حُسنِ تعبیر

253

مسلّح افواج کے ترجمان جنابِ میجر جنرل آصف غفور کا پاکستان کی معیشت پر یہ تبصرہ: ’’پاکستان کی معیشت اگر بہت بری نہیں، تو بہت اچھی بھی نہیں‘‘ حقیقت کے مطابق بلکہ قدرے محتاط تھا۔ ہم جیسا کوئی آدمی تبصرہ کرتا تو شاید یہ کہتا: ’’پاکستان کی معیشت اگر بہت بری نہیں توکافی بری ہے‘‘۔ لیکن ہمارا تبصرہ ایک عام آدمی کا تبصرہ ہوتا اور اس کی اتنی اہمیت نہ ہوتی، جب کہ ڈی جی صاحب کا تبصرہ مسلّح افواج کا موقف سمجھا جاتا ہے، پس ٹائمنگ کا لحاظ ضروری ہے، نفسِ مضمون کوئی زیادہ مختلف فیہ نہیں ہے، اہلِ دانش کہتے ہیں: ’’آدھا گلاس خالی ہے، منفی تعبیر ہے اور آدھا گلاس بھرا ہوا ہے، مثبت تعبیر ہے‘‘۔ عربی کا مقولہ ہے: ’’حَسَنَاتُ الْاَبْرَارِ سَیِّءَاتُ الْمُقَرَّبِیْن‘‘، ترجمہ: ’’خاص حالات میں جو بات عام مسلمان کے لیے نیکی کا درجہ رکھتی ہے، بعض اوقات مقربینِ بارگاہِ الٰہی کے شایانِ شان نہیں ہوتی‘‘۔ اس کی مثال یہ ہے کہ ایک موٹر سائیکل سوار کا خدانخواستہ ایکسیڈنٹ ہوا، وہ سڑک کے درمیان زخمی پڑا تھا، کوئی دردِ دل رکھنے والا انسان آیا، اُسے سڑک کے درمیان سے اٹھایا، اس کی موٹر سائیکل کو اٹھا کر کنارے پر کھڑا کردیا، اس کے کپڑوں کو جھاڑا، اسے پانی پلایا، جہاں سے خون رِس رہا تھا، وہاں پٹی باندھ دی اور سڑک کے کنارے کسی سایہ دار جگہ پر لابٹھایا۔ وہ شخص اس درد مند انسان کو دعائیں دے گا اور اس کا شکر گزار ہوگا۔ لیکن اگر اس کا کوئی قریب ترین عزیز یا جگری دوست اس کے ساتھ یہی سلوک کرے، تو وہ اس سے خوش ہونے کے بجائے الٹا ناراض ہوگا، کیوں کہ اس سے وہ بجا طور پر یہ توقع رکھے گا کہ وہ اسے ہسپتال لے جائے، چیک اَپ کرائے، دوا کا اہتمام کرے، پھر اسے اُس کے گھر چھوڑ کر آئے اور اس کے بعد بھی خبر گیری کرتا رہے، پس: ’’جن کے رتبے ہیں سوا، اُن کی سوا مشکل ہے‘‘۔ ہر سچ بیچ چوراہے کے نہیں بولا جاتا، ہم اپنی ذاتی یا گھریلو بہت سی سچی باتوں پر پردہ ڈالے رکھتے ہیں، ریاست کی حرمت اور مفاد ہماری ذات سے بہت بلند ہے، یہی بات ایک اور موقع پر ڈی جی صاحب نے بھی فرمائی تھی: ’’ادارہ فرد سے بالا ہے اور ریاست ادارے سے بالا تر ہے‘‘، پس ریاست کے مفاد میں احتیاط لازم ہے۔ پھر انہوں نے وزیرِ داخلہ جنابِ احسن اقبال کے ردِّ عمل پر وضاحت ضروری سمجھی، شاید یہ ان کے منصب اور ادارے کے وقار کا تقاضا ہو، لیکن اب یہ باب بند ہوگیا ہے تو سب کے لیے باعثِ اطمینان ہے۔ ہماری اعلیٰ سیاسی اور دفاعی قیادت نے ایک صف میں بیٹھ کر امریکی وزیر خارجہ ریکس ٹلرسن کے وفد سے مکالمہ کیا اور قومی موقف بیان کیا، اس سے پوری قوم اور دنیا کو ایک واضح پیغام ملا، کاش کہ ہمیشہ ایسا ہی ہو، یقیناًاس سے شیشے کے گھر میں بیٹھے ہمارے بعض دانش فروشوں کی حوصلہ شکنی ہوئی ہوگی۔
انہوں نے مزید کہا: ’’نہ مارشل لا آرہا ہے اور نہ کوئی ٹیکنوکریٹ حکومت آرہی ہے، جو سسٹم چل رہا ہے، اسے چلتے رہنا چاہیے، آئین سے بالاتر کوئی کام نہیں ہوگا‘‘۔ البتہ انہوں نے وزیرِ داخلہ کے ردِّ عمل پر دکھ کا اظہار کیا۔ انہوں نے مزید کہا: ’’جمہوریت کو پاک فوج سے کوئی خطرہ نہیں ہے، البتہ عوامی امنگیں اور جمہوری تقاضوں کے پورا نہ ہونے سے جمہوریت کو خطرہ لاحق ہوسکتا ہے‘‘۔ اگر ہمارا جنرل صاحب سے براہِ راست رابطہ ممکن ہوتا تو ہم ٹیلی فون ہی پر اُن سے اظہارِ خیال کرلیتے۔ بامرِ مجبوری ہمیں ان سے بالواسطہ مکالمے کے لیے کالم کا سہارا لینا پڑ رہا ہے، ہماری رائے میں انہیں یہ کہنا چاہیے تھا: ’’جمہوریت کو کوئی خطرہ نہیں ہے، جمہوریت چلتی رہے گی، البتہ عوامی امنگیں اور جمہوری تقاضے پورے نہ ہونے سے حکومت کو خطرات لاحق ہوسکتے ہیں‘‘۔
کیوں کہ ہمیں جمہوریت کی یہی تو خوبی بتائی جاتی ہے کہ اس میں ڈیڈ لاک نہیں آتا، نظام موقوف یا معطّل نہیں ہوتا، تسلسل قائم رہتا ہے، آمریت کے برعکس جمہوری نظام میں دستور کے اندر رہتے ہوئے تبدیلی کا راستہ کھلا رہتا ہے اور اس کے تین طریقے ہیں: ایوان کے اندر سے تبدیلی آجائے یا حکومتِ وقت خود قوم سے تازہ مینڈیٹ لینے کے لیے وسط مدتی انتخابات کا ڈول ڈالے یا منتخب حکومت دستور کے مطابق اپنی آئینی مدت پوری کرے اور اپنی کارکردگی کا ریکارڈ لے کر عوام کے پاس جائے۔ الغرض عوام ہی آزادانہ قومی انتخابات کے ذریعے اکثریتی ووٹ سے تبدیلی لانے کے مُجاز ہیں کہ آیا اس حکومت کو دوبارہ موقع دیا جائے یا اسے تبدیل کر کے اس سے بہترسیاسی جماعت یا قیادت کو اقتدار سونپا جائے۔ ان جمہوری اقدار کی راہ میں صرف مہم جُو آمر یا سیاست دان حائل ہوتے ہیں، ورنہ نظا م جیسے تیسے چلتا رہتا ہے،
کوئی بڑا مسئلہ پیدا نہیں ہوتا۔ چوتھا طریقہ وہی ہے جو ہمارے ملک میں 1958، 1969، 1977 اور 1999 میں وقفے وقفے سے آزمایا جاتا رہا اور ناکامی سے دوچار ہوا، فرق یہ ہے کہ معزول یا ناکام سیاست دان دوبارہ عزت ووقار کے ساتھ قوم کے درمیان اپنا مقام بنالیتے ہیں، جب کہ آمر کی باعزت واپسی کی کوئی مثال ہماری تاریخ میں موجود نہیں ہے، خواہ جنابِ جنرل پرویز مشرف کی طرح وہ خود کو دانشِ عصر کا امام اور اپنے مقابل سب کو احمق ہی سمجھتا ہو۔
پس دستور کے مطابق قومی انتخابات کے ذریعے حکومت کی تبدیلی کا راستہ کھلا رہتا ہے، یہی جمہوریت کا مثبت پہلو ہے، ورنہ آمریت سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لیے وقفے وقفے سے تحریکیں چلانی پڑتی ہیں، ملک افراتفری اور غیر یقینی حالات سے دوچار ہوجاتا ہے، معیشت کا پہیہ جام یا سست رفتار ہوجاتا ہے۔ ایسی صورتِ حال سیاسی ومعاشی عدمِ استحکام کا باعث بنتی ہے، کیوں کہ ملکی وغیرملکی سرمایہ کار غیر یقینی حالات کی وجہ سے سرمایہ کاری کے لیے آمادہ نہیں ہوتے، سرمایہ دار ایک اڑتی چڑیا ہے، اس کی قوتِ شامّہ بہت تیز ہوتی ہے، جہاں اُسے جان کے خطرے اور سرمائے کے ضیاع کی بو محسوس ہو، وہ وہاں سے ہجرت کر جاتی ہے اور نیا آشیانہ ڈھونڈنے میں دیر نہیں لگاتی، اس کے لیے ممالک کی سرحدیں بے معنی ہوتی ہیں۔ دنیا کا ہر ملک سرمایہ دار کے استقبال کے لیے اپنا دیدہ ودل کشادہ رکھتا ہے، حال ہی میں عہدِ حاضر کی ایک طاقت ور معیشت چین کے طاقتور صدر نے اپنے ملک کی حکمراں جماعت کمیونسٹ پارٹی کی انیسویں کانگریس سے خطاب کرتے ہوئے کہا: ’’ہم اپنے ملک میں بیرونی سرمایہ کاری کے لیے امکانات اور مواقع کو اور وسیع کریں گے ‘‘۔ جنابِ ذوالفقار علی بھٹو نے پاکستان پیپلز پارٹی کے قیام کے وقت بیس بڑے سرمایہ دار خاندانوں کو نشانہ بنایا تھا، پھر 1972 میں صنعتوں کو قومیا لیا گیا، اس کے بعد اکثر صنعت کار ملک سے چلے گئے اور دوسرے ممالک میں جاکر اپنے کاروبار جمالیے، پاکستان سے سرمائے کی یہ اڑان اب بھی جاری وساری ہے، کہا جاتا ہے کہ سیکڑوں ارب ڈالر پاکستان سے باہر چلے گئے۔
جمہوری نظام کے تسلسل کو نو سال ہوچکے ہیں، لیکن ہم ’’دودھ کا جلاچھاچھ بھی پھونک کر پیتا ہے‘‘ کا مصداق بنے رہتے ہیں، 1977میں حکومت مخالف تحریک کے موقع پر چیف آف آرمی اسٹاف جناب جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم سمیت بحری اور فضائی افواج کے سربراہان نے ریڈیو پاکستان پر آکر منتخب جمہوری حکومت کی پشت پناہی اور حمایت کا یقین دلایا تھا۔ لیکن پھر 5جولائی 1977کو عہد شکنی کر کے اقتدار پر قابض ہوگئے اور پاکستان قومی اتحاد کی قیادت منہ تکتی رہ گئی۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف نے 12اکتوبر 1999 کو ایک بار پھر منتخب جمہوری حکومت کی بساط لپیٹ دی۔ فرق یہ ہے کہ بعض مذہبی عناصر جنرل محمد ضیاء الحق مرحوم کے حامی رہے اور جنرل پرویز مشرف کے دورِ حکومت میں لبرل عناصر اُن کے ہمنوا رہے، وہ آج بھی جنرل محمد ضیاء الحق کو عَلانیہ دشنام کا ہدف بناتے ہیں اور ظاہراً یا دبے لفظوں میں جنرل پرویز مشرف کا ذکرِخیر کرتے ہیں۔
پہلا پتھر کون مارے:
آج کل ہمارے وطن عزیز میں صادق وامین اور کاذب وخائن کی بحث جاری ہے، ہر ایک کے اپنے اپنے معیارات ہیں۔ ایک معیار سیرتِ عیسیٰ علیہ السلام سے بائبل کی مندرجہ ذیل روایت میں بیان کیا گیا ہے:
’’اور فقیہ اور فریسی اس عورت کو لائے جو زنا میں پکڑی گئی تھی اور اسے بیچ میں کھڑا کر کے یسوع سے کہا: اے استاد! یہ عورت زنا میں عینِ فعل کے وقت پکڑی گئی ہے، تورات میں موسیٰ نے ہم کو حکم دیا ہے کہ ایسی عورتوں کو سنگسار کریں۔ پس تو اس عورت کی نسبت کیا کہتا ہے؟۔ انہوں نے اُسے آزمانے کے لیے یہ کہا تاکہ اُس پر الزام لگانے کا کوئی سبب نکالیں، مگر یسوع جھک کر انگلی سے زمین پر لکھنے لگا۔ جب وہ اس سے سوال کرتے ہی رہے، تو اُس نے سیدھے ہوکر اُن سے کہا: جو تم میں بے گناہ ہو، وہی پہلے اس کو پتھر مارے، (انجیلِ یوحنا، باب:8، آیات: 3-8)‘‘۔ پس پتھر اٹھانے سے پہلے اپنے دامن پر ایک نظرڈالنے میں کوئی حرج نہیں ہے۔