فیصل آباد (وقائع نگار خصوصی) کسان بورڈکے ڈویژنل صدر علی احمد گورایہ نے کہا ہے کہ حکومت کی جانب سے گندم کی کاشت کی حوصلہ شکنی کسانوں اور ملک دونوں کے مفاد میں نہیں ہے، ملک میں موجود گندم کو دوسرے ملکوں میں برآمد کرنے کے اقدامات ہی اس مسئلے کا حل ہے۔ پاکستان میں تین سال کی گندم ابھی تک گوداموں میں پڑی ہوئی ہے اور نئی فصل کی تیاری شروع ہوچکی ہے، تین فصلوں کی موجودگی میں نئی فصل کی خریداری مشکل ہے، جس پر حکومت اس کو برآمد کرنے کے بجائے کسانوں کی حوصلہ شکنی کررہی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت فوری طور پر ایک ڈیسک قائم کرے جو کہ ملکی اور غیر ملکی کمپنیوں سے کوٹیشن طلب کرکے ہر قیمت پر اس کو برآمد کرنے کے اقدامات کرے۔ مہنگی کھادوں، ادویات، مہنگے زرعی مداخل، بجلی، پیٹرول اور ڈیزل کے باعث کاشتکاروں کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑرہا ہے۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے اور ہماری معیشت کا 70 فیصد انحصار زراعت سے وابستہ ہے۔ اس شعبے کو نظر انداز کرکے ہم کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتے۔ دنیا کے بیشتر ترقی یافتہ ممالک جن میں چین، بھارت، انڈونیشیا، آسٹریلیا، جرمنی، کینیڈا اور امریکا شامل ہیں اپنے شعبے زراعت کو جدید خطوط پر استوار اور کسانوں کو زیادہ سے زیادہ ریلیف فراہم کرکے ترقی کی منازل طے کررہے ہیں
مگر بدقسمتی سے ہمارے ہاں معاملہ الٹ چل رہا ہے۔ حکومت نے چھوٹے کاشت کاروں کے لیے 100 ارب روپے کے بلاسود قرضوں کا اعلان تو کردیا ہے مگر میڈیا میں ایسی اطلاعات بھی آرہی ہیں جن سے واضح ہوتا ہے کہ حق داروں کو حق نہیں مل رہا۔ خورد برد اور منظور نظر لوگوں کو نوازنے کی شکایات بھی عام ہیں۔ بلاسود قرضوں کی فراہمی کے پیکیج کو شفاف انداز اور اقربا پروری کے تاثر سے بالاتر ہوکر چلانے کی ضرورت ہے۔ کسانوں کے مسائل ترجیحی بنیادوں پر حل ہونے چاہییں۔ حکمران اپنے اللوں تللوں پر قابو پاکر عوام اور کاشت کار بھائیوں کو سبسڈی دیں تاکہ انہیں معاشی مشکلات سے نجات مل سکے۔ بھارت ہمارے حصے کے دریاؤں کا پانی چوری کرکے اپنے کھیتوں کو سیراب کررہا ہے اور ہماری زمینیں بنجر ہورہی ہیں مگر اس معاملے میں حکمرانوں کی خاموشی معنی خیز اور لمحہ فکر ہے۔