بنکر میں چھپا بزدل

271

مومن خان مومن کا ایک شعر قدرے تصرف کے ساتھ ملا حظہ کیجیے:
یاں خوف مرگ میں موت سے بدتر ہے زندگی
آپ آکے دیکھ جائیے باور اگر نہیں
آج کے سرکردہ امریکی بزدل، ذلیل، مفاد پرست اور بد فطرت تو خیال کیے جاتے ہیں لیکن اس قدر بزدل! کس کے خیال میں ہوگا۔ اس ماہ کی 23تاریخ کو امریکی نائب وزیرخارجہ جنوبی ایشیا کے دورے کے موقع پر افغانستان پہنچے تو کابل کے شمال میں واقع امریکی فوج کے زیر انتظام بگرام ائر بیس پر اترے۔ وہاں بھی خوف کا یہ عالم تھا کہ اس نے وہاں بھی اپنے آپ کو محفوظ تصور نہیں کیا اور خود کو بگرام کے ہوائی اڈے کے ایک قلعہ نما بنکر تک محدود کردیا جس میں کوئی کھڑکی تک نہیں تھی۔ یہ جذبہ ایمانی سے سرشاران چند ہزار افغان مجاہدین کا خوف تھا جن کے پاس نہ ٹینک ہیں نہ ہوائی جہاز اور نہ جدید اسلحہ۔ حملوں کے دوران انہیں فضائی کور حاصل ہوتا ہے اور نہ دشمن کی نشاندہی کرنے والے جدید آلات ہی انہیں میسر ہیں لیکن بڑی سپر پاور اپنی اور اپنے اتحادیوں کی تمام تر طاقت کے باوجود جنہیں کچلنے میں ناکام ہے۔ وہ خود اور اپنے ایجنٹوں کے ذریعے جن سے مذاکرات کی بھیک مانگ رہی ہے۔ موت سے خوف زدہ اس بزدل امریکی نائب وزیر خارجہ ریکس ٹیلرسن نے افغان صدر اشرف غنی کو بھی وہیں طلب کیا اور اسی بنکر میں مذاکرات کیے۔ لیکن جب یہی امریکی نائب وزیر خارجہ دنیا کی چھٹی بڑی فوج اور عالم اسلام کی واحد ایٹمی قوت پاکستان کے ہوائی اڈے پر اترتا ہے تو اس کے تکبر کا یہ عالم ہوتا ہے جیسے پاکستان اس کی کالونی ہے اور وہ اس کا وائسرائے۔ 22کروڑ پاکستانیوں کی نمائندہ سول اور فوجی قیادت اس کے سامنے اس طرح پیش ہوتی ہے جیسے آقا نے ناراض ہوکر گھر کے سارے ملازمین کو طلب کرلیا ہو۔ بعض اخبارات نے ٹیلرسن اور ہماری قیادت کے مابین ہونے والے مکالمے کوٹ کیے ہیں، انہیں پڑھیے ایسا محسوس ہوگا جیسے نوکر مالک کے سامنے اپنی کارکردگی یا وضاحتیں پیش کررہے ہیں۔
ایسے وصال پہ لعنت، ایسے قرار پہ تف
ترے خیال پہ تھو، تیرے انتظار پہ تف
ریکس ٹیلر سن کے تشریف لے جانے کے بعد اگلے دن سینیٹ میں تقریر کرتے ہوئے ہمارے وزیر خارجہ خواجہ آصف نے فرمایا: ’’امریکا سے ڈکٹیشن لیں گے نہ اس کی ناکامی کا ملبہ اٹھائیں گے۔ قومی مفاد پر سمجھوتا نہیں ہوسکتا۔ امریکی سینیٹر جان مکین پر واضح کردیا کہ ہم ویت نام ہیں نہ عراق۔ 16سال افغانستان میں گزارنے کے باوجود امریکی نائب وزیر خارجہ بیس سے باہر نہیں نکلے‘‘۔ یہ جملے منافقت اور دوغلے پن کی نادر مثال ہیں۔ سچ وہ ہوتا ہے جو منہ پر کہا جائے۔ کلمہ حق اسے کہتے ہیں جو روبرو ادا کیا جائے۔ یہ عوام کا غصہ ٹھنڈا کرنے اور غداری کو چھپانے کی کوشش ہے جس کی ہماری قیادت چمپئن ہے۔ 21اگست کو صدر ٹرمپ کی جانب سے پاکستان کی بے حدوحساب بے عزتی کے بعد بھی ہماری قیادت نے ایسی ہی جعلی غیرت مندی کا مظاہرہ کیا تھا ’’اب امریکا کے ڈو مورکے مطالبے پر ہمارا جواب نو مور ہوگا۔‘‘ لیکن 24اگست کو امریکی نائب وزیر خارجہ سے ڈومور کے احکامات ایسے وصول کیے گئے جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔
رات کی بات کا مذکور ہی کیا
چھوڑیے رات گئی بات گئی
24اکتوبر کو اسلام آباد میں امریکی سفارت خانے نے امریکی سیکرٹری خارجہ کی جنرل باجوہ اور وزیراعظم خاقان عباسی سے ملاقات کے حوالے سے ایک پریس ریلیز جاری کی۔ جس میں یہ کہا گیا ہے کہ امریکی سیکرٹری خارجہ نے امریکی صدر ٹرمپ کا یہ پیغام دہرایا کہ ’’پاکستان ملک سے عسکریت پسندوں اور دہشت گردوں کے خاتمے کے لیے اپنی کوششوں میں ’’لازمی اضافہmust increas‘‘ کرے۔ اس پریس ریلیز سے دوباتیں عیاں ہیں۔ ایک یہ کہ ڈومور کی وہ اصطلاح جو بدنامی کی طرح پاکستان اور امریکا کے تعلقات اور پاکستان کے حکمرانوں کو امریکا کی طرف سے احکام دینے کی علامت بن گئی ہے اسے ’’مسٹ انکریز‘‘ سے تبدیل کیا جارہا ہے۔ کام وہی ہے کہ پاکستان کی سول اور فوجی قیادت خطے میں دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر اسلام کے خلاف امریکا کی جنگ لڑے۔ اس کے عوض پاکستان کے بے پناہ جانی اور مالی نقصان کے بدلے میں امریکا پاکستان کو کبھی کبھی بقدر مونگ پھلی امداد دیتا رہے گا۔
اصطلاحات کا معاملہ بھی خوب ہے۔ کچھ ہی عرصے پہلے کی بات ہے امریکی مطالبات کی تکمیل کے لیے وہ جو ڈرتا ورتا کسی سے نہیں تھا ’’ہاٹ پر سویٹ‘‘ گرم تعاقب کے الفاظ استعمال کرتا تھا۔ صدر مشرف اس کی تفہیم اس طرح کرتے تھے کہ اگر افواج پاکستان نے قبائلی جنگجوؤں کے خلاف فوجی کارروائی نہیں کی تو امریکا گرم تعاقب کرتے ہوئے پاکستان کی سرزمین میں داخل ہوجائے گا۔ موجودہ دور میں اس اصطلاح کو’’ایکشن ایبل انٹیلی جنس‘‘ قابل عمل انٹیلی جنس سے تبدیل کردیا گیا ہے۔ تاکہ امریکا بذات خود کاروائی کرنے کے بجائے قابل عمل انٹیلی جنس کی فراہمی کے نام پر ہماری افواج کو استعمال کرے۔ کینیڈین جوڑے کی بازیابی کے موقع پر فوج کے ترجمان نے افواج پاکستان کے متحرک ہونے کا یہی جواز پیش کیا تھا۔
21اگست کی صدرٹرمپ کی پاکستان کے بارے میں توہین آمیز تقریر کے بعد ہماری قیادت نے یہ تاثر دیا تھا کہ ہم اپنی خارجہ پالیسی کو ازسر نو مرتب کررہے ہیں۔ ہمارے وزیرخارجہ نے چین، روس، ترکی اور ایران کا دورہ کیا۔ یہ بھی ایک فریب تھا۔ ہمارے حکمرانوں کے نزدیک امریکا آج بھی کلیدی حیثیت رکھتا ہے۔ ہمارے حکمران اپنے اقتدارکو امریکا کی رضا سے مشروط سمجھتے ہیں۔ گزشتہ ادوار میں ہوا بھی یہی ہے۔ بھٹو ہوں یا ضیاء الحق جس نے امریکا کی پالیسیوں سے انحراف کیا نہ اقتدار کے ایوانوں میں رہا اور نہ اس دنیا میں۔ ان کے بعد قیادت سول، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن کی رہی یا جنرل پرویز مشرف کی سب نے امریکا کی اطاعت میں ہی خیریت جانی لیکن ملک وقوم کو اس اطاعت سے سوائے بربادی کے کچھ حاصل نہ ہوسکا۔ حقیقت یہ ہے کہ کسی بھی برتر طاقت سے اتحاد سے چھوٹے ممالک کو کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ حاصل ہوتا بھی ہے تو بقدر اشک بلبل۔ ہم گزشتہ ستر برس سے امریکا کا اتحادی بن کر آج اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔ چین سے اتحاد کرکے بھی کل اسی نتیجے پر پہنچیں گے۔ بنگلا دیش ہو، نیپال ہو بھوٹان ہو یا بھارت کا کوئی اور زیر اثر ملک۔ ان ممالک کا تجربہ بھی یہی بتاتا ہے کہ بھارت سے اتحاد کرکے ان ممالک کو کچھ زیادہ فائدہ حاصل نہیں ہوتا۔ اصل ثمرات بھارت سمیٹ لیتا ہے۔ دنیا میں عزت کا مقام حاصل کرنے کے لیے ہمیں امریکاکی غلامی سے نکلنا ہوگا۔ اس صورت میں ہمیں امریکا کی طرف سے عائد کردہ پابندیوں سے ڈرایا جاتا ہے۔ ٹھیک ہے پابندیاں لگتی ہیں تو لگ جائیں۔ دنیا میں ہر چیز کی کچھ قیمت ہوتی ہے جو بہرحال چکانی پڑتی ہے۔ امریکا سے آزادی اور اپنے حکمرانوں کی غداری کی ایک قیمت ہے جو ہمیں ادا کرنا ہوگی۔ ورنہ چند ہزار مجاہدین کے خوف سے بنکر میں دبک جانے والے یہ بھیڑیے یوں ہی سینہ تانے ہم پر جھپٹتے رہیں گے۔
(میسج کے لیے نمبر: 03343438802)