ارشد وہرہ کومنی لانڈرنگ کیس میں گرفتار نہ ہونے کی یقین دہانی

533

کراچی ( تجزیہ : محمد انور ) کراچی کے ڈپٹی میئر ڈاکٹر ارشد وہرہ اتوار کو اپنی دیرینہ پارٹی متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم ) پاکستان سے علیحدگی اختیار کرکے پاک سر زمین پارٹی ( پی ایس پی ) میں شامل ہوگئے ارشد وہرہ کا یہ اقدام ایم کیو ایم کے لیے بظاہر بڑا دھچکا ہے کیونکہ اس سے ایم کیو ایم پاکستان سے زیادہ بلدیہ عظمی کراچی کے نظام کو نقصان دھچکا پہنچے گا جو ایم کیو ایم کی کراچی میں سیاسی طاقت کا نمونہ بھی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ ارشد وہرہ کی ایم کیو ایم پاکستان سے علیحدگی اس کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار کے لیے کوئی سرپرائز نہیں ہے نہ ہی ان کے لیے تشویش کا باعث ہے یہی وجہ ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے ارشد وہرہ کے پی ایس ہی میں شامل ہونے اور ایم کیو ایم سے دوریاں اختیار کرنے پرکوئی خاص رد عمل کا اظہار کرنے کے بجائے یہ کہا کہ ” ہمارے پاس بہت ارشد وہرہ ہیں ایک کے جانے سے فرق نہیں پڑتا۔ واقف حال افراد کا کہنا ہے کہ ایم کیو ایم پاکستان نے داکٹر ارشد وہرہ کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمے کے بعد اس حوالے سے ان کی کسی قسم کی مدد کرنے سے انکار کردیا تھا ایم کیو ایم کے رہنماؤں کا مؤقف تھا کہ ان مقدمات پر وہ کوئی مدد نہیں کر سکتے اس جواب کے بعد سے ڈاکٹر ارشد وہرہ زیادہ پریشان ہوگئے تھے حالانکہ وہ مبینہ طور پر بلدیہ عظمی کے امور کے حوالے سے بھی انہیں اہمیت نہیں دینے اور میئر وسیم اختر کی جانب سے نظر انداز کرنے پر نالاں تھے اس حوالے سے وہ ایم کیو ایم کے سربراہ سے بھی شکایات کرچکے تھے۔ بعض ذرائع کا یہ بھی کہنا تھا کہ ارشد وہرہ نے ایم کیو ایم چھوڑکر خاموشی اختیار کرنے کا بھی عندیہ دے چکے تھے۔ لیکن پی ایس پی میں شامل ہونے کا فیصلہ ارشد وہرہ نے قانونی تحفظ اور منی لانڈرنگ کیس میں گرفتار نہ کیے جانے کی یقین دہانی کے بعد کیا ہے یہ یقین دہانی مبینہ طور پر انہیں پی ایس پی ہی کے صدر انیس قائم خانی نے صرف چار دن قبل کرائی تھی۔



ارشد وہرہ کے اپنی سابقہ پارٹی سے علیحدگی کے بعد امکان ہے کہ مزید بلدیاتی نمائندے جن میں تین ڈسٹرکٹ کے چیئرمین بھی شامل ہیں وہ بھی ایم کیو ایم کو خیرباد کہہ دیں گے اور پی ایس پی میں شمولیت اختیار کرلیں گے۔ اگر ایسا ہوا تو بلدیہ کراچی میں ایم کیو ایم پاکستان کی لیڈر شپ خطرے میں پڑسکتی ہے۔ جبکہ ایسی صورت میں پی ایس پی بلدیہ میں میئر کے خلاف عدم اعتماد کی قرارداد میں لاسکتی ہے۔ ان ہی متوقع حالات کی وجہ سے ایم کیو ایم کے سربراہ ڈاکٹر فاروق ستار بھی اپنے قابل اعتماد نمائندوں سے رابطے تیز کرچکے ہیں۔ ڈاکٹر فاروق ستار کو یقین ہے کہ ان پر اعتماد کرنے والے اور قوم کی خدمت کے لیے مخلص منتخب نمائندے ان کی پارٹی چھوڑ کر جانے کے بجائے ایم کیو ایم پاکستان کے استحکام کے کیے کوشاں رہیں گے۔ ذرائع کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر فاروق ستار نے یہ واضح کردیا ہے کہ وہ کسی بھی ایسے کارکن اور عہدیدار کی حمایت نہیں کریں گے جو 22 جرائم میں ملوث ہوں یا ان پر مقدمات ہوں۔ دریں اثناء4 سندھ کے سیکریٹری بلدیات محمد رمضان اعوان نے نمائندہ جسارت کے استسفار پر بتایا ہے کہ پارٹی سے الگ ہونے کا عمل ارشد وہرہ کا ذاتی عمل ہے اس بنیاد پر حکومت ان کے ڈپٹی میئر کی تقرری کے نوٹیفیکشن کو واپس نہیں کرے گی بلکہ اگر قانون کے تحت بلدیہ کی کونسل ان پر عدم اعتماد ظاہر کرکے قرار داد منظور کرے گی تو انہیں اس عہدے سے ہٹانے کا نوٹیفکیشن جاری کیا جاسکتا ہے ۔