اسلام آباد (خبرایجنسیاں+ مانیٹرنگ ڈیسک ) قومی اسمبلی کی پارلیمانی کمیٹی برائے احتساب قانون نے ججوں اور جرنیلوں کو مجوزہ احتسابی قانون کے دائرے میں نہ لانے کا فیصلہ کرلیا۔پاکستان پیپلزپارٹی ایک قانون کے تحت تمام اداروں کے بلاتفریق احتساب کی تجویز سے دستبردار ہوگئی ہے۔بدھ کو وفاقی وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں نیب قوانین کے حوالے سے پارلیمانی کمیٹی کا 16واں اجلاس ہوا۔ جس میں جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے نئے احتساب کمیشن کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے نیب کوبرقرار رکھنے اور اس کی کارکردگی بہتربنانے پر اتفاق کیا۔ جماعت اسلامی کے صاحبزادہ طارق اللہ نے اس حوالے سے ترمیم جمع کرادی ۔ ان کا کہنا تھا کہ نیب قانون میں ہی بہتری لائی جائے اور بلاتفریق احتساب کو یقینی بنایا جائے، نیا بل نہیں آنا چاہیے‘ ہم اس نئے قانون کے خلاف ہیں۔دوران اجلاس تجاویز نہ ماننے پر تحریک انصاف نے واک آؤٹ کیا۔شیریں مزاری نے کہا کہ احتساب کمیشن کے سربراہ کے تقرر میں اپوزیشن اور وزیر اعظم میں مک مکا نہیں ہونا چاہیے،حکومت قومی احتساب کمیشن کے بل میں ہماری تجاویز کو شامل کرنے کو تیار نہیں تواجلاس میں کیوں بیٹھیں ؟ انہوں نے کہا کہ تحریک انصاف احتساب کمیشن کے لیے اپنی ترامیم پارلیمنٹ میں لائے گی۔ وزیر قانون نے ارکان کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ 1999ء کا احتساب قانون سیاہ قانون ہے، احتساب کے ساتھ انصاف بھی چاہتے ہیں۔قانون کی زد میں آنے والے افراد کے حقوق کا تحفظ بھی ضروری ہے ۔ زاہد حامد نے کہا کہ نیب قوانین زیادہ سخت ہونے کی وجہ سے نیب ختم کرکے اس کی جگہ احتساب کمیشن بنایا جارہا ہے جس کے لیے تمام بڑی سیاسی جماعتوں کی حمایت حاصل ہے جب کہ جماعت اسلامی اور تحریک انصاف نے مجوزہ کمیشن کی مخالفت کی ہے۔ انہوں نے یہ بھی کہا کہ نیب مقدمات اور تحقیقات ختم نہیں کی جا رہیں،نئے قانون کے تحت احتساب عدالتیں برقرار رہیں گی، کرپشن کے تمام ریفرنسز اور تفتیش نئے احتساب کمیشن کے سپرد کردی جائیں گی۔میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر قانون نے کہا کہ تمام سیاسی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔