تعلیمی میدان میں نجی شعبے کی من مانیاں

288

معاشی تعمیر و ترقی اور پیداوار بڑھانے کے معاملے میں گزشتہ سوسال میں مختلف نظریات اور ماڈلز پیش کیے گئے ہیں اور کئی شہرہ آفاق معاشی ماہرین نے اپنے علم، تجربے، تحقیق و مشاہدے کے بعد اپنے اپنے نظریات دنیا کے سامنے پیش کیے ہیں۔ پہلے کہا گیا کہ پیداوار کے عوامل میں سرمایہ، افرادی قوت، قدرتی وسائل اور انتظامی امور شامل ہیں بعد کے آنے والے ماہرین نے بچت اور سرمایہ کاری کو معاشی ترقی کا مرہون منت قرار دیا۔ اس کے بعد یہ بات سامنے آئی کہ اگر آپ کو اپنے ملک میں تیز رفتار معاشی ترقی چاہیے تو ان سب کے ساتھ جدید ٹیکنالوجی کو اپنانا ضروری ہوگا اور اپنی زراعت و صنعت میں نئی ٹیکنالوجی کو داخل کرنا ہوگا۔ گزشتہ تیس چالیس سال میں بعض ممالک نے حیران کن ترقی کی ہے اور ان میں سے چند ایسے ہیں جنہوں نے ترقی کا سفر پاکستان کے بعد یا پاکستان کے ساتھ شروع کیا تھا اب وہ پاکستان سے بہت آگے نکل گئے ہیں ان ممالک کی ترقی کا مشاہدہ اور تجزیہ کرنے کے بعد معاشی ترقی کو مہمیز لگانے کا ایک اور عنصر سامنے آیا جس کو نام دیا گیا ’’انسانی وسائل‘‘ (Human Capital) یا انسانی سرمایہ۔ گویا اب معاشی پہیہ تیز چلانے کے لیے دو طرح کے سرمایے ضروری ہوگئے ہیں ایک طبعی یا مادی وسائل جن میں مشینری، پلانٹ، بلڈنگ اور نقد رقم شامل ہے اور دوسرے انسانی سرمایہ جو پڑھی لکھی، اعلیٰ تعلیم یافتہ، ہنر مند اور تربیت یافتہ افرادی قوت کا دوسرا نام ہے۔
اَن پڑھ، غیر تربیت یافتہ اور خام مزدور کو معیاری انسانی سرمائے میں ڈھالنے کے لیے دو عوامل بہت اہم ہیں ایک تعلیم و تربیت اور دوسرا صحت۔ چناں چہ جب دنیا نے اس بات کو تسلیم کرلیا کہ معاشی تعمیر و ترقی میں تعلیم و صحت کا اہم کردار ہے اس کے بعد دنیا میں عالمی اور علاقائی سطح پر ایسے ادارے وجود میں آئے جن کا مقصد تعلیمی اور صحت کے شعبے میں سہولتوں کو فروغ دینا تھا یہ ادارے تعلیم و صحت کے میدان میں سہولت کاری کا فریضہ انجام دیتے ہیں، دنیا کے ممالک کو مختلف اہداف دیتے ہیں اور تعلیم و صحت کی بنیاد پر درجہ بندی کرتے ہیں۔ مثلاً ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO) اور یونیسکو (UNESCO)۔ اس وقت دنیا میں یہ اتفاق پایا جاتا ہے کم از کم مجموعی قومی پیداوار کا 5 فی صد تعلیم پر خرچ کرنا چاہیے، دنیا کے بعض افریقی و ایشیائی ممالک اس سے بھی زیادہ خرچ کرتے ہیں۔
تعلیم کے معاملے میں پاکستان کی مرکزی اور صوبائی حکومتوں کی کارکردگی پر نظر ڈالیں تو ایسا لگتا ہے کہ تعلیمی میدان میں دنیا اگر مشرق کی طرف جارہی ہے تو ہم مغرب کی طرف جارہے ہیں، یعنی تعلیم کے معاملے میں دنیا جتنی سنجیدہ ہے ہمارا سرکاری شعبہ اتنا ہی غیر سنجیدہ ہے۔ مثلاً ابھی تک پاکستان میں تعلیم پر کیے جانے والے سرکاری اخراجات مجموعی قومی پیداوار (GDP) کا 2 فی صد ہیں جب کہ دنیا 5 فی صد خرچ کررہی ہے، سرکاری اعداد و شمار کے مطابق شرح خواندگی 65 فی صد ہے لیکن خواندگی کا معیار انتہائی پست ہے کہ اس معیار کے انسان کو خواندہ کہنا مشکل ہے، پھر یہ کہ سرکاری اسکولوں کی حالتِ زار کے بارے میں کچھ کہنا یا لکھنا بے کار ہے کیوں کہ آئے دن اس کی خبریں آتی ہیں کہ سندھ میں اتنے ہزار گھوسٹ اسکول ہیں جس کو پیپلز پارٹی کے رہنما نثار کھوڑو بھی تسلیم کرچکے ہیں، گھوسٹ کے علاوہ جو ہیں اُن میں نہ اساتذہ ہیں اور نہ ہی فرنیچر اور یہ بات زبان زدِ عام ہے کہ تعلیمی شعبے میں سرکاری نوکریاں فروخت کی جاتی ہیں اور اسکولوں میں تعینات کیے جانے والے اساتذہ معمولی معاوضے پر کوئی دوسرا آدمی بطور ٹیچر اسکول میں بھیج دیتے ہیں اور اسکول جائے بغیر تنخواہ کا بڑا حصہ اپنی جیب میں رکھ لیتے ہیں۔ کچھ عرصے پہلے اقوام متحدہ کی پاکستانی اسکولوں کے بارے میں ایک رپورٹ آئی تھی جس کے مطابق پاکستان کا تعلیمی نظام دنیا سے 60 سال پیچھے ہے جب کہ دستور کی دفعہ 25-A کے مطابق 5 سال سے 16 سال تک کی عمر کے تمام بچوں کو تعلیم فراہم کرنا صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ لیکن صوبائی حکومتوں کی سنجیدگی تعلیم کے معاملے میں سب کے سامنے ہے، اسی وجہ سے سرکاری اعداد و شمار کے مطابق 2 کروڑ سے زائد بچے اسکولوں سے باہر ہیں اور جو بچے پہلی کلاس میں داخلہ لیتے ہیں اُن میں سے صرف 30 فی صد بچے میٹرک تک پہنچ پاتے ہیں باقی اس سے پہلے ہی تعلیم چھوڑ دیتے ہیں۔
سرکاری اسکولوں کی کمزوریوں، بدحالیوں، بداعمالیوں اور خرابیوں کے باعث والدین اپنے بچوں کی تعلیم کے لیے پرائیویٹ اسکولوں کی طرف دیکھتے ہیں، اس صورت حال کو دیکھتے ہوئے پورے پاکستان میں اسکولوں کی چین پھیلی ہوئی ہے اور وہ اپنی ساکھ سے فائدہ اٹھاتے ہوئے ہر سال فیسوں میں اضافہ کرتے رہتے ہیں۔ چناں چہ متوسط طبقے کے لیے پاکستان میں سب سے بڑا خرچہ بچوں کی تعلیم ہے جس میں ان کی چالیس سے ساٹھ فی صد ماہانہ آمدنی خرچ ہوجاتی ہے، یہ اتنا بڑا خرچہ ہے جو دنیا کے کسی ملک میں نہیں۔ اس لیے کہ دنیا کے زیادہ تر ممالک میں پرائمری اور سیکنڈری تعلیم حکومت فراہم کرتی ہے، ترقی یافتہ ممالک میں تو تعلیم کے ساتھ صبح کا ناشتہ اور غریب بچوں کے لیے مالی وظیفہ بھی فراہم کیا جاتا ہے، پاکستان میں پرائیویٹ اسکولوں کی جانب سے فیسوں میں اضافے کو روکنے کے لیے سندھ ہائی کورٹ نے یہ فیصلہ دیا کہ ہر سال صرف 5 فی صد اضافہ کیا جائے، پنجاب میں بھی فیسوں میں بے تحاشا اضافہ روکنے کے لیے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ لاہور کی طرف سے اقدامات کیے۔ لیکن اس کے باوجود پرائیویٹ اسکولوں کی من مانیاں جاری رہیں اور کراچی میں فاؤنڈیشن پبلک اسکول کی طرف سے فیسوں میں اندھا دھند اضافے پر احتجاج کرتے ہوئے بچوں کے والدین کو سڑکوں پر آنا پڑا۔ اب یہ صوبائی حکومتوں کا کام ہے کہ وہ ایک طرف تو پرائیویٹ اسکولوں کی فیسوں میں اضافے پر نظر رکھیں اور دوسری طرف اپنے تعلیمی شعبے پر نظر رکھیں اور سرکاری اسکولوں کی کارکردگی کو بہتر بنائیں۔