ملزم کی ناک کے لیے خطرناک اسپرنگ

1064

آج بہت پرانی یادوں میں سے ایک یاد دِل میں در آئی۔ جی چاہا کہ اُس میں آپ کو بھی شریک کر لیا جائے۔ ہوا یوں کہ اُس روز شفیع نقی جامعی کو بی بی سی ٹیلی وژن کی اُردو سروس میں سخن سرا دیکھا تو دل دھک سے رہ گیا۔ کیا یہ وہی گبھرو جوان ’شفیع نقی جامعی‘ ہے، جسے ہم نے جامعہ کراچی میں دیکھا تھا؟ اور جس سے بہت جونیئر ہونے کے باوجود ہمارا اُس سے ایک طرح سے ’یارانہ‘ تھا؟ یہ صاحب ’جامعی‘ یوں کہے جاتے ہیں کہ ڈاکٹر محمود حسین والے ’جامعہ ملّیہ‘ سے فارغ التحصیل ہیں۔ جب شفیع نے جامعہ ملّیہ کالج سے جامعہ کراچی میں قدم رکھا تو اتفاق دیکھیے کہ ڈاکٹر محمود حسین ہی شیخ الجامعہ تھے۔ شفیع نقی کو ہماری نظر میں سب سے بڑا اعزاز یہ حاصل تھا کہ وہ ڈاکٹر محمود حسین کے چہیتے اور لائق شاگرد تھے۔ ڈاکٹر صاحب بھی شفیع کو کسی لاڈلے بیٹے کی طرح چاہتے تھے۔ شفیع نقی جامعی ابتدائی جماعتوں سے لے کر جامعہ کراچی سے فارغ التحصیل ہونے تک اوّل بدرجہ اوّل ہی پاس ہوتے رہے۔ بعد کو کیمبرج میں بھی تعلیم حاصل کی۔ شفیع نے فن خطابت میں وہ کمال پیدا کیا کہ شہر بھر ہی میں نہیں ملک بھر میں دھوم مچادی۔ بحیثیت مقرر وہ اپنے ساتھی طالب علموں ہی میں نہیں اپنے اساتذہ میں بھی مقبول تھے۔ ہم نے اُن کے ’انتخابی جلسوں‘ میں بھی دیکھا کہ اساتذۂ کرام دور کھڑے ہوکر شفیع کے خطاب سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ شفیع نقی کا دور یونین کے سنہری ادوار میں شمار کیا جاتا ہے۔ انھی کے زمانے میں مولاناسید ابوالاعلیٰ مودودیؒ بھی جامعہ میں مدعو کیے گئے۔
اُس دور کی دلچسپ سرگرمیوں میں سے ’ادبی عدالت‘ نہایت دلچسپ سرگرمی تھی۔ ایک ادبی عدالت میں ابن صفی ملزموں کے کٹہرے میں کھڑے تھے۔ وہ پاکستان میں جاسوسی ادب کے بے تاج بادشاہ تھے۔ اپنی طرز کے آپ ہی موجد اور آپ ہی خاتم۔ ’ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا‘۔ مگر بات بن نہ سکی۔ متعدد لوگوں نے اُن کا چربہ کرنے کی کوشش کی۔ ابن صفی نئی نسل میں بہت مقبول تھے۔ اُن پر مقدمہ چلا تو عدالت (سماعت گاہِ فنون) کھچاکھچ بھری ہوئی تھی۔ حتیٰ کہ نشستوں اور اسٹیج کے درمیان جو ذرا سی خالی جگہ ہوتی ہے ، لڑکے لڑکیاں وہاں بھی گاؤن بچھا کر بیٹھ گئے تھے۔ ابن صفی پر جو الزامات عائد کیے گئے اُن کا خلاصہ یہ تھا:
’’ملزم نے محض پیٹ کی روٹی کی خاطر غیر حقیقی اور غیر سائنسی واقعات لکھ لکھ کر نئی نسل کو گمراہ کیا ہے۔ انہیں عملی دُنیا سے بیگانہ کرکے محض تصوراتی دُنیا میں رہنا سکھا دیا ہے‘‘۔
عدالت سے جس سزا کی استدعا کی گئی تھی وہ یہ تھی کہ:
’’ملزم کو دو، دو برس کے لیے شعبۂ طبیعات، شعبۂ کیمیا اور شعبۂ حیوانیات میں داخل کیا جائے‘‘ (ظاہر ہے، طالب علموں کی نظر میں اس سے بڑی سزا اور کیا ہو سکتی تھی؟)
>اس ادبی عدالت کے جج خوش قسمتی سے ایک حاضر ڈیوٹی جج، جسٹس قدیرالدین احمد تھے جو بڑا عمدہ ادبی ذوق رکھتے تھے۔ شفیع نقی جامعی حسبِ معمول وکیل استغاثہ تھے، اور ملزم کی طرف سے وکیلِ صفائی تھے زاہد حسین بخاری۔ شفیع اُس ادبی عدالت میں بڑی تیاریوں کے ساتھ آئے تھے۔ وہ اپنے ساتھ ابن صفی کے چالیس پچاس ناول ڈھو کر لے آئے تھے، جن کا ڈھیر عدالت میں اپنے روسٹرم کے ساتھ لگا لیا تھا۔ ہر ناول میں نشان کے طور پر کاغذ کی پرچیاں لگی ہوئی تھیں۔ استغاثہ کی طرف سے ’ملزم‘ پر لگائے ہوئے الزامات میں سے ہر الزام پر دلائل پیش کرتے ہوئے، شواہد کے طور پر یہ نشان زدہ ناول صفحہ کھول کر عدالت کے حضور پیش کر دیے جاتے، جن پر جسٹس قدیر الدین احمد ایک نظر ڈال کراپنے پاس رکھ لیتے۔ آخر آخر تک یہ سارا ڈھیر عدالت کی میز پر منتقل ہوگیا۔ ایک موقع پر شفیع نے ایک ناول پیش کرتے ہوئے عدالت سے کہا:
’’می لارڈ! ملزم نے اِس ناول کے فلاں فلاں صفحات پر تحریر کیا ہے کہ اس کے ناول کا ہیرو عمران اپنی ناک میں اسپرنگ لگا کر اپنا حلیہ تبدیل کر لیتا ہے۔ میں عدالت میں کچھ اسپرنگ لے کر آیا ہوں، معزز عدالت سے درخواست ہے کہ وہ ملزم کو حکم دے کہ ان اسپرنگز کو اپنی ناک میں لگا کر، حلیہ تبدیل کرکے دکھائے‘‘۔
شفیع نے اپنے کوٹ کی دائیں جیب سے کچھ ایسے اسپرنگ نکالے جو اُس زمانے میں (فوم کی جگہ) صوفوں میں لگائے جاتے تھے۔ سائز میں یہ اسپرنگ بہت بڑے بڑے ہوتے تھے۔ پورا آرٹس آڈیٹوریم قہقہوں سے گونج اٹھا اور تالیوں سے تو اتنی دیر تک گونجتا رہا کہ عدالت کو ’’آرڈر آرڈر‘‘ کہہ کر ڈسپلن بحال کرانا پڑا۔ ملزم نے اپنے کٹہرے میں بیٹھے بیٹھے وہیں سے کہا:
’’یہ تو آپ اونٹ کی ناک کے قابل اسپرنگ اُٹھا لائے‘‘۔
یہ سنتے ہی شفیع نے اپنے کوٹ کی بائیں جیب میں ہاتھ ڈالا اور کہا:
’’می لارڈ! مجھے ملزم کی اِس ذہنیت کا پہلے سے اندازہ تھا، لہٰذا میں چھوٹے اسپرنگ بھی لایا ہوں‘‘۔
اب شفیع نے بال پوائنٹ پین سے نکالے ہوئے چھوٹے چھوٹے اسپرنگز بھی میز پر ڈھیر کر دیے۔ لوگ تجسس میں تھے کہ دیکھیے کیا ہوتا ہے؟ مگر ملزم کو اس مصیبت سے معزز عدالت نے نکالا:
’’عدالت پہلے ان اسپرنگز کو کیمیائی تجزیے کے لیے لیبارٹری بھجوائے گی، جب ثابت ہوجائے گا کہ ان میں ملزم کی ناک کو نقصان پہنچانے والا کوئی خطرناک کیمیکل نہیں لگایا گیا ہے، تب ملزم عملی مظاہرہ کرکے دکھائے گا‘‘۔
جسٹس قدیرالدین احمد نے سارے اسپرنگ بٹور کر اپنی طرف کرلیے۔ اسی دوران میں جامعہ کے ایک خبطی طالب علم کو ابن صفی کے ’ناول زدہ نوجوان‘ کے طور پر پیش کیا گیا، جس پر دلچسپ جرح بھی گی گئی۔ اس قسم کے خبطی لڑکے ہر دور میں اور ہر تعلیمی ادارے میں مل جاتے ہیں۔ شفیع نقی نے ایک اعتراض یہ بھی پیش کیا:
’’جب ہم اسکول کے زمانے میں یہ ناول پڑھتے تھے تو ابن صفی کے ناولوں کا ہیرو عمران اُس وقت بھی جوان تھا۔ جب ہم کالج میں پہنچے تب بھی وہ جوان رہا۔ اب ہم یونیورسٹی سے فارغ ہوکر جارہے ہیں مگر عمران ہے کہ اب بھی جوان ہے۔ ہمیں یقین ہے کہ ہم بوڑھے ہو جائیں گے، مگر ابن صفی کا عمران ویسے کا ویسا ہی تنومند، توانا، جوان بلکہ نوجوان ہی رہے گا۔ می لارڈ! میں معزز عدالت کے توسط سے ملزم سے پوچھنا چاہتا ہوں کہ آخر عمران بوڑھا کیوں نہیں ہوتا؟‘‘
اس پر ابن صفی کے منہ سے نکل گیا: ’’اگر عمران بوڑھا ہوگیا تو مجھے کما کر کون کھلائے گا؟‘‘
یہ جواب سن کر شفیع نے مارے خوشی کے طوفان کھڑا کر دیا: ’’نوٹ کیا جائے، می لارڈ! نوٹ کیا جائے ملزم نے اعترافِ جرم کر لیا ہے‘‘۔
آخر میں جسٹس قدیر الدین احمد نے ’جیوری‘ سے مشورہ کرکے، جس میں شیخ الجامعہ ڈاکٹر احسان رشید اور ڈاکٹر فرمان فتح پوری وغیرہ شامل تھے، ملزم کو ’باعزت بری‘ کرنے کا فیصلہ سنایا۔ اُنہوں نے اپنے فیصلے میں جو باتیں کہیں وہ بڑی دلچسپ تھیں۔ مگر اس وقت صرف دونکات یاد رہ گئے ہیں۔ ’ملزم کے اعترافِ جرم‘ کے حوالے سے اُنہوں نے کہا:
’’بعض اوقات حالات کا جبر بھی ملزم کو ’مجرم‘ نہ ہونے کے باوجود اعترافِ جرم پر مجبور کر دیتا ہے‘‘۔
اس ضمن میں اُنہوں نے اپنی حقیقی عدالت کا ایک واقعہ سنایا: ’’دو جڑواں بھائیوں میں سے ایک نے قتل کیا اور دوسرا پکڑا گیا۔ عینی شاہدین نے اُسی کو مجرم کی حیثیت سے شناخت کرلیا۔ مجبوراً اُس نے اعترافِ جرم کرلیا۔ اُسے پھانسی کی سزا سنائی جانے والی تھی کہ اصل قاتل نے عدالت میں حاضر ہوکر حقیقت واضح کی اور اپنے بھائی کو پھانسی سے بچالیا‘‘۔
’غیر سائنسی اور غیر حقیقی واقعات‘ کے الزام سے متعلق بھی اُنہوں نے یہ فیصلہ دے کر ملزم کو ’باعزت بری‘ کیا کہ:
’’یہ ادبی عدالت ہے۔ اس عدالت سے سزا صرف ادب کے قوانین کی خلاف ورزی پر دی جاسکتی ہے۔ سائنس کے قوانین کی خلاف ورزی پر نہیں۔ اگر آپ نباتیات کے کسی طالب علم یا استاد سے یہ سوال کریں گے کہ گلاب کا پھول سرخ کیوں ہوتا ہے؟ تو وہ کہے گا کہ گلاب کا سرخ پھول دیگر تمام رنگوں کو اپنے اندر جذب کرلیتا ہے اور سرخ رنگ کو منعکس کر دیتا ہے، اس وجہ سے ہمیں سرخ نظر آتا ہے۔ لیکن یہی سوال دُنیائے شعر وسخن کے تاج دار میر تقی میرؔ سے کریں گے تو وہ اس کا جواب یوں دیں گے:
برابری کا تری گُل نے جب خیال کیا
صبا نے مار طمانچے منہ اُس کا لال کیا‘‘
اب ایسے لوگ کہاں؟ اور ایسی محفلیں کہاں؟