کراچی کے ڈپٹی میئر ارشد وہرہ پاک سرزمین پارٹی میں شامل ہوگئے۔ اس فیصلے سے قبل یقیناًانہوں نے اپنے مستقبل کے حوالے سے بہت غور و خوض کیا ہوگا اس پر پی ایس پی کے رہنما بغلیں بجارہے ہیں اور ڈاکٹر فاروق ستار سے مطالبہ کررہے ہیں کہ وہ اپنے اعلان کے مطابق اجتماعی استعفے دیں۔ لیکن یہ محض ایک فرد کی دوسری پارٹی میں شمولیت نہیں ہے بلکہ کراچی میں جو کھیل کھیلا جارہاہے یہ اسی کا حصہ ہے۔ جو لوگ الطاف حسین کو دہشت گرد قرار دیتے ہیں، غدار کہتے ہیں، اس کی تقریروں پر پابندی لگاتے ہیں وہ اس کے نامزد کردہ ارکان قومی و صوبائی اسمبلی اور سینیٹ کو سرپر بٹھائے ہوئے ہیں اسی الطاف حسین کے نمائندوں کو میئر اور ڈپٹی میئر بنا رکھا ہے۔ اس کے پالے ہوئے اور 28 برس تک الطاف اور ’’را‘‘کا ایجنٹ ہونے کا اعتراف کرنے والے کو محض ایک پریس کانفرنس میں رونے دھونے اور الطاف حسین کو برا بھلا کہنے پر سارے قصور معاف کرکے پی ایس پی بنوادی گئی۔ اسے عرف عام میں پاک صاف پارٹی بھی کہاجاتا ہے۔ اس پارٹی کے رہنماؤں پر الزامات بھی سنگین ہیں اور خود مصطفی کمال نے ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہونے کا اعتراف کرکے ان کی سنگینی میں مزید اضافہ کردیا ہے۔ ارشد وہرہ کی پی ایس پی میں شمولیت اس کھیل کا حصہ ہے جس کے تحت کراچی میں مہاجر قیادت کا تاج کسی ایک سرپر رکھنے کا مرحلہ طے کرنا ہے۔ جب تک نئے انتخابات نہیں ہوتے اس وقت تک تو الطاف حسین کے نامزد کردہ متحدہ پاکستان کے رہنما ڈاکٹر فاروق ستار ہی متحدہ کے لیڈر رہیں گے۔ ارشد وہرہ کا تبادلہ بھی اسی نئی صف بندی کا حصہ ہے، جو قوتیں کراچی اور حیدرآباد میں قومی سوچ پروان نہیں چڑھنے دینا چاہتیں وہ الطاف حسین کو غدار قرار دیے جانے اور متحدہ قومی موومنٹ کے ٹکڑے ہوجانے سے پریشان تھیں یا اپنی مرضی کی لسانی اور علاقائی قوت کو آگے لانا چاہتی تھیں وہی نئی صف بندی کررہی ہیں۔ اگر الطاف حسین کا سحر ٹوٹ گیا تو عوام یا تو روایتی پارٹیوں کی طرف جائیں گے یا نئی پارٹیوں کی طرف، اس لیے اس کا راستہ روکنے کی خاطر پسندیدہ پارٹی کو مضبوط کیا جارہاہے۔ اگر بلدیہ کراچی میں میئر کے خلاف عدم اعتماد کی کوئی تحریک آجائے تو یہ بھی کوئی انہونی نہیں ہوگی کیونکہ یہ قوتیں کراچی میں سب کو پاک صاف پارٹی میں لانا چاہتی ہیں۔ 2018 کے انتخابات سے قبل نئی صف بندی ہوجائے گی یا ممکن ہے آدھی صف بندی ہوجائے لیکن یہ اشارہ ہے کہ پی ایس پی ان قوتوں کی نمائندہ پارٹی ہے۔ اس کے لیے قانون اندھا ہے۔ 28سال ’’را‘‘ کا ایجنٹ ہونے کا اعتراف بھی بے کار ہے جب کہ شبہ کی بنیاد پر اس شہر کے درجنوں نوجوان لاپتا ہیں۔ دوسری طرف ڈاکٹر فاروق ستار کی جانب سے یہ تاثر دیا گیا ہے کہ ارشد وہرہ منی لانڈرنگ کیس میں تحفظ چاہتے تھے جب کہ ہمارا فیصلہ ہے کہ جرائم میں ملوث لوگوں کو تحفظ نہیں دیں گے۔ اگر وہ درست کہہ رہے ہیں تو پھر بات بڑی اہمیت اختیار کر جائے گی کیونکہ الطاف حسین کی ایم کیو ایم ہو، حقیقی ہو، پی ایس پی ہو یا کوئی اور گروپ جرائم میں ملوث لوگوں کو ہمیشہ ان ہی گروپوں میں تحفظ ملا ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہ ہوگا کہ ملکی اداروں نے اس پارٹی کو تخلیق ہی اس لیے کیا تھا کہ جرائم میں ملوث لوگوں کو اس میں شامل کیا جائے اور ان کو دباؤ میں رکھ کر مزید جرائم کروائے جائیں۔ جو لوگ بظاہر پاک صاف ہوکر پاک صاف پارٹی میں جارہے ہیں کیا وہ جرائم سے پاک ہیں۔ اور ڈاکٹر فاروق ستار خود اپنے بارے میں کیا کہیں گے۔ ان کے خلاف بھی درجنوں مقدمات ہیں۔ عدالت تو ان کی گرفتاری کے احکامات دیتی ہے اور پولیس کو وہ ملتے ہی نہیں یہ کھیل نئے انتخابات کے اعلان تک چلتا رہے گا۔ فی الحال ارشد وہرہ کے کھیل کو دیکھیں۔ میئر کراچی خود درجنوں مقدمات میں ملوث اور مطلوب ہیں۔ فاروق ستار صاحب کے دائیں بائیں اور نیچے ایک قطار ہے جس میں جرائم میں ملوث لوگ شامل ہیں تو پھر ان کے لیے کیا فرماتے ہیں فاروق ستار صاحب! کراچی کے حوالے سے جو سازشیں پہلے ہوتی رہی ہیں حالیہ تبدیلیاں بھی ان ہی کا حصہ ہیں۔ طاقت ور ادارے اور ایجنسیاں کراچی کی حقیقی قیادت کو آگے آنے سے روکنے کے لیے یہ ہتھکنڈے اختیار کرتی ہیں۔ ارشد وہرہ کی پی ایس پی میں شمولیت کی خبر کے ساتھ یہ خبر بھی سامنے آئی ہے کہ وفاق نے بلدیہ کراچی کو 20 ارب روپے کی ادائیگی روک دی ہے۔ اس کا سبب تو نہیں بتایاگیا لیکن صاف ظاہر ہے کہ اب یہ رقم اسی وقت ملے گی جب مطلوبہ لوگ بلدیہ کے کرتا دھرتا بن جائیں گے۔ پھر یہی بلدیہ با اختیار بن جائے گی۔ سارا اختیار تو پیسوں ہیں میں ہے اور اطلاعات یہ ہیں خہ ارشد وہرہ کو پیسوں کے معاملات سے الگ رکھا جاتا تھا۔ بہر حال ان کی یہ بات صحیح ہے کہ کم وسائل کے باوجود شہر کے لیے بہت کچھ کیا جاسکتا تھا۔