کہاں ہے۔ لہٰذا سارا الزام وفاق پنجاب اور فوج پر ڈال دو۔ تضاد تو ہر طرف ہے۔ جمیل بگٹی کا ایک انٹرویو الجزیرہ کو دیاگیا تھا اس میں وہ کہتے ہیں کہ صرف مری، بگٹی اور مینگل کو خراب کہاجاتا ہے باقی سب حکومت اور پاکستان کا حصہ ہیں۔ دوسری طرف دوسرے بلوچ رہنما نواب خیر بخش مری نے کہا کہ تمام بلوچ قبائل آزادی کے حق میں ہیں۔ سب سردار اور ان کے خاندان والے کسی نہ کسی دور میں حکمران رہے ہیں تو پھر ان سب سے سوال ہونا چاہیے کہ پھر بلوچستان پسماندہ کیوں ہے۔ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ نوجوانوں کو پہاڑوں پر چڑھادو ہم سے کوئی حساب نہیں مانگے گا اور جوانوں کو بتایا ہے کہ تمہارے وسائل پنجاب لوٹ رہا ہے۔ اب مسئلہ کیسے حل ہوگا۔ پنجاب تو پنجابیوں کو بھی لوٹ رہا ہے بالکل اسی طرح جس طرح سندھ کا وڈیرہ سندھیوں کو اور بلوچستان کا سردار بلوچوں کو لوٹ رہا ہے۔
(جاری ہے)