مستقبل کے معماروں کا مطالبہ

438

کسی بھی ملک میں قیادت کی تیاری اور فراہمی کے لیے طلبہ کو اہمیت حاصل ہوتی ہے جب تک پاکستان میں مستقبل کی قیادت تیار کرنے کا نظام طلبہ یونینوں کی شکل میں نافذ اور بروئے کار تھا ملک کو مرکزی اور صوبائی سطح پر قیادت بھی میسر آرہی تھی لیکن بد قسمتی سے فوجی آمر جنرل ضیا الحق نے طلبہ یونینوں پر پابندی لگاکر یہ راستہ بند کردیا اب اس نرسری سے قیادت کی تیاری اور فراہمی کا کام بند ہوچکا کچھ لوگ پرانے زمانے کے ہیں یا کچھ لوگ اسلامی جمعیت طلبہ کی وجہ سے معاشرے کے مختلف شعبوں میں خدمات انجام دے رہے ہیں۔ طالب علمی کے بعد انہوں نے پارٹیاں بھی بدلی ہیں اور جماعت اسلامی کے بجائے مسلم لیگ، یہاں تک کہ پیپلزپارٹی کا بھی رخ کیا۔ بہت سے تحریک انصاف میں بھی نظر آتے ہیں۔ ملک کی محسن اسی طلبہ تنظیم نے گزشتہ روز کراچی میں اٹھو جوانو بدلو کراچی کے عنوان سے طلبہ کنونشن منعقد کیا اس کنونشن کے انعقاد کا مقصد محض جلسہ نہیں کرنا تھا بلکہ اس کی پشت پر ایک ٹھوس منصوبہ ہے۔ ایک تحریک ہے، کراچی میں نہیں پورے ملک میں متبادل قیادت کی فراہمی ہے جب تعلیمی اداروں میں یونین کام کرے گی تو مستقبل کے معمار کو معمار بننے کی تربیت ملے گی اس کنونشن نے اسلامی جمعیت طلبہ کے لیے کچھ نہیں مانگا ہے۔ تعلیمی بجٹ میں اضافہ کرنے کا مطالبہ کیا ہے تعلیمی بجٹ میں کرپشن ختم کرنے کے لیے نظام وضع کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔ سب سے اہم بات ملک بھر میں یکساں نصاب اور یکساں نظام تعلیم کا مطالبہ کیا ہے۔ کراچی کے تعلیمی اداروں کی گرانٹ بڑھانے اور حالت زار بہتر بنانے کا مطالبہ کیا ہے۔ ہوسکتا ہے جماعت اسلامی سے تعلق کی وجہ سے بہت سے حلقوں میں اس سے اختلاف کیا جائے لیکن اس کے مطالبات سے تو کوئی بھی اختلاف نہیں کرسکتا۔ خصوصاً پیپلزپارٹی جس کے چیئرمین سینیٹ تو طلبہ یونینوں کی بحالی کا بار بار اعلان کرچکے ہیں۔ حکومت کو چاہیے کہ مستقبل کے ان معماروں کی پکار کو سنیں اور اپنے ملک کا مستقبل محفوظ بنائے۔