خواجہ آصف کے اعترافات

318

وزارت پانی و بجلی کی کارکردگی سے مطمئن ہو کر خواجہ آصف کو وزیر خارجہ کا اہم منصف سونپ دیا گیا۔ ویسے تو ان کے پاس وزارت دفاع بھی رہی ہے لیکن اس وزارت میں کسی سویلین کا کوئی گزر نہیں ہے۔ مگر اب خواجہ آصف وزارت خارجہ میں بھی بے بس نظر آتے ہیں۔ گزشتہ بدھ کو انہوں نے سینیٹ میں امریکی وزیر خارجہ کے چند گھنٹے کے دورے کے بارے میں ایوان بالا کو آگاہی دیتے ہوئے بالواسطہ طور پر اعتراف کیا کہ خارجہ پالیسی بھی وزارت خارجہ کے اختیار میں نہیں ۔ انگریزی روزنامہ ڈان کی رپورٹ کے مطابق خواجہ آصف نے کہا کہ خارجہ پالیسی کو مختلف ادارے تشکیل دے رہے ہیں اور کوئی ایک ادارہ خارجہ امور کا ذمے دار نہیں ہے۔ پاکستان میں خارجہ پالیسی کون سے ادارے کے ہاتھ میں ہے، یہ کوئی راز نہیں ہے۔ خارجہ امور بھی فوج کی مرضی سے طے ہوتے ہیں لیکن خواجہ آصف کھل کر یہ بات نہیں کہہ سکتے۔ سیاسی جماعتوں نے ایک عرصے سے شور مچایا ہوا تھا کہ پاکستان میں کوئی وزیر خارجہ ہی نہیں ہے چنانچہ انہیں خاموش کرانے کے لیے خواجہ آصف کو آگے کردیا گیا۔ اور وہ اس حقیقت کا اظہار کررہے ہیں کہ وزارت خارجہ امور خارجہ کی ذمے دار نہیں ہے۔ خواجہ آصف نے امریکا کو مشورہ دیا تھا کہ افغان پالیسی جرنیلوں کے اشارے پر نہ بنائے کیوں کہ افغانستان میں امریکی جنرل ناکام رہے ہیں۔ اس پر سینیٹر فرحت اللہ بابر نے لقمہ دیا کہ پاکستان میں بھی ایسا ہی ہونا چاہیے اور خواجہ آصف نے اس سے اتفاق کیا۔ اب ایک اور اعتراف خواجہ آصف نے گزشتہ جمعرات کو کیا کہ وہ نواز۔ زرداری رابطے کرانے میں ناکام رہے ہیں اور زرداری صاحب ان کا فون ہی وصول نہیں کرتے۔ سوال یہ ہے کہ خواجہ آصف کو یہ رابطے کرانے کی کیا ضرورت پیش آگئی۔ ظاہر ہے کہ ان کی یہ کوشش میاں نواز شریف کے اشارے ہی پر ہوئی ہوگی۔ دوسری طرف آصف زرداری اونچی ہواؤں میں ہیں اور نواز شریف کو گھاس ڈالنے پر تیار نہیں ۔ ان کی پارٹی کے رہنما خورشید شاہ بار بار کہہ رہے ہیں کہ ہم نے پہلے بھی نواز شریف کی حکومت بچائی مگر اب ایسا نہیں کریں گے۔ انہوں نے سوال کیا کہ اس سے پہلے نواز شریف نے آصف زرداری سے ملنے سے کیوں انکار کیا تھا؟ یعنی اب انکار کرنے کی باری آصف زرداری کی ہے۔ خورشید شاہ یہ وضاحت تو کریں کہ نوازشریف کی حکومت زرداری نے کیسے بچائی تھی؟ بہرحال نواز شریف اور آصف زرداری ایک دوسرے کے بارے میں جو کچھ کہہ رہے ہیں اس سے تو خلیج دور ہوتی ہوئی نظر نہیں آتی۔ آصف زرداری کی نظریں اگلی حکومت پر ہیں اور کہہ چکے ہیں کہ اگلا وزیر اعظم بلاول اور صدر وہ خود ہوں گے۔ وہ پنجاب بھی فتح کرنا چاہتے ہیں۔ چنانچہ یہ سب اقتدار کی جنگ ہے۔ خواجہ آصف اب بھی مایوس نہیں ہیں۔ ان کاکہنا ہے کہ زرداری سے ذاتی تعلق تھا لیکن وہ یہ بھی نہیں چاہتے۔ پیپلز پارٹی اور ن لیگ رابطے کرانے میں وہ تو ناکام ہوگئے لیکن دوسرے ذرائع یہ کام کرسکتے ہیں ۔ اسی اثنا میں نواز شریف اور زرداری ایک دوسرے پر کسی کے اشارے پر چلنے کا الزام بھی لگا رہے ہیں۔ نیا این آر او ہوتا نظر نہیں آتا۔ جس میں طے ہوا تھا کہ باری باری پیپلز پارٹی اور ن لیگ حکومت کریں گے۔ آصف زرداری 5سال حکومت کر گئے اور ن لیگ بھی 5سال پورے کرنے والی ہے۔ چنانچہ پرانے این آر او کی مدت تو ختم ہوئی۔ اب دیکھنا ہے کہ 2018 ء میں انتخابات ہوگئے تو کیا نقشہ بنے گا۔