’’ ڈومور‘‘ کی سرگوشی کا کرشمہ؟

437

بھارت میں بی جے پی کی حکومت نے تین سال تک کشمیر کو مقتل بنائے رکھنے کے بعد مذاکرات کار کا تقررکر دیا ہے۔ مذاکرات کار کے لیے بھارتی انٹیلی جنس بیور و کے سابق سربراہ دینشور شرما کو چنا گیا ہے جو نوے کی دہائی میں کشمیر میں کام کر چکے ہیں۔ مذاکرات کار کے لیے تقرر کا اعلان بھارتی وزیر داخلہ راجناتھ سنگھ نے عجلت میں بلائی گئی ایک پریس کانفرنس میں کیا۔ راجناتھ سنگھ نے کہا کہ بھارتی وزیر اعظم نریندر مودی کی پندرہ اگست کی تقریر کے عین مطابق ہے جس میں کشمیر کا مسئلہ گولی اور گالی سے حل نہ ہونے اور کشمیریوں کو گلے لگانے کی بات کی گئی تھی۔ راجناتھ سنگھ کا کہنا تھا کہ بھارتی حکومت مسئلہ کشمیر حل کرنے میں سنجیدہ اور اسے حل کرنے کی پابند ہے۔ حکومتی نمائندے کشمیر کے تمام لوگوں سے مذاکرات کریں گے۔ دینشور شرما نے اپنے تقرر کے بعد کہا کہ علیحدگی پسندوں سمیت تمام نظریات سے وابستہ سیاسی شخصیات سے مل کر وادی میں امن کی بحالی اور مسئلہ کشمیر کے حل کی کوشش کریں گے۔ بھارت کی طرف سے مذاکرات کار کے تقرر کو حریت کانفرنس نے یہ کہہ کر مسترد کیا کہ پاکستان مسئلے کا ایک اہم فریق ہے اور پاکستان کو مذاکرات سے باہر رکھ کر مذاکرات کامیاب نہیں ہو سکتے۔ دوسری طرف پاکستان کے دفتر خارجہ نے بھی مذاکرات کا کے تقرر کو یہ کہہ کر مسترد کیا کہ حریت کانفرنس کے بغیر مذاکرات بے معنی ہوں گے۔ سابق وزیرا علیٰ عمر عبداللہ نے ایک ٹویٹ میں اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ: ’’کشمیر کو ایک سیاسی مسئلہ تسلیم کرنا ان سب کی شکست کا غماز ہے جو صرف طاقت کے استعمال کو اس مسئلے کا حل سمجھتے تھے ‘‘۔
واجپائی اور من موہن سنگھ کے ادوار میں حریت کانفرنس اور بھارتی حکومتوں کے درمیان مذاکرات ہوئے تھے جو درحقیقت فوٹو سیشن تک محدود تھے۔ ان دو طرفہ مذاکرات کی بیل منڈھے نہیں چڑھ سکی تھی کیوں کہ کشمیر کی زمین پر کوئی تبدیلی رونما نہیں ہوئی تھی۔ جس کے نتیجے میں اس مذاکراتی عمل کے خلاف عوامی جذبات کا لاوہ پھٹنا شروع ہوگیا اور حریت کانفرنس کے لیے مذاکرات کی راہوں پر آگے بڑھنا ناممکن ہو گیا۔ نریندر مودی کی حکومت نے ہوا کے گھوڑے پر سوا ہو کر کشمیر کے انتخابی پلان کو ’’مشن 44228‘‘ کا نام دیا تھا۔ جس کا مطلب تھا کہ کشمیر اسمبلی کی چوالیس سے زیادہ نشستوں پر قبضہ جما کر تنہا حکومت سازی کی جائے۔ یہ منصوبہ ناکام ہوگیا اور بی جے پی کو محبوبہ مفتی کی پی ڈی پی کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دینا پڑی۔ کشمیریوں نے بی جے پی کی اس انداز سے آمد کو اپنی مسلم اور کشمیری تشخص کے لیے خطرے کی گھنٹی سمجھ کر مزاحمت کا راستہ اختیار کیا جواب میں بی جے پی کی حکومت نے کشمیریوں کو لاٹھی سے ہانکنے کی پالیسی اختیار کی۔ جس کا بڑے پیمانے پر ردعمل ہوا جو برھان وانی کی شہادت کے بعد آتش فشاں کی طرح پھٹ پڑا۔ بھارت نے کشمیریوں کو پیلٹ گن کی گولیوں سے دبانے کی کوشش میں سانحات کی ایک نئی کہانی رقم کی۔
صاف دکھائی دے رہا ہے کہ بھارت اس وقت کشمیر میں مذاکراتی عمل شروع کرنے کے حوالے سے اندرونی اور بیرونی دباؤ کا سامنا کر رہا ہے۔ تین سال بعد بھارتی حکومت کی طرف سے مذاکرات کی اہمیت اور ضرورت کا احساس درحقیقت ’’ڈومور‘‘ کا نتیجہ ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ امریکا منادی کے انداز میں ایک ڈومور پاکستان سے کہتا ہے جس کے لیے لاوڈ اسپیکر کا سہارا لیا جاتا ہے۔ ایک ڈومور سرگوشی کے انداز میں بھارت کو بھی کہا جاتا ہے۔ اس ڈومور میں بھارت کی عزت نفس اور قومی انا کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس ڈومور کی آواز کسی کو سنائی نہیں دیتی۔ کبھی تو یہ ڈومور کی فرمائش آنکھوں ہی آنکھوں میں کی جاتی ہے۔ پاکستان سے مذاکرات اور کشمیر میں حالات بہتر کرنے کے لیے بھارتیوں کے کان میں ڈومور کی سرگوشی ہی کا شاخسانہ ہے کہ امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے دورۂ بھارت سے قبل عجلت میں بلائی گئی ایک پریس کانفرنس میں کشمیر کے لیے مذاکرات کار کا تقرر کیا گیا۔ جس کے بعد بھارت نے امریکا کو یہ باور کرایا ہوگا کہ وہ کشمیریوں سے ہر سطح اور ہر قسم کے مذاکرات کے لیے تیار ہے۔ مذاکرات کار کا اس انداز سے تقرر اس لحاظ سے مشق فضول ہے کہ مودی اور محبوبہ مفتی کے مابین کوئی تنازع ہی نہیں۔ اصل تنازع حریت کانفرنس اور بھارت اور پاکستان اور بھارت کے درمیان ہے۔ اس مسئلے کو پس منظر سے الگ کرنے کی کوشش نہ تو ماضی میں کامیاب ہوئی نہ آئندہ اس کا امکان ہے۔ حریت کانفرنس موجودہ حالات میں مذاکرات برائے مذاکرات کے موڈ میں نہیں اور نہ ہی موجودہ حالات میں کشمیر کے عوام بھارت کی طرف سے کوئی بڑا فیصلہ اور اعلان ہوئے بغیر کسی مذاکراتی عمل کا حصہ بنتے دکھائی دے رہے ہیں۔