سندھ کی سیاست کے نئے رنگ ، ڈھنگ

499

کراچی سمیت پورے سندھ کی سیاست کروٹیں بدل رہی ہے۔ اندرون سندھ حکمران پیپلز پارٹی کے خلاف نئے محاذ بن رہے ہیں تاہم اس محاذ میں شامل بیشتر جماعتیں انتخابی سیاست میں ناکام ہی رہی ہیں حتیٰ کہ بڑے لیڈر جی ایم سید بھی کبھی کامیاب نہیں ہو سکے۔ فنکشنل مسلم لیگ بھی کسی نمایاں کارکرگی کا مظاہرہ نہ کر سکی البتہ چند ارکان کو اسمبلی میں پہنچانے میں ضرور کامیاب رہی ہے۔ قوم پرست کہلانے والی جماعتیں بھی انتخابی سیاست میں ناکام رہی ہیں اور جلسے جلوس تک محدود رہی ہیں۔ اسی اثنا میں عمران خان نے بھی سندھ میں کچھ جلسے کر ڈالے ہیں لیکن ان کی سیاست اپنے مخالفین کو چور ، ڈاکو ، لیٹرا کہنے تک محدود ہے جس کو اب کوئی سنجیدگی سے نہیں لیتا۔اس کا امکان بہت کم ہے کہ پاکستان تحریک انصاف سندھ میں پیپلز پارٹی کوئی بڑا دھچکا پہنچانے میں کامیاب رہے گی۔ اس طرح مرکز میں حکمران مسلم لیگ ن کا معاملہ ہے کہ سندھ میں اس کے نقوش قدم بھی دھندلے دھندلے ہیں۔ میاں نواز شریف نے بطور وزیر اعظم سندھ پر وہ توجہ نہیں دی جو قدم جمانے کے لیے ضروری تھی۔بس کبھی کبھار کراچی کا چکر لگالیا اور ہر بار یہ اعتراف کیا کہ انہیں زیادہ توجہ دینی چاہیے تھی۔ ایسا لگا کہ غیر تحریر ی طور پر یہ طے ہو گیا تھا کہ سندھ پیپلز پارٹی کا اور مرکز و پنجاب ن لیگ کا۔ دوسری طرف سندھ کا دار الحکومت کراچی ایک عرصے تک ایم کیو ایم کے قبضے میں رہا اور پیپلز پارٹی و ن لیگ نے بھی اس کو ایک حقیقت جان کر تسلیم کرلیا اور قومی جماعتیں پیچھے ہٹ گئیں۔ پیپلز پارٹی نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی ایم کیو ایم کو سینے سے لگائے رکھا۔ آصف علی زرداری نے نائن زیرو پر حاضری دی حالانکہ ایم کیو ایم کے بانی غدار الطاف حسین کے خیالات22اگست 2016ء سے پہلے بھی چھپے ہوئے نہیں تھے۔2014ء میں اس غدار نے دہلی میں جو خطاب کیاتھا اور پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی کی تھی وہ سب کے علم میں تھیں۔ لیکن را کے اس ایجنٹ کو ایک آمر جنرل پرویز مشرف کی بھر پور حمایت اور پشت پناہی حاصل تھی جن کا خیال تھا کہ ایم کیو ایم ایک عوامی طاقت ہے جو ان کے ساتھ ہے ۔22اگست2016ء کو الطاف حسین اگر کھل کر اپنی غداری کا اعلان نہ کرتا تو سارے معاملات جوں کے توں چلتے رہتے۔ جب معاملات ہاتھ سے نکلنے لگے تو فاروق ستار نے بھی الطاف حسین سے لاتعلقی کا اعلان کیا مگر پورے احترام کے ساتھ۔ اسی طرح ایک عجیب کردار عامر لیاقت حسین کا ہے جس نے 22اگست کے بعد بھی ٹی وی چینل پر الطاف حسین کی وکالت کی اور یہ دعویٰ کیا کہ گو کہ سب نے چھوڑ دیا مگر وہ اکیلے ہی الطاف کی وکالت کررہے ہیں۔ اور اب کہتے ہیں کہ الطاف حسین پاگل ہوگیا ہے، اس کا کھیل ختم ہوگیا۔ اسی اثنا میں ایم کیو ایم کی تقسیم در تقسیم کا کھیل بھی شروع ہوگیا۔ پہلے ایجنسیوں نے ایم کیو ایم حقیقی یا آفاق گروپ کی تشکیل کی تھی اور رینجرز کی گاڑیوں میں لاکر حقیقی کو ایم کیو ایم کے دفاتر پر قبضہ کرایاگیاتھا۔ لیکن ایجنسیوں کی بھر پور پشت پناہی کے باجود آفاق گروپ لنگڑا گھوڑ اثابت ہوا اور ایجنسیوں کی توقعات پوری نہ ہوسکیں۔ چنانچہ اب پاکستان سرزمین پارٹی کا تجربہ کیاگیا ہے اور اس غبارے میں ہوا بھری جارہی ہے۔ ایم کیو ایم پاکستان کے ارکان اسمبلی ٹوٹے ہوئے تاروں کی طرح مصطفی کمال کی جھولی میں گررہے ہیں اور اب بلدیہ کراچی کے ڈپٹی میئر ارشد وہرہ بھی پی ایس پی کو پیارے ہوگئے۔ ماہرین سیاست کو تجزیہ کرنے کے لیے ایک بہترین موضوع مل سکتا ہے کہ ایم کیو ایم حقیقی کیوں ناکام رہی اور پی ایس پی اب تک کیوں کامیاب جارہی ہے۔ دونوں ہی کی پشت پر مقتدر قوتیں تھیں۔ مصطفیٰ کمال الطاف حسین کے تمام جرائم میں شریک تھے لیکن نئی پارٹی بنانے کے لیے الطاف کو منہ بھر بھر کر گالیاں دیں مگر اس وقت جب الطاف کے جبر کا پھندا ٹوٹ چکا تھا۔ اسی طرح کراچی کے میئر وسیم اختر بھی الطاف کے جرائم میں نہ صرف شریک رہے بلکہ ان کے احکامات کا نفاذ بھی کراتے رہے ہیں۔ اس کے صلے میں انہیں سندھ کا مشیر داخلہ بنایاگیا اور 12مئی 2007ء کا قتل عام کروایاگیا۔ اب وہ بھی معصوم بن رہے ہیں۔اب صورتحال یہ ہے کہ بلدیہ کراچی بے سروں کی فوج بن گئی ہے۔ گزشتہ منگل کوسٹی کونسل کا اجلاس افراتفری کی نذر ہوکرصرف 5منٹ میں نمٹ گیا۔ میئر کراچی چور ہے کے نعرے اور بینر لگ گئے لیکن فاروق ستار اسے ایم کیو ایم پاکستان کی کامیابی قراردیتے ہیں۔ وسیم اختر نے مزے کی بات کی ہے کہ پی ایس پی فکس ڈیپازٹ اکاؤنٹ ہے اور جب ضرورت پڑی وہاں جانے والوں کو مع سود واپس لے آئیں گے۔ دھیان رہے کہ ایم کیو ایم پاکستان بھی تو کسی کا فکس ڈیپازٹ اکاؤنٹ نہیں ہے؟