این ٹی ایس کا نظام ہی مشتبہ ہے

388

بالآخر نیب نے نیشنل ٹیسٹنگ سروس المعروف این ٹی ایس کے دفتر پر چھاپا مار کر سربراہ سمیت 4 افسران کو گرفتار کرلیا ہے۔ چیئرمین نے طلبہ کی شکایت پر یہ کارروائی کرتے ہوئے ڈائریکٹر اور ایڈمن انچارج سمیت 5 افراد کو گرفتار کیا ہے اور ریکارڈ قبضے میں لے لیا ہے چیئرمین نیب نے بظاہر یہ کارروائی طلبہ کی شکایت پر کی ہے لیکن ایسا محسوس ہوتا ہے کہ چونکہ چیئرمین نئے آئے ہیں اور ان کے تقرر پر سیاسی حلقوں کی جانب سے اعتراضات بھی کیے گئے تھے اس لیے یہ بھی ممکن ہے کہ انہوں نے این ٹی ایس جیسے معاملے پر اس لیے ہاتھ ڈالا ہو تاکہ ان کی ساکھ بہتر ہوسکے۔ لیکن اب چونکہ این ٹی ایس کے خلاف شکایات کے انبار بھی بہت بڑھ چکے ہیں لہٰذا نیب کے لیے بھی یہ امتحان سے کم نہیں ہوگا جب سے میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں داخلوں کے لیے انٹری ٹیسٹ اور پھر اس نظام کو این ٹی ایس کے ذریعے چلانے کا فیصلہ ہوا ہے اس وقت سے با صلاحیت اور اہل طلبہ شاکی ہیں کہ ان کی محنت ضائع کردی جاتی ہے۔ جب یہ نظام شروع کیا گیا تھا اسی وقت یہ اعتراض کیا گیا تھا کہ داخلوں کے لیے 12 سال جانچنے کے نظام کے بعد نئے سرے سے جانچنے کی کیا ضرورت ۔ اس نظام کے نتیجے میں 8 ویں سے 12 ویں تک اگر طلبہ 80 فی صد سے زیادہ نمبر لاتے ہوں اور این ٹی ایس کے ٹیسٹ میں 67یا70 فی صد نمبر لائیں تو ان کو داخلہ نہیں ملے گا گویا 8 ویں سے 12 ویں تک امتحان لا حاصل ہیں۔ اس کے علاوہ این ٹی ایس کی تیاری کے نام پر کوچنگ سینٹرز کی چاندی ہوگئی اور فی طالب علم 50 ہزار سے ایک لاکھ روپے تک اخراجات ہوتے ہیں۔ کوچنگ سینٹر کا کم سے کم خرچہ صرف فیس کا 40 سے 50 ہزار ہوتا ہے۔ آنا جانا اور کھانا پینا اس کے علاوہ۔ اگر پبلک ٹرانسپورٹ سے آمد و رفت ہو تو مزید اخراجات ہوتے ہیں۔ اسی طرح ہر کالج کے ٹیسٹ کے لیے الگ الگ فیس لی جاتی ہے۔ ایک ہی فیس میں بھی ٹیسٹ لیا جاسکتا تھا جیسا کہ پنجاب میں ہوتا ہے لیکن سوال یہ ہے کہ این ٹی ایس کا نظام کیوں اختیار کیا گیا کیا۔ 12 سال تک جانچنے کا نظام ناکام ہوگیا ہے؟ دوسرے یہ کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ این ٹی ایس کا سربراہ تبدیل کرکے نئے سربراہ کو مزید لوٹ مار کرنے کے اختیارات کے ساتھ بٹھادیا جائے کیونکہ حصے دار بھی تو بڑھ گئے ہیں۔ ہماری رائے میں چھاپے پر اکتفا نہ کیا جائے بلکہ این ٹی ایس کے نظام ہی کو لپیٹ دیا جائے۔