خطے میں طاقت پاکستان کے پاس ہے 

437

صدر بش سے لے کر اوباما اور اب صدر ٹرمپ تک افغانستان امریکی صدورکے شیریں خوابوں کی پریشانی کی علامت ہے۔ افغانستان کے پہاڑوں اور پہاڑ جیسے لوگوں پر امریکیوں کے آنسوؤں کا کچھ اثر ہی نہیں ہوتا۔ پرانا کلیہ ہے جھگڑا طول پکڑ جائے تو صلح اور مذاکرات کا راستہ اختیار کرلینا چاہیے لیکن جہاد میں نہ جانے کیا لذت ہے سولہ برس بیت رہے ہیں افغان مجاہدین کا جذبہ جہاد سرد ہونے کا نام نہیں لے رہا۔
امریکا کے سیکرٹری آف اسٹیٹ ریکس ٹیلرسن کا دورہ جنوبی ایشیا دراصل افغانستان کے امتحان سے عہدہ برآ ہونے کی کوشش ہے۔ شادی کرنے، دوا پینے اور افغانستان سے فوج نکالنے میں سستی سے کام نہیں لینا چاہیے لیکن ایک سپر پاور کے زعم اور انانیت کو یہ نکتہ سمجھنے میں شاید ابھی کچھ اور وقت لگے گا۔ افغانستان کے حمام میں امریکا کا وہ حال ہے جو جسم پر صابن لگا ہونے کے بعد پانی چلے جانے پر ہوتا ہے۔
جسم پر صابن تھا پانی غسل خانے سے گیا
آپ کی مسٹیک ٹھیری میں نہانے سے گیا
نہ صرف نہانے سے گیا بلکہ صابن امریکی معیشت کی آنکھوں میں گھسا جا رہا ہے۔ وہ تلملا رہا ہے اور اس مسٹیک کا ذمے دار پاکستان کے قبائلی علاقوں کو سمجھ رہا ہے۔ پاکستان میں اپنے جوتے پالش کرنے والے حکمرانوں کو امریکا نے ان علاقوں میں آپریشن کرنے کا حکم دیا۔ امریکا کے حکم پر قبائلی علاقوں میں پاکستان نے اتنے آپریشن کیے کہ اب مریض کے جسم پرآپریشن کرنے کی کوئی جگہ بھی نہیں بچی لیکن امریکن ڈومور ڈومور کہے چلے جا رہے ہیں۔ اس ڈومور کہنے میں صدربش اور صدر اوباما کے رویے میں ایک رکھ رکھاؤ اور نازکی تھی ۔



عجز ونیاز سے تو وہ آیا نہ راہ پر
دامن کو اس کے آج حریفانہ کھینچیے
لیکن صدرٹرمپ اس ناز آفرینی اور شعر وشاعری کے بجائے بدمعاشی پر یقین رکھتے ہیں۔
اس کے گالوں پر کئی دست حنائی ثبت ہیں
عشق کا نشہ تھا آخر مار کھانے سے گیا
صدر ٹرمپ اور ان کی ٹیم نے پاکستان کو گرم گفتاری اور دھمکیوں کی باڑ پر رکھا ہوا ہے۔ اگست میں صدر ٹرمپ کے پاکستان کے بارے میں بد معاشانہ خطاب کے بعد پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں بظاہر تلخی آگئی تھی۔ پاکستان کے حکمرانوں نے قوم کے سامنے غیرت کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ تاثر دینا شروع کیا کہ پاکستان امریکا سے پرے پرے ہورہا ہے۔ خارجہ پالیسی بھی نئے سرے سے ترتیب دی جارہی ہے۔ اس غیرت کی شدت میں کچھ ہی کمی آئی تھی کہ ریکس ٹیلر سن نے افغانستان کی سرزمین پر کھڑے ہوکر پھر ناگفتنی کہہ دی اور دھمکی دیتے ہوئے کہا: ’’ہمیں طالبان کے خلاف جنگ جاری رکھنی ہے تاکہ وہ یہ جان سکیں کہ وہ کبھی فوجی کا میابی حاصل نہیں کرسکتے۔ اس کا انحصار اس بات پر ہے کہ کیا وہ ایسے اعمال اختیار کرتے ہیں جنہیں ہم دونوں معاملات افغانستان میں مفاہمت اور امن بلکہ پاکستان کے مستحکم مستقبل کو آگے بڑھانے کے لیے ضروری سمجھتے ہیں۔ میں سمجھتا ہوں بلکہ پاکستان کے لیے ضروری ہے کہ وہ ان دہشت گرد تنظیموں کی صورت حال کا کھلی آنکھوں سے جائزہ لے جنہیں پاکستان میں محفوظ ٹھکانے میسر ہیں اور جن کا وہ سامنا کررہا ہے تو زیادہ مستحکم اور محفوظ پاکستان کے لیے ہم پاکستان کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہتے ہیں۔‘‘ ان بین السطور دھمکیوں پر کوئی اور ملک ہوتا تو ٹیلرسن کا اپنی سرزمین پر استقبال کرنے سے انکار کردیتا لیکن اتنی زیادہ غیرت ہم افورڈ نہیں کرسکتے اس لیے دفتر خارجہ کے افسروں نے ان کا ائر پورٹ پر استقبال کیا اس کی کمی وزیر اعظم ہاؤس میں نکال دی گئی جہاں آرمی چیف جنرل باجوہ، وزیراعظم شاہد خاقان عباسی، ڈی جی آئی ایس آئی، وزیر خارجہ، وزیر داخلہ سمیت دیگر اعلیٰ حکام شریک ہو ئے۔ ٹیلرسن کے پاس وقت نہیں تھا ورنہ کچھ اور لوگ بھی حاضر ہوجاتے۔



امریکا افغان مسئلہ کے حل کی تلاش میں ہے۔ افغان مسئلہ کا ایک ہی حل ہے کہ امریکا افغانستان سے نکل جائے۔ امریکا بھی یہی چاہتا ہے لیکن کچھ عزت اور بے عزتی مزید خراب ہوئے بغیر۔ اس کے لیے امریکا پاکستان پر مسلسل دباؤ بڑھارہا ہے کہ وہ اپنے قبائلی علاقوں میں ’’دہشت گردوں‘‘ کے خلاف مزید آپریشن کرے تاکہ طالبان کی توقعات کم سے کم ہوجائیں اور وہ بالآخر مذاکرات کی راہ پر آجائیں۔ ٹیلرسن کے حالیہ دورے میں دونوں فریق سختی سے اپنے موقف پر ڈٹے رہے۔ پاکستان مسلسل مزید آپریشن سے انکار اور دہشت گردوں کی موجودگی سے انکار کرتا رہا۔ امریکا نے پاکستان کے ساتھ اپنے تعلقات میں تناؤ کی کیفیت پیدا کر رکھی ہے لیکن امریکا اور پاکستان دونوں تعلقات قائم رکھنا چاہتے ہیں۔
خطے میں امریکی مفادات کی تکمیل کا حصول پاکستان کی مدد کے بغیر ممکن نہیں۔ یہ پاکستان ہے جس کی مدد نے سولہ برس سے افغانستان میں امریکا کی موجودگی ممکن بنا رکھی ہے۔ پاکستان کی تائید اور حمایت کے بغیر امریکا سولہ برس تو درکنار سولہ مہینے بھی افغانستان میں نہیں گزار سکتا۔ آج افغانستان میں اس کی فوجیں دل شکستہ اور معیشت مفلوج ہے اگر پاکستان بھی اس کی مدد سے ہاتھ کھینچ لے تو افغانستان میں امریکا کی قبر کھدنا چند ماہ وسال کی بات ہے۔ اگر امریکا کو اس کے حا ل پر چھوڑ دیا جائے اور پاکستان کی جانب سے اسے کسی بھی قسم کی مدد فراہم نہ کی جائے تو امریکا اپنے زور بازو پر افغانستان میں نہیں رہ سکتا۔ امریکا کا حا ل بھی سوویت یونین سے مختلف نہ ہوگا۔ امریکی پاکستان کی اہمیت سے آگاہ ہیں۔ افغانستان میں ٹیلرسن نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا تھا ’’امریکا نے پاکستان سے طالبان کو کمزور کرنے کے لیے کچھ درخواستیں کی ہیں جن پر دوبارہ اسلام آبادکے دورے کے دوران پاکستان کی قیادت سے بات کی جائے گی۔‘‘
سوویت یونین ایک علاقائی طاقت تھی جب کہ امریکا سات سمندر پار بیٹھا ہے۔ اس وقت خطے میں اس کا قدرتی حلیف بھارت بھی اس کی کوئی خاص مدد نہیں کرسکتا۔ بھارت کیا کرسکتا ہے سوائے پاکستان میں دہشت گردی پھیلانے، افغانستان میں چند تعمیری پروجیکٹ ترتیب دینے اور فحش فلمیں برآمد کرنے کے۔ ان تینوں ہی معاملات سے نہ طالبان مذاکرات کی راہ پر آسکتے ہیں اور نہ امریکا کی کامیابی کا دروازہ کھل سکتا ہے۔ خطے میں طاقت پاکستان کے پاس ہے۔ چار فریقی رابطہ مذاکرات سے بھی یہ بات عیاں ہے کہ افغانستان کے ضمن میں نہ طاقت امریکا کے پاس ہے، نہ چین کے پاس اور نہ کٹھ پتلی افغان حکومت کے پاس۔ امریکا مسلمانوں کو مارنے کے لیے مسلمانوں ہی کی طاقت ان کے خلاف استعمال کررہا ہے۔ مسلمان ممالک کو ختم کرنے کے لیے وہ مسلمان ممالک ہی سے اتحاد کررہا ہے۔ مسلمانوں کے مقابل مسلمانوں کو آگے بڑھا رہا ہے۔ امریکا اپنے مفادات کے حصول کے لیے مسلم ممالک سے فوجی اتحاد کررہا ہے اور ان فوجی اتحادوں پر ہی انحصار کررہا ہے۔ مسلم ممالک کے وسائل کو دوسرے مسلم ممالک کو کمزور لیکن امریکا کو مظبوط کرنے کے لیے استعمال کررہا ہے۔ کاش ہم اپنی طاقت کا ادراک کرسکیں اور جان سکیں کہ خطے میں طاقت پاکستان کے پاس ہے۔
(نمبر برائے میسج: 03343438802)