پاکستان کی سب سے بڑی عدالت کی طرف سے نا اہل قرار دیے گئے میاں نواز شریف گزشتہ جمعرات کو جب اسلام آباد کے ائر پورٹ پراترے تو ان کا شاہانہ استقبال کیا گیا اور 56قیمتی گاڑیوں کے جلو میں انہیں سرکاری عمارت پنجاب ہاؤس پہنچایا گیا جہاں ن لیگ کی حکومت کے اہلکاروں نے ان کی قدم بوسی کی ۔ ان کے خاص حواری طلال چودھری نے نواز شریف کو خوش کرنے کے لیے نعرہ لگایا ’’ نواز شریف کو نا اہل قرار دینے والے خود نا اہل ہیں‘‘۔ اب یہ نشاندہی کرنا تو لاحاصل ہے کہ یہ صریحاً توہین عدالت ہے کیوں کہ یہ کام تو نوازشریف اور ان کے سب ہی ساتھی کررہے ہیں اور عدالت عظمیٰ رسی دراز کیے جارہی ہے۔ نیب کے حوالے سے خبر آئی تھی کہ اس نے ائر پورٹ میں داخل ہو کر نواز شریف کو گرفتار کرنے کی اجازت حاصل کرلی ہے۔ لیکن وہاں تو اب بھی حکومت نوازشریف کی مسلم لیگ کی ہے اور تمام ادارے اس حکومت کے ماتحت ہیں چنانچہ نیب کو ائرپورٹ میں داخل ہونے کی اجازت ہی نہیں ملی۔ نواز کے قابل ضمانت وارنٹ نکلے ہوئے ہیں ۔ لیکن نیب کی 5رکنی ٹیم وارنٹ کی تعمیل کرانے کے لیے پنجاب ہاؤس میں نواز شریف کے حضور حاضر ہوئی۔ اس شاہانہ سلوک پر شرجیل میمن جیسے لوگوں کو امتیازی سلوک کا شور مچانے کا موقع مل گیا۔ انہیں تو نیب نے گرفتار کر کے جیل میں ڈال دیا تھا اور ان کا شکوہ ہے کہ نوازشریف اور ان کی بیٹی، داماد کھلے پھر رہے ہیں ۔ دیکھا جائے تو ان کی بات غلط نہیں ہے کہ ملزموں سے امتیازی سلوک ہور ہا ہے۔ لیکن گزشتہ بدھ کو پونے چھ ارب روپے کی خورد برد اور لوٹ مار میں ملوث سابق وزیر شرجیل میمن کا سندھ اسمبلی میں شاندار استقبال ہوا، ان کو لانے والی گاڑی پر پھول نچھاور کیے گئے اور ایک ہیرو کی طرح ان کی پزیرائی کی گئی۔ یہ تمام بدعنوان عناصر اور لٹیروں کے لیے پیغام ہے کہ ایسے ہی لوگ حکومت کی نظر میں معزز ہیں ۔ اس موقع پر وزیر اعلیٰ سندھ نے بھی ایک کرپٹ شخص کے حق میں خطاب کیا اور سندھ اسمبلی نے الٹا نیب کے خلاف مذمتی قرار داد منظور کرلی۔ صرف فنکشنل مسلم لیگ کی رکن اسمبلی نصرت سحر عباسی نے اس عمل کی مذمت کی اور دعا کرائی کہ اسمبلی میں کرپٹ لوگوں کا استقبال نہ ہو۔ تاہم اس شاہانہ استقبال پر شرجیل میمن کی شکایت میں کمی آجانی چاہیے۔ سندھ میں ان کی پارٹی کی حکومت ہے اور اسلام آباد ، پنجاب میں نواز شریف کی پارٹی کی۔ المیہ یہی ہے کہ ہم پر چور، ڈاکو اور خائن لوگ حکمران ہیں۔ میاں نواز شریف کی جمعہ کو عدالت میں پیش ہوئی لیکن کچھ کہے سنے بغیر سماعت ملتوی ہوگئی اور اگلی تاریخ پڑ گئی۔ نواز شریف نے پھر وہی نعرہ لگایا کہ مجھے کیوں نکالا۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ ڈکٹیشن نہیں لیں گے۔ انہیں شاید یاد ہو کہ جب صدر غلام اسحاق خان اور وزیر اعظم نوازشریف میں ٹھنی ہوئی تھی تو اس وقت بھی نواز شریف نے یہی نعرہ لگایا تھا کہ ’’ ڈکٹیشن نہیں لوں گا ‘‘۔ یہ اعلان ٹیلی ویژن پر آ کر کیا اور پھر ڈکٹیشن کے تحت صدر اور وزیر اعظم دونوں گئے۔ یہ ڈکٹیشن جنرل وحید کاکڑ نے دی تھی اور نواز شریف نے سر جھکا دیا تھا۔ اب پھر ایسا ہی دعویٰ کررہے ہیں، خدا خیرکرے، وزیر اعظم تو اب وہ رہے نہیں۔ کہتے ہیں کہ تصادم ہم نے نہیں کیا، ہمارے ساتھ ہوا ہے۔ پتا نہیں ان کے ذہن میں تصادم کا کیا مفہوم ہے۔ جب ان کا معاملہ عدالت میں آیا تو انہوں نے بار بار کہا کہ جو فیصلہ آئے گا اسے قبول کروں گا۔ انہوں نے جس طرح قبول کیا ہے وہ سب کے سامنے ہے۔ کہتے ہیں کہ پارٹی فیصلے سب کو ماننے ہوں گے۔ لیکن فیصلے تو پارٹی نہیں فرد واحد کررہا ہے۔ شاید یہی جمہوریت ہے۔ اس سوال کا جواب تو نواز شریف کے بنائے ہوئے وزیر اعظم شاہد خاقان کو دینا چاہیے کہ ایک ملزم کے استقبال کے لیے شاہانہ پروٹوکول کس کے پیسوں سے دیا گیا۔