تحری ؛ مرزا محمد الیاس
ایک سوال کہ لبرل کون ہے؟ بظاہر تو سیدھا سا جواب یہ ہے کہ ’لبرل ازم‘ کا پیروکار، اس کا ماننے اور اس پر عمل پیرا ہی لبرل ہے، تاہم اس سوال کا نہایت آسان جواب یوں دیا جاسکتاہے کہ لبرل وہ ہے جو:
*اپنی شخصیت، راے، خواہ وہ کچھ بھی ہو، مذہب، عقیدہ، خیال، تعلیم، کچھ بھی ہو، اس کے خلاف یا علی الرغم دوسری راے کا احترام کرتا ہو۔ مثال کے طور پر وہ توحید پر ایمان رکھتا ہے تو کسی کو یہ نہ کہے کہ تم مشرک ہو، کافر ہو وغیرہ۔
*وہ وقت کے ساتھ ساتھ سائنس اور استدلال، منطق و فلسفہ اور دیگر دنیاوی تعامل میں سے ابھرنے والے نئے تصورات، نظریات، عقائد، روحانیات کا احترام کرے۔
*وہ کسی فرد کی طرف سے شادی کی کسی بھی صورت اختیار کرنے پر اس کی مذمت نہ کرے، نفرت کا اظہار نہ کرے، خواہ مرد مرد سے یا عورت عورت سے شادی کرے۔ کوئی مرد یا عورت ازدواجی تعلق کے بغیر جنسی تعلق قائم کریں تو اس پر گرفت نہ کرے، مذمت یا نفرت نہ کرے۔ اسے یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان اعمال، رویوں اور کاموں کو برا سمجھے لیکن دوسروں کے حق کے طور پر ان کا احترام کرے۔
*وہ کسی مذہبی، اعتقادی یا روحانی اخلاقیات کا ذاتی حیثیت میں پابند ہو سکتا ہے، لیکن دوسروں کو ایسی اخلاقیات کا پابند بنا سکتا ہے اور نہ ایسا کر سکتا ہے۔ وہ اس کا اظہار اور پرچار یوں کر سکتا ہے کہ جو لوگ اس سے متفق نہ ہوں، ان کی دل آزاری نہ ہو۔
*وہ فرد کی حیثیت سے لبرل تعلیم کا حامی ہو، اس کے لیے کسی مذہبی یا اعتقادی تربیت کو لازمی نہ سمجھے۔
اْوپر بیان کردہ کیفیات اور شرائط کسی بھی لبرل کی ذات یا شخصیت کا احاطہ کرتی ہیں۔ معاشرتی اور سیاسی اعتبار سے لبرل کی وضاحت یوں کی جاسکتی ہے:
*لبرل یہ تسلیم کرتا ہے کہ حکومت کا کام کاروبار سنبھالنا ہرگز نہیں ہے، اس کا کام یہ ہے کہ وہ معاشرت اور سیاست میں آنے والی تبدیلیوں کا احترام کرے، استبداد کی ہر ممکن صورت کو ختم کرے۔ اضافی اور غیر ضروری قوانین، جیسا کہ اسلامی قوانین ہیں، کا خاتمہ کرے۔ وہ سیاسی جماعت کی مدد سے برسر اقتدار آئے لیکن ریاست کو مقدم رکھے۔ ریاست کو کسی الہامی نظریے، عقیدے کا پابند نہ کرے اور کسی مذہب کو سرکاری نہ بنائے۔
*معاشرے اور ریاست کو قدامت پرستی کی جانب جانے سے بچائے، آمرانہ حاکمیت قائم نہ کرے۔ حاکمیت اعلیٰ کے طور پر غیر انسانی، الہامی اتھارٹی کو مقرر نہ کرے۔
*انفرادی و سیاسی آزادیوں کی ضمانت دے، معاشی آزادی بحال کرے، حکومت میں عام آدمی کی شرکت کو یقینی بنائے، سیاسی وانتظامی اصلاحات کرے، آئین اور قانون کی عمل داری قائم کرے۔
قدامت پرست کون؟
اب ہم دیکھیں گے کہ قدامت پرست کون ہے؟ قدامت پرست کو لبرل کا متضاد کہا جاتا ہے۔ جو فرد لبرل نہیں وہ اس اعتبار سے قدامت پرست ہے، خواہ وہ کوئی بھی ہے، اس کا مذہب کچھ بھی ہے، وہ قدامت پرست ہے۔ تاہم قدامت پرست کا متضاد ہرحال میں لبرل نہیں ہوگا۔
ہمارے معاشرے میں بھی یہ بحث جاری ہے کہ قدامت پرست کون ہے اور لبرل کون؟ عام طور پر جب کسی کو ’قدامت پرست‘ کہا جاتا ہے تو اسے یوں لگتا ہے کہ کسی نے اسے گالی دی ہے۔ اس سے جارحیت ابھرتی اور اشتعال پیدا ہوتا ہے۔
یہ بالکل فطری سوال ہے کہ قدامت پرست کون ہے؟ پہلا جواب تو یہی ہے کہ یہ لبرل کا متضاد ہے۔ یہ معاشرت کے طے شدہ اصولوں اور مروجہ نظام کا دفاع کرتا ہے یا کرنا چاہتا ہے۔ یہاں یہ خلط مبحث بھی ہو جاتا ہے کہ ایک طرف قدامت پرست ہے یا روایت پرست ہے تو اس کے مقابل دوسرا فرد روشن خیال ہے، سیکولر ہے یا لبرل ہے یا پھر جدیدیت پرست، جسے انگریزی زبان میں ماڈرن کہا جاتا ہے۔
سب سے پہلے دیکھیے کہ قدامت پرست کون ہے؟
*کسی بھی مذہب کا پیروکار، خواہ مسلم ہو یا مسیحی، یہودی ہو یا ہندو یا کسی روحانی سلسلے پر کاربند ہو، جیسا کہ بدھ مت، جین مت، کسی فکر کا پابند ہو، جیسے کنفیوشس ازم وغیرہ۔ ان سب میں سے وہ قدامت پرست قرار دیا جاتا ہے جو اپنے عقیدے یا نظریے کی روایات کا پابند ہو، اگر الہامی کتاب ہے تو اس کی لبرل تعبیر پر اعتراض کرتا ہو۔
*مذہبی تعلیمات اور ایمانیات سے انحراف گناہ تصور کرتا ہو، حق اور باطل میں فرق کرتا ہو، اچھے اور بْرے کی تمیز کرتا ہو، حلال و حرام کا پابند ہو، اس میں نوعیت، شدت اور درجے کا فرق ہو سکتا ہے۔
*اپنے مذہبی، روحانی، اعتقادی یا نظری رویوں، اعتقادات اور اظہار میں وقت کے ساتھ تبدیلی نہ لاتا ہو۔ مثال کے طور پر ایک مسلمان صریح شرعی نصوص پر ایمان رکھتا ہے۔ انھیں مسترد کرنے کا، تحریف یا تبدیلی کا سوچ بھی نہیں سکتا، وہ قدامت پرست ہے جس میں نئے خیالات کی گنجایش نہیں ہے۔
*دنیا کے بارے میں اس کا نقطۂ نظر یہ ہو کہ اسے صرف ایمان یا نظریے سے ہی دیکھا اور برتا جاسکتا ہے۔ اس کا ایک مخصوص انجام ہونا ہے۔ اس میں بھی کمی بیشی اور ردوبدل کی گنجایش نہیں ہے۔
*کسی مذہب یا اعتقاد کی قدامت پرستی کا انحصار اس پر نہیں کہ زمانی اعتبار سے وہ کتنا پرانا ہے، جیسا کہ مسیحیت کی مثال ہے۔ یہ اسلام سے صدیوں پرانا مذہب ہے۔ اسلام کو قدامت پرست مذہب کہا جاتا ہے۔