اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ حملہ آور اپنے وقت کی سپر پاور برطانیہ ہے، سوویت یونین ہے یا امریکا۔ افغانستان کے سارے راستے قبرستان کی طرف جاتے ہیں۔ اس انجام سے بچنے کے لیے امریکا مجا ہدین سے مذاکرات کے لیے کوشاں ہے۔ ڈیڑھ برس کے تعطل کے بعد اس برس 16اکتوبر کو مسقط میں پاکستان، چین، روس اور افغانستان کے نمائندوں کے چار فریقی رابطہ گروپ کا اجلاس ہوا۔ رابطہ گروپ کا آخری اجلاس 18مئی 2016 کو ہوا تھا جس کے تین دن بعد ملا اختر منصور ایک امریکی ڈرون حملے میں مارا گیا تھا تب سے طالبان سے مذاکرات کا عمل تعطل کا شکار تھا۔ حالیہ اجلاس سے رابطہ گروپ ایک بار پھر بحال ہوگیا۔ ایک نئے عزم اور ولولے کے ساتھ۔ پاکستان کی طرف سے سیکرٹری خارجہ تہمینہ جنجوعہ، امریکا کی طرف سے امریکی اسسٹنٹ سیکرٹری خارجہ ایلس ویلز، چین کی طرف سے نمائندہ خصوصی مسٹر ڈو نگ اور افغانستان کی طرف سے افغان نائب وزیر خارجہ حکمت خلیل نے اپنے وفود کی قیادت کی۔ واشنگٹن کے سفارتی حلقوں کے مطابق چار فریقی مذاکرات کی بحالی اس بات کی علامت ہے کہ امریکا طالبان کے ساتھ بات چیت کے لیے وضع کیے گئے اپنے طریقہ کار کی بحالی چاہتا ہے۔ ایک سفارت کار کا کہنا ہے کہ امن عمل کا حصہ بننے پر رضا مندی کا اظہار کرکے جس کا مقصد طالبان کے ساتھ گفت وشنیدکی بحالی ہے ٹرمپ انتظامیہ یہ اشارے دے رہی ہے کہ اس کی تمام تر توجہ فوجی حل پر نہیں ہے۔
افغانستان پر حملہ سپر پاورز کا ایسا رومان ہے جس کا نشہ بنا ترشی کے جلد ہی اتر جاتا ہے۔ احساس ہوتا ہے افغانستان پر حملہ کرنا اصل معرکہ نہیں ہے، حملے کے بعد اپنی سپر پاور کی حیثیت بچا لینا اصل معرکہ ہے۔ تاہم سولہ برس ہونے کو آرہے ہیں حیرت انگیز طور پرامریکا ابھی تک اس انجام سے دور ہے جو سوویت یونین کے حصے میں آیا تھا۔ اس کی وجہ امریکا کے جوائنٹ چیف آف اسٹاف جنرل جوزف ڈیفورڈ کے اس بیان میں تلاش کیجیے۔ آپ کو پتا چل جائے گا۔ جنرل جوزف نے حال ہی میں کانگریس کو بتایا کہ: ’’اس ہفتے جنرل باجوہ کے دورہ افغانستان سے ہماری حوصلہ افزائی ہوئی ہے۔ ان کی افغان قیادت کے ساتھ بہت اچھی ملاقاتیں رہیں۔ ہماری قیادت بھی ان ملاقاتوں میں شامل تھی۔‘‘ سوویت یونین کی طرح امریکا بھی افغانستان کے قبرستان میں کبھی کا دفن ہوچکا ہوتا اگر ہماری سول اور فوجی قیادت صلیبیوں کا ساتھ دیتے ہوئے افغان مسلمانوں سے غداری کی مرتکب نہ ہوتی۔
افغانستان اور پاکستان کی اسٹر ٹیجک صورت حال یہ ہے ایک خاندان کے نصف افراد ڈیورنڈ لائن کے اُس طرف رہتے ہیں اور بقیہ نصف اس طرف۔ ایک طرف کے مسلمانوں پر کوئی مصیبت آتی تو دوسری طرف کے مسلمان بھائی بے دریغ ان کی مدد کو لپکتے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کی کوئی حیثیت نہیں۔ امریکا نے افغان مسلمانوں پر حملہ کیا تو سوویت یونین کے حملے کے وقت کی طرح اس مرتبہ بھی قبائلی علاقوں کے مسلمان اپنے افغان بھائیوں کی مدد کے لیے آگے بڑھے لیکن ہمارے حکمرانوں نے امریکا کے دباؤ میں آکر پاکستان کے قبائلی علاقوں میں اپنے ہی شہریوں کے خلاف محاذ کھول دیا۔ یوں پاکستان سے افغان مجاہدین کو جانے والی مالی اور جانی رسد کاٹ دی گئی۔ ہم نے افغان مجاہدین کی کمر میں ایک بار پھر چھرا گھونپ دیا۔ اگر اس وقت پاکستان کے حکمرانوں نے مداخلت کرکے امریکا کی مدد نہ کی ہوتی تو آج امریکا کا حشر بھی وہی ہوتا جو سوویت یونین کا ہوا تھا۔ امریکا کے لیے افغان طالبان اور پاکستان کے قبائلی جنگجوؤں کا مقابلہ کرنا آسان نہیں تھا لیکن پاکستان نے قبائلی جنگجوؤں کے خلاف دوسرا محاذ کھول دیا۔
پاکستان کے حکمرانوں کی اس غداری کی وجہ سے افغان جہاد کو وقتی دھچکا تو لگا، جہاد کمزور بھی ہوا لیکن جہاد ختم نہیں ہوا۔ پاکستان کے حکمرانوں کو اس غداری کا کیا صلہ ملا۔ امریکا نے بھارت کو لاکر افغانستان میں بٹھا دیا جس نے امریکا کی اس جنگ میں گھاس کی پتی کے برابر بھی مدد نہیں کی تھی۔ حالاں کہ یہی امریکا پہلے دن سے پاکستان کو یقین دہانی کراتا آیا تھا کہ افغانستان میں بھارت کا کوئی کردار نہیں ہوگا۔ لیکن آج صورت حال یہ ہے کہ بھارت مکمل طور پر افغانستان میں موجود ہے اور پاکستان محض نفرت کی ایک علامت۔ دوسرا کام امریکا نے یہ کیا کہ افغانستان میں ایک ایسی کٹھ پتلی حکومت کا قیام عمل میں لایا جس کی سرشت میں پاکستان دشمنی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی ہے۔ ایک طرف افغان مسلمان اور افغان حکومت ہمیں نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، بھارت افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال کررہا ہے تو دوسری طرف امریکا نے ہمیں عالمی اچھوت بنا دیا ہے۔ جس لب ولہجے میں صدر ٹرمپ اور امریکی حکام پاکستان کی بابت کلام کرتے ہیں ایسا ذلت آمیز رویہ ہمیشہ ان کے حصے میں آتا ہے جو اپنی امت کے غدار ہوتے ہیں۔
آج صورت حال یہ ہے کہ ایک طرف بھارت آئے دن کنٹرول لائن کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستانی علاقوں پر گولہ باری کررہا ہے تو دوسری طرف افغانستان میں پاکستان کے خلاف اپنی انٹیلی جنس صلاحیتوں میں اضافہ کرتے ہوئے پاکستان میں تخریبی کارروائیوں میں مصروف ہے۔ افغانستان میں پاکستان کا آج بھی اتنا اثر رسوخ ہے کہ ہم بھارت کو مشکل میں ڈال سکتے ہیں لیکن افغانستان میں ہم ہراس اقدام سے گریز کرتے ہیں جس سے بھارت کو نشانہ بنایا جاسکے۔ ہمارے حکمران بھارت کے خلاف محض بیان بازی تک محدود ہیں۔ پاکستان کے خلاف بھارتی سرگرمیوں کی پشت پر امریکا ہے ورنہ بھارت کی اتنی اوقات نہیں لیکن امریکا سے اس صورت حال پر احتجاج کرنا اور تعاون ختم کرنے کے بجائے ہمارے حکمران تن من سے امریکا سے تعاون میں جتے ہوئے ہیں۔ چار فریقی رابطہ مذاکرات ان ہی کوششوں کا حصہ ہیں۔
امریکا نے پاکستان کو دھمکیوں اور ذلت آمیز رویے کا نشانہ ایک ایسے وقت میں بنا رکھا ہے جب کہ افغانستان میں اس کی فوج دل شکستہ اور افغان جنگ اس کی معیشت کو کھا رہی ہے لیکن آفرین ہے ہمارے حکمرانوں پر مجال ہے جو امریکا کی چاکری میں ذرہ فرق آجائے۔ کس جوش اور جذبے سے طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے اور امریکا کے جال میں پھنسانے کے لیے متحرک ہیں۔ مذاکرات کی میز ایسی جگہ ہے جہاں امریکا سازشوں کے جال بن کر افغان مجاہدین کی فتح کو شکست میں بدل سکتا ہے۔ امریکا افغانستان میں داخل ہونے کے لیے ہزار مرتبہ سوچتا اگر پاکستان اس کی مدد نہ کرتا، اسے اڈے فراہم نہ کرتا۔
ایک اخباری خبر کے مطابق مسقط میں ہونے والے حالیہ اجلاس میں یہ فیصلہ کیا گیا ہے کہ علماء کرام کی ایک فہرست بنائی جائے اور ان علماء کرام کو افغان طالبان کے پاس بھیجا جائے تاکہ وہ انہیں مذاکرات پر آمادہ کرسکیں۔ اس خبر سے واضح ہے کہ دنیا کی واحد سپر پاور امریکا، چین، افغان حکومت اور پاکستان مل کر بھی اس پوزیشن میں نہیں کہ افغان طالبان پر قابو پاسکیں۔ علماء کرام سے گزارش ہے کہ اگر وہ طالبان کے پاس جائیں تو ان کے کان میں یہ ضرور کہیں کہ خبردار جو مذاکرات کی میز پر آئے کامیابی صرف اور صرف اللہ کی رضا اور جہاد میں ہے۔
(تبصرے اور میسج کے لیے نمبر: 03343438802)