چنگاری۔ جو ابھی سلگ رہی ہے

270

عقیدہ ختم نبوت کے حلف نامے میں تحریف پوری قوم کے احتجاج کے بعد فوری طور پر پارلیمنٹ میں اتفاق رائے سے ختم کردی گئی ہے اور حلف نامہ اپنی اصل صورت میں بحال ہوگیا ہے۔ بظاہر یہ بحث اب ختم ہوجانی چاہیے تھی لیکن ایسا نہیں ہوا۔ یہ چنگاری جس نے بھی بھڑکائی تھی وہ شعلہ تو نہ بن پائی لیکن ابھی تک بجھ بھی نہیں سکی اور بدستور سلگ رہی ہے۔ اس چنگاری کا مقصد اہل پاکستان کے خرمنِ ایمان کو بھسم کرنا تھا، یہ کام تو نہ ہوسکا لیکن اس نے عقیدہ ختم نبوت پر ایمان رکھنے والے کروڑوں پاکستانیوں کو بے چین کرکے رکھ دیا اور یہ بے چینی ابھی تک قائم ہے، وجہ اس کی یہ ہے کہ جس شخص نے یہ ناپاک اور دل آزار حرکت کی تھی وہ ابھی تک اپنے منصب پر قائم ہے اور احتجاج کے باوجود کوئی اس کا بال بھی بیکا نہ کرسکا حالاں کہ میاں شہباز شریف نے ابتدا ہی میں اپنا ردعمل ظاہر کرتے ہوئے کہا تھا کہ اس وزیر کو کابینہ سے نکال دیا جائے جس نے یہ حرکت کی ہے۔ شہباز شریف کوئی معمولی آدمی نہیں ہیں وہ بتیس سال سے برسراقتدار حکمران خاندان کا نہایت اہم ستون ہیں۔ انہوں نے پنجاب کو مکمل طور پر اپنی گرفت میں رکھا ہوا ہے، میاں نواز شریف اگرچہ عدالت سے نااہل ہو کر اقتدار سے بے دخل ہوگئے ہیں لیکن وفاق میں اب بھی ان کی پارٹی برسراقتدار ہے اور وہ پارٹی سربراہ کی حیثیت سے تمام اہم فیصلے کررہے ہیں، وہ چاہتے تو اپنے بھائی کے مطالبے پر عمل کرتے ہوئے وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کو ہدایت دے سکتے تھے کہ مذکورہ وزیر کو فوراً برطرف کردیا جائے لیکن انہوں نے ایسا نہ کیا، اس لیے کہ وزیر موصوف نے جو کچھ کیا ان کی ہدایت اور خواہش پر کیا تھا، خود اس وزیر کا بیان ہے کہ انتخابی اصلاحات کے مذکورہ ترمیمی بل پر گزشتہ سال سے کام ہورہا تھا اور اس پر وسیع مشاورت کی گئی تھی۔ ظاہر ہے کہ عقیدہ ختم نبوت کے حلف نامے میں جو ترمیم تجویز کی گئی تھی وہ اسی مشاورت کا نتیجہ تھی جس میں بعض سیاسی جماعتیں بھی دھوکا کھا گئی تھیں لیکن جب انہیں اس بات کا ادراک ہوا کہ ان کے ساتھ دھوکا کیا گیا ہے تو انہوں نے فوراً اس کوتاہی کی تلافی کردی۔



مذکورہ وزیر میاں شہباز شریف کو مطمئن کرنے کے لیے ان سے ملے اور اپنی بے گناہی ثابت کرنے کے لیے وضاحت پیش کی لیکن وہ چھوٹے میاں کو مطمئن کرنے میں ناکام رہے اور اب میاں شہباز شریف نے پھر یہ بیان دیا ہے کہ وہ اپنے اس موقف پر قائم ہیں کہ اس حرکت کے ذمے دار وزیر کو کابینہ سے نکال دینا چاہیے۔ چھوٹے میاں صاحب اپنے موقف پر قائم ہیں تو بڑے میاں صاحب بھی اپنے اس موقف پر ڈٹے ہوئے ہیں کہ وہ اپنے چہیتے وزیر پر کوئی آنچ نہیں آنے دیں گے، چھوٹے میاں صاحب کے ساتھ رانا ثنا اللہ نے بھی ہاتھ کردیا ہے، انہوں نے مبینہ طور پر قادیانیوں کو اپنے مسلمان بھائی قرار دے کر جلتی پر اور تیل چھڑک دیا ہے۔ اگرچہ ان کا تردیدی بیان بھی آگیا ہے لیکن مولوی حضرات کب ماننے والے ہیں وہ اپنے خطباتِ جمعہ میں مطالبہ کررہے ہیں کہ حلف نامے میں تحریف کے اصل مجرم وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کے ساتھ ساتھ صوبائی وزیر قانون رانا ثنا اللہ کو بھی کابینہ سے نکالا جائے اور دونوں کو قرار واقعی سزا دی جائے۔ پچھلے دنوں ہمارے شہر کہوٹہ میں تحریک ختم نبوت کے عالمی مبلغ مولانا اللہ وسایا تشریف لائے اور مرکزی جامع مسجد مکی میں خطبہ جمعہ ارشاد فرمایا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اپنی پیرانہ سالی کے باوجود ملک گیر دورے پر ہیں تا کہ عوام کے جذبہ حب رسولؐ کو سرد نہ پڑنے دیں اور ان ملعونوں کا عبرتناک انجام اپنی آنکھوں سے دیکھیں جو عقیدہ ختم نبوت کو چھیڑنے کے مرتکب پائے گئے ہیں۔ مولانا اللہ وسایا نے فرمایا کہ بے شک آئین میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دے دیا گیا ہے لیکن انہوں نے اپنی یہ حیثیت قبول نہیں کی، وہ مسلمانوں کے اندر گھسے ہوئے ہیں اور بیرونی قوتوں کے آلہ کار بن کر ملک کی نظریاتی بنیادیں کھوکھلی کررہے ہیں۔ اب ان کا حوصلہ اتنا بڑھ گیا ہے کہ وہ اس آئینی ترمیم کو بھی ختم کرانا چاہتے ہیں جس کے تحت انہیں غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا ہے۔ سیکولر میڈیا بھی ان کی درپردہ حمایت کررہا ہے اور گاہے گاہے ایسی آوازیں اُٹھ رہی ہیں جن میں کسی کو کافر قرار دینے کے حق کو چیلنج کیا جارہا ہے۔



سنا ہے کہ وفاقی وزیر قانون زاہد حامد اپنے گناہ بخشوانے عمرے پر گئے تھے جہاں انہوں نے روضہ رسولؐ پر بھی حاضری دی اور اپنی ناپاک جسارت کی معافی کی درخواست کی۔ دلوں کا حال تو اللہ جانتا ہے اگر وزیر موصوف نے مذکورہ حرکت نادانستگی میں کی تھی تو انہیں معافی ملنے کا امکان ہے لیکن اگر سب کچھ دیدہ دانستہ کیا گیا تھا تو پھر انہیں سزا بھگتنا ہی ہوگی، معافی کا کیا سوال! رانا ثنا اللہ بھی خاطر جمع رکھیں، تحریک ختم نبوت والے ان سے بھی نمٹنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔ بہر کیف چنگاری سلگ رہی ہے، پنجاب کی بیش تر مساجد میں اب بھی عقیدہ ختم نبوت ہی خطبہ جمعہ کا موضوع چلا آرہا ہے، حکومت نے مذکورہ اشخاص کے خلاف حتمی کارروائی نہ کی تو یہ چنگاری بھڑک بھی سکتی ہے۔ ہم ابھی یہاں تک لکھ پائے تھے کہ لاہور سے اطلاع آئی کہ عقیدہ ختم نبوت کے تحفظ اور اپنے مطالبات منوانے کے لیے تحریک لبیک یارسول اللہ نے بھی لاہور سے اسلام آباد تک لانگ مارچ کا آغاز کردیا ہے۔ تحریک کے قائدین اسلام آباد پہنچ کر وفاقی حکومت کو اپنا چارٹر آف ڈیمانڈ پیش کریں گے اور جب تک ان کے مطالبات تسلیم نہیں ہوتے وہ اسلام آباد میں دھرنا دیے رہیں گے، ان کے مطالبات میں دونوں مذکورہ وزرا کی برطرفی اور گستاخ رسول آسیہ مسیح کو سزائے موت دینے کا مطالبہ بھی شامل ہے۔ یہ وہ عورت ہے جسے بہت عرصہ پہلے شان رسالت میں گستاخی کرنے پر عدالت سے سزائے موت سنائی جاچکی ہے لیکن اس سزا پر ابھی تک عملدرآمد نہیں کیا گیا جب کہ اس عورت کی حمایت کرنے پر سابق گورنر پنجاب سلمان تاثیر ایک شیدائی رسولؐ ممتاز قادری کے ہاتھوں قتل ہوگئے تھے اور ممتاز قادری کو پھانسی پر لٹکا دیا گیا تھا۔ اس طرح دو انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بننے والی عیسائی عورت ابھی تک زندہ ہے اور مغربی ملکوں کے ردعمل کے خوف سے اس کی سزا پر عملدرآمد نہیں کیا جارہا۔
شاید حکومت کو اندازہ نہیں کہ عقیدہ ختم نبوت پر پاکستان کے تمام مسلمان بلاامتیاز فرقہ و مسلک متحد و یک جان ہیں اور تحریک لبیک یارسول اللہ بپھر گئی تو اسے سنبھالنا حکومت کے بس میں نہیں رہے گا۔