پورے ایک سو سال پہلے، برطانوی سامراج کے وزیر خارجہ آرتھر بیلفور نے برطانیہ کے یہودیوں کے سربراہ لارڈ والٹر رائس چائلڈ کے نام 67الفاظ پر مشتمل مختصر خط لکھا تھا جو انسانی تاریخ کا انتہائی سفاک اعلانیہ ثابت ہوا جس سے اب بھی خونِ فلسطین ٹپک رہا ہے۔
2 نومبر 1917کو آرتھر بیلفور نے اپنے اس خط میں یقین دلایا تھا کہ برطانوی حکومت فلسطین میں یہودیوں کے ’’قومی وطن‘‘ کے قیام کی تجویز کی حمایت کرتی ہے اور اس مقصد کے حصول کے لیے ہر ممکن مدد دے گی۔ آرتھر بیلفور کی طرف سے یہ یقین دہانی یکسر غیر قانونی تھی کیوں کہ برطانوی حکومت کو فلسطین کے مستقبل کے بارے میں کوئی فیصلہ کرنے کا اختیار نہیں تھا۔ پہلی عالم گیر جنگ کے فاتحوں، برطانیہ، فرانس اور روس کے درمیان یہ طے پایا تھا کہ شکست خوردہ، جرمنی، آسٹریا، ہنگری، بلغاریہ اور سلطنت عثمانیہ کے علاقے فاتحین میں پانٹ کر اُس وقت تک ان کی نگرانی میں دے دیے جائیں گے جب تک انہیں آزادی نہیں دے دی جاتی۔ فلسطین کا مسئلہ عجیب و غریب نوعیت کا رہا۔ برطانیہ نے جس کی نگرانی میں فلسطین دیا گیا، فلسطین کو آزادی دینے کے بجائے اسے یہودیوں کا قومی وطن قرار دے دیا جب کہ فلسطین میں یہودیوں کی تعداد دس فی صد سے بھی کم تھی۔ پھر آرتھر بیلفور نے فلسطین میں یہودیوں کے قومی وطن کے قیام کا وعدہ ان یہودیوں سے کیا جو ارض فلسطین پر آباد نہیں تھے۔
یہ ستم ظریفی ہے یا برطانوی سامراج کی چال کہ بیلفور اعلانیہ سے دو سال قبل، برطانیہ نے سلطنت عثمانیہ کے خلاف عربوں کو بغاوت پر اکسایا تھا تاکہ پہلی عالم گیر جنگ میں سلطنت عثمانیہ کو شکست ہو اور اس کی سلطنت کے علاقے جن میں فلسطین بھی شامل تھا، برطانیہ کے قبضہ میں آجائیں۔ اس وقت برطانیہ نے عربوں سے وعدہ کیا تھا کہ فلسطین کو آزادی دی جائے گی اور عرب ممالک کی کنفیڈریشن کے قیام میں مدد دی جائے گی۔ عربوں کی اس بغاوت میں فلسطینی پیش پیش تھے اور سلطنت عثمانیہ کے خلاف مسلح جدو جہد میں سیکڑوں فلسطینیوں نے اپنی جانیں قربان کیں، لیکن برطانیہ نے ان کے ساتھ کھلم کھلا غداری کی اور بیلفور اعلانیہ کے تحت فلسطینیوں کے وطن کو صہیونیوں کے حوالہ کردیا۔
اب تاریخی حقائق سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ بیلفور اعلانیہ کا اصل مقصد برطانیہ کا مشرقی یورپ کے یہودیوں کے سیلاب سے اپنے ساحل کو بچانا تھا۔ اسی مسئلہ کے حل کے لیے 1902 میں جب آرتھر بیلفور برطانیہ کے وزیر اعظم تھے، لندن میں رائل کمیشن نے مشرقی یورپ سے امیگریشن کے سیلاب سے پیدا شدہ صورت حال پر غور کیا تھا۔ صہیونی تحریک کے سربراہ تھیو ڈور ہرزل نے خاص طور پر اس کمیشن کی سماعت میں حصہ لیا تھا۔ اسی دوران یہودیوں کے مسئلہ کے حل کے لیے یوگنڈا میں یہودی کالونی کے قیام کی تجویز پیش کی گئی تھی۔ صہیونی تحریک نے پہلے تو یہ تجویز منظور کر لی تھی لیکن بعد میں اسے مسترد کردیا تھا۔ حال میں جو دستایزات سامنے آئی ہیں ان سے پتا چلتا ہے کہ یہودیوں کی کالونی کے قیام کے لیے یوگنڈا کے بجائے کینیا میں ساڑھے پندرہ ہزار کلو میٹر کا رقبہ مخصوص کیا گیا تھا۔
برطانیہ کے رائل کمیشن کے اجلاس کے بعد 1905میں برطانیہ میں امیگریشن کا قانون منظور کیا گیا جس کے تحت مشرقی یورپ سے امیگریشن پر پابندیاں عاید کر دی گئیں گو اس وقت یہ واضح نہیں کیا گیا کہ یہ پابندیاں یہودیوں کے داخلے کو روکنے کے لیے ہے لیکن عملی طور پر ان پابندیوں کا یہی مقصد تھا۔ بہر حال فلسطین میں مشرقی یورپ سے یہودیوں کی فلسطین میں بڑے پیمانہ پر اسمگلنگ کا سلسلہ جاری رہا اور اس دوران صہیونی دہشت گردوں نے دو مکھی جنگ کی آگ بھڑکا دی۔ ایک طرف فلسطینیوں کو ان کی زمینوں پر قبضہ کرکے انہیں ان کے مکانات سے بے دخل کرنا شروع کر دیا اور انہیں ارض فلسطین سے باہر نکالنے کے لیے ان پر منظم حملے شروع کر دیے۔ دوسری طرف صہیونی دہشت گرد دستوں نے برطانوی انتظامیہ کے خلاف دہشت گرد حملے شروع کر دیے، جن میں صہیونی دہشت گرد تنظیم ارگن پیش پیش تھی۔ مناخن بیگن جو بعد میں اسرائیل کے وزیر اعظم بنے، ارگن کے اہم کمانڈر تھے۔ یرو شلم میں کنگ ڈیوڈ ہوٹل کو بم سے اڑانے کے پیچھے اسی دہشت گرد تنظیم کا ہاتھ تھا۔ برطانوی انتظامیہ ارگن کے سامنے تو بے بس تھی لیکن جب 1936میں فلسطینیوں نے ارگن کی مزاحمت کی اور اپنے حقوق کے لیے مسلح جدوجہد شروع کی تو برطانیہ نے انہیں تین سال کے اندر اندر کچل کر رکھ دیا۔ اس زمانے میں ایسا دکھائی دیتا تھا کہ برطانوی فوج اور ارگن مل کر فلسطینیوں کی مزاحمت کا قلع قمع کرنے پر تلی ہوئی ہے اور بڑے پیمانے پر فلسطینیوں کو ان کی زمینوں اور ان کے مکانات سے بے دخل کر رہی ہے۔ اُس دوران آٹھ لاکھ فلسطینیوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کر کے ارض فلسطین سے باہر نکال دیا گیا۔ ان میں سے بیش تر فلسطینیوں نے اردن اور لبنان میں پناہ لی اور نصف صدی سے زیادہ عرصہ سے یہ پناہ گزیں کیمپوں میں زندگی گزار رہے ہیں۔
1946 میں جب برطانیہ نے فلسطین پر اپنی نگرانی ختم کرنے کا اعلان کیا تو اس وقت تک یہودیوں نے فلسطین میں اپنی فوج منظم کر لی تھی جسے برطانوی فوج کی مکمل مدد اور تعاون حاصل تھا۔ آرتھر بیلفور نے 2 نومبر 1917میں اپنے اعلانیہ میں فلسطین میں یہودیوں کے وطن کے قیام میں برطانیہ کی بھر پور مدد کا جو وعدہ کیا تھا اس پر برطانیہ پوری طرح سے عمل کرتا رہا اور 1947 سے 1949 تک جب اسرائیل کے قیام کے لیے یہودی مسلح دستے بر سر پیکار تھے تو اس وقت انہیں برطانوی فوج کی مدد اور اعانت حاصل تھی اور بین الاقوامی سطح پر امریکا کے صدر ہیری ٹرومین اور سویت یونین کے آمر جوزف اسٹالن کی عملی حمایت حاصل تھی۔
یہ عجیب و غریب حقیقت ہے کہ برطانیہ پچھلے ستر برس سے برابر اپنے ہی بیلفور اعلانیہ کی خلاف ورزی کر رہا ہے۔ بیلفور اعلانیہ میں کہا گیا ہے کہ کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جائے گا کہ جس سے فلسطین میں غیر یہودی آبادی اپنی شہری اور مذہبی آزادی سے محروم ہو۔ اسرائیل اس وقت جس بڑے پیمانہ پر فلسطینیوں کی زمینوں پر یہودی بستیاں تعمیر کر رہا ہے اور فلسطین کے علاقوں پر زبردستی قبضہ کر رہا ہے اس پر برطانیہ بالکل خاموش ہے۔ برطانیہ تو اس وقت بھی خاموش تھا جب اسرائیل محصور غزہ پر بہیمانہ حملے کر رہا تھا۔ بلکہ اس دوران اسرائیل کو اسلحہ فراہم کر رہا تھا۔
یہی وجہ ہے کہ پچھلے دنوں برطانوی وزیر اعظم ٹریسا مے نے پارلیمنٹ میں کہا تھا کہ ہمیں فخر ہے کہ ہم نے اسرائیل کی مملکت کے قیام میں اہم رول ادا کیا تھا اور ہم ہمیشہ بیلفور اعلانیہ کی سال گرہ بڑے فخر و افتخار سے منائیں گے۔ بیلفور اعلانیہ کے صد سالہ جشن منانے کے لیے خاص دعوت میں شرکت کے لیے اسرائیل کے وزیر اعظم نیتن یاہو کو مدعو کیا گیا ہے۔ لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن نے جو ہمیشہ فلسطینیوں کے حقوق کے لیے آوازبلند کرتے رہے ہیں، اس جشن میں شرکت کرنے سے انکار کردیا ہے۔ البتہ لیبر پارٹی نے وزیر اعظم ٹریسا مے سے مطالبہ کیا ہے کہ اس موقعے پر برطانیہ، فلسطین کی مملکت کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کرے۔ لیکن اس کا کوئی امکان نہیں ہے۔ اس سے زیادہ ظالمانہ رویہ کیا ہوسکتا ہے کہ برطانوی حکومت اس اعلانیہ کا جشن منائے جس کے نتیجے میں ایک فلسطینی قوم اپنے وطن سے محروم ہوگئی اور اس کی سر زمین کو اس سے چھین کر غیر ملکیوں کے حوالہ کر دیا گیا، جس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی بے گھر ہو گئے اور ہزاروں اپنی جانیں گنوا بیٹھے اور لاکھوں فلسطینی غیر ممالک میں پناہ گزیں کیمپوں میں زندگی بس کر رہے ہیں اور لاکھوں فلسطینی خود اپنی سرزمین پر اسرائیلی تسلط میں غلاموں ایسی زندگی گزار رہے ہیں۔ بیلفور اعلانیہ کے نتیجہ میں نہ صرف فلسطین میں بلکہ پورے مشرق وسطی میں جو آگ بھڑکی ہوئی ہے وہ برابر دہک رہی ہے۔