میاں نواز شریف کا ہدف

338

ہم نے پانچ ستمبر 2017ء کے کالم میں اس امکان کا اظہار کیا تھا کہ سابق وزیراعظم میاں نواز شریف نااہلی کی مدت پانچ سال کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے اور 4 اکتوبر کے کالم میں کہا تھا کہ 2018ء میں ہونے والے الیکشن میں اگر مسلم لیگ نواز جیت گئی تو اس امکان کو مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ عدالت عظمیٰ کی طرف سے کسی سیاست دان کی نااہلی کو معطل کرانے کا بل پارلیمنٹ سے منظور کرالے۔ ہم نے میاں نواز شریف کے شاہانہ مزاج، ذہنی رجحانات، طرز حکمرانی اور طرز حیات کو پیش نظر رکھتے ہوئے مذکورہ امکانات کا اظہار کیا تھا۔ پہلا امکان نااہلی کی مدت کا تعین تھا سو، وہ حقیقت بن چکا ہے۔ دوسرا امکان کسی سیاست دان کی نااہلی کو معطل کرنے کا تھا اگر نواز لیگ متوقع الیکشن میں کامیاب ہوگئی تو یہ امکان حقیقت بن جائے گا۔ آصف زرداری اور عمران خان شور شرابا تو بہت کریں گے مگر عملاً کچھ نہیں کریں گے کیوں کہ ان کے دل نواز شریف کے ساتھ ہیں اور زبانوں پر جمہوریت کا راگ ہے جسے الاپنا ان کا سیاسی منشور ہے۔
گزشتہ اتوار کو محترم نجم سیٹھی کا مضمون پڑھا تو بڑی خوشی ہوئی، انہوں نے ہمارے خیال کی تائید کی ہے، لکھتے ہیں ’’نواز شریف قانون میں ترمیم کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے صدر بن گئے ہیں اگر وہ عدالت عظمیٰ اور مقتدر کے سامنے مزاحمت کا یہی انداز اپنائے رکھتے ہیں تو مارچ میں آئین میں ترمیم کرتے ہوئے اپنی نااہلی کی سزا معطل کرالیں گے تو جب دوبارہ نواز شریف اقتدار میں آئیں گے تو دونوں اہم اداروں کا ردعمل کیا ہوگا؟ یاد رہے کہ انہوں نے 1999ء میں اپنا تختہ اُلٹنے پر 2013ء میں جنرل مشرف کے خلاف غداری کا مقدمہ قائم کرتے ہوئے ردعمل ظاہر کردیا تھا، اس مرتبہ ہوسکتا ہے کہ وہ عدالت عظمیٰ کے اختیارات بھی محدود کرنے پر کمربستہ ہوجائیں تا کہ آئندہ عدالت منتخب پارلیمنٹ کے اختیارات اپنے ہاتھ میں نہ لے سکے‘‘۔
سابق وزیراعظم میاں نواز شریف، ان کی صاحبزادی مریم نواز اور داماد ریٹائرڈ کیپٹن صفدر پر فرد جرم عائد کردی گئی ہے، میاں نواز شریف کے صاحبزادگان کو مفرور قرار دے دیا گیا ہے، یہ ایسی خبر ہے جسے سننے کے لیے حزب اختلاف اور دیگر مخالفین بے تاب تھے سو، تالیاں بجانا اور بھنگڑا ڈالنا لازم قرار پاتا ہے۔ حزب اختلاف کی خوشی دیدنی تھی مگر مریم نواز شریف کا ردعمل بھی قابل دید ہی نہیں قابل توجہ بھی تھا۔ مریم نواز کہتی ہیں، فیصلہ کرلیا گیا ہے صرف سزا سنانا باقی ہے۔ عدالت قوم کا وقت برباد نہ کرے جو کچھ کرنا ہے جلدی کرے مگر یہ یاد رکھے کہ احتساب کرنے والوں کا بھی ایک دن احتساب ہوگا اور یہ دن زیادہ دور نہیں۔ شریف فیملی اور ان کے حامیوں کے بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ لوگ ملک میں افراتفری پھیلانے اور اداروں میں تصادم کرانے کی پالیسی پر گامزن ہیں۔
2013ء میں پرویز مشرف، میاں نواز شریف کے انتقام کا ہدف بنے تھے اور اب میاں نواز شریف کے بیانات سے یہ حقیقت آشکار ہوتی ہے کہ 2018ء میں جی آئی ٹی اور ان کے خلاف فیصلہ دینے والے جج صاحبان ان کا ہدف ٹھیریں گے۔ سوال یہ ہے کہ یہ سلسلہ کب تک چلتا رہے گا۔ اس کا سدباب بہت ضروری ہے مگر سوچنے کی بات یہ ہے کہ اس کی ابتدا کون کرے گا؟ اس کا آغاز کیسے ممکن ہوگا؟۔