امریکا کو منہ توڑ جواب

433

پاکستان کے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے مختصر سے دورہ پاکستان کے حوالے سے ایوان بالا کو آگاہ کرتے ہوئے امریکا کو کھری کھری سنا ڈالی ہیں ۔ امید کی جاتی ہے کہ یہی باتیں انہوں نے اپنے دورہ پاکستان میں بھی کی ہوں گی اور ٹلرسن کے سامنے بھی۔ مثلاً یہ کہ امریکا اپنے گریبان میں جھانکے، اس نے 16برس تک افغانستان میں کیا کیا ؟ واشنگٹن سے دوستی کے نتائج ہم اب تک بھگت رہے ہیں، وہ اس سے برا ہمارے ساتھ اور کیا کرے گا۔ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے حکمرانوں کو بالآخر سمجھ میں آگیا ہے کہ امریکا جس کا دوست ہو اسے دشمنوں کی ضرورت نہیں اور یہ بات امریکی دانشور بھی کہہ چکے ہیں کہ امریکا کی دوستی اس کی دشمنی سے زیادہ خطرناک ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ کھلا دشمن خطرناک نہیں ہوتا کہ اس کے بارے میں معلوم ہوتا ہے لیکن جو دوستی کے پردے میں دشمنی کرے اس سے بچنا مشکل ہوتا ہے۔ اور کوئی شبہ نہیں کہ امریکا نے دوستی کے پردے میں پاکستان سے ہمیشہ دشمنی کی ہے۔ حکمرانوں کو ایک عرصے سے یہ باور کرانے کی کوشش کی جارہی ہے لیکن جن کے مفادات امریکا سے وابستہ ہیں وہ یہ حقیقت تسلیم کرنے پر تیار نہیں حالاں کہ خوب جانتے ہیں ۔ لیکن اب فضا بدلتی ہوئی نظر آرہی ہے کیوں کہ خود امریکا نے منہ پھیر لیا ہے۔ ریکس ٹلرسن نے اسلام آباد سے نئی دہلی جا کر صاف کہا کہ بھارت ہمارا فطری اتحادی ہے، اسے خطے کے لیڈر کے طور پر دیکھتے ہیں اور یہ بات پاکستانی قیادت کو بتا دی گئی ہے۔ ٹلرسن نے پھر وہی باتیں دوہرائیں کہ بہت سی دہشت گرد تنظیموں نے پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں بنا رکھی ہیں۔ بار بار یہ کہنا اس بات کا اشارہ ہے کہ امریکا خود پاکستان میں کارروائی کی تیاری کررہا ہے اور اس کے لیے وہ بھارت کو خطے کا تھانے دار بنا رہا ہے۔ امریکا جو کام اب تک افغانستان میں پاکستان سے لیتا رہا ہے اب اس کے لیے پاکستان اور افغانستان میں بھارت سے لیا جائے گا۔ لیکن بھارت اور امریکا دونوں ہی اچھی طرح سمجھ لیں کہ پاکستان افغانستان یا عراق نہیں۔ امریکا کے نئے فطری اتحادی اور اس کے نزدیک خطے کا لیڈر بھارت وہی ہے جو آئے دن پاکستانی سرحدوں پر حملے کرتا رہتا ہے، کشمیر کی وادی پر قبضہ کر کے کشمیریوں پر زندگی تنگ کررکھی ہے اور اقوام متحدہ کی متفقہ قرار داد پر عمل کرنے سے انکاری ہے۔



خود بھارت کے اندر بی جے پی کی حکومت نے جو اندھیر مچایا ہوا ہے وہ امریکا کے علم میں تو ہوگا۔ گاؤ رکشا کرنے والوں کے دیس میں عورتوں کی عزت و عصمت محفوظ نہیں ہے اور اس پر خود بھارت کے اندر احتجاج ہو رہا ہے۔ لیکن چوں کہ امریکا کے مفادات بھارت سے وابستہ ہیں کہ وہ امریکی مصنوعات کے لیے ایک بڑی منڈی ہے اور بھارت میں بیٹھ کر امریکا چین کے بڑھتے ہوئے قدم بھی روک سکتا ہے اس لیے وہ امریکا کا فطری اتحادی ہے۔ بھارت امریکا تعلقات کی نوعیت جو بھی ہو لیکن ٹلرسن نے نئی دہلی میں ایک بار پھر یہ دوہرایا ہے کہ پاکستان کی سلامتی خطرے میں ہے۔ امریکا سے یہ پیغام پھر دے دیا گیا ہے کہ پاکستان کی حکومت خطرے میں ہے اور عدم استحکام کا شکار ہے۔ امریکا کی طرف سے ایسے اشارے اس وقت آتے ہیں جب امریکی ایجنسی سی آئی اے کوئی شرارت کرنے کی تیاری کرچکی ہو۔ پاکستان کی عسکری و سول قیادت کو چوکنا ہوجانا چاہیے اور اگر پاکستان کے اندر کوئی طالع آزما جمہوریت کی گاڑی کو پٹڑی سے اتارنے کی سوچ رہا ہو تو وہ بھی باز رہے۔ اچھی بات یہ ہے کہ پاک فوج بار بار جمہوریت کو مستحکم کرنے کے عزم کا اظہار کررہی ہے۔ لیکن کچھ سیاست دان اس انتظار میں ہیں کہ شاید جمہوریت کا بوریا بستر لپٹ جائے۔ پاکستان کے وزیر خارجہ نے سینیٹ میں جو کچھ کہا ہے اس پر استقامت کا مظاہرہ ہونا چاہیے۔ ٹلرسن نے تو یہ الزام بھی لگایا ہے کہ پاکستان دہشت گردوں کے ذریعے بھارت میں حملے کروا رہا ہے ۔ را کی سرگرمیوں کا کوئی ذکر نہیں ۔امریکا بھارت کو جنگی طیارے اور ٹیکنالوجی بھی فراہم کرے گا۔ لیکن یہ طیارے کس کے خلاف استعمال ہوں گے۔ چین کے خلاف تو استعمال کرنے کی جرأت بھارت میں نہیں کہ وہ کئی بار منہ کی کھا چکا ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ پاکستان ہی کے خلاف استعمال ہوں گے۔ پاکستان نے بھی امریکا سے ایف ۔16 طیارے خریدے تھے جن کی قیمت وصول کرنے کے باوجود برسوں تک رلا رلا کر طیارے دیے گئے اور اس عرصے میں جب پاکستان کے خریدے ہوئے طیارے امریکا میں کھڑے رہے تو ان کی پارکنگ کا کرایا بھی وصول کیا جاتا رہا۔ پاکستان کو طیاروں کی ٹیکنالوجی نہیں دی گئی جو بھارت کو دی جارہی ہے۔ امریکا بھارت کو جنگ کے لیے تیار کررہا ہے جس سے پورے خطے کا امن متاثر ہوگا اور امریکا کو مداخلت کا موقع ملے گا۔ یہی اصل مقصد ہے۔