آزادی کے فراموش اوراق

390

غزالہ عزیز
آج سے ٹھیک 155 سال قبل مغل سلطنت کے آخری تاجدار بہادر شاہ ظفر کا اسیری کی حالت میں برما (رنگون) میں انتقال ہوا۔ سید مہدی حسن اپنی کتاب ’’بہادر شاہ اینڈ دی وار آف 1857ء اِن دہلی‘‘ میں لکھتے ہیں:
’’بادشاہ کے ملازم احمد بیگ کے مطابق 26 اکتوبر سے ان کی طبیعت ناساز تھی اور وہ بہت مشکل سے کچھ نگل پا رہے تھے۔ اور بالآخر 7 نومبر 1862ء کو رنگون میں وہ انتقال کرگئے۔ اسی شام چار بجے 87 سالہ مغل بادشاہ کو دفنا دیا گیا۔ اس گھر کے گیراج میں جس میں وہ قید کے دن گزار رہے تھے، انہیں دفنا کر زمین ہموار کردی گئی۔ کوئی کتبہ بھی نہیں لگایا گیا کیونکہ برطانوی حکام چاہتے تھے کہ ان کی قبر کی نشان دہی نہ کی جاسکے۔‘‘
حالانکہ بہادر شاہ نے اپنے پیش رو بادشاہوں کی طرح دہلی میں اپنی تدفین کے لیے جگہ منتخب کر رکھی تھی۔ مہرولی میں قطب مینار کے پاس دو قبروں کی جگہ آج بھی خالی ہے۔ انہوں نے ٹھیک ہی پیشن گوئی کی تھی کہ
کتنا ہے بد نصیب ظفر دفن کے لیے
دو گز زمین بھی نہ ملی کوئے یار میں
لیکن شاید وہ یہ نہیں جانتے تھے کہ ان کی قبر کا نام و نشان بھی مٹا دیا جائے گا۔ 1882ء میں ان کی بیوی زینت محل کا انتقال ہوا تو اُس وقت تک کسی کو یاد نہیں تھا کہ بہادر شاہ کی قبر کہاں ہے؟ ہموار کی گئی قبر پر گھاس اُگ آئی تھی، لہٰذا ان کی بیگم کو اندازاً اسی جگہ ایک درخت کے پاس دفن کردیا گیا۔
1905ء میں مسلم کمیونٹی کے احتجاج اور آواز اٹھانے پر برطانوی انتظامیہ 1907ء میں ان کی قبر پر کتبہ لگانے پر راضی ہوئی، اور یہ فیصلہ کیا گیا کہ ان کے کتبے پر لکھا جائے گا کہ ’’دلی کے سابق بادشاہ بہادر شاہ 7 نومبر 1862ء کو رنگون میں انتقال کرگئے، انہیں یہاں دفن کیا گیا تھا۔‘‘
جنگِ آزادی جس کو انگریز ’’غدر‘‘ کا نام دیتے ہیں، آج سے ٹھیک ایک سو ساٹھ سال قبل 9 مئی 1857ء کو میرٹھ کی چھائونی میں اس کی ابتدا ہوئی جب برطانیہ کی فوج کی تیسری لائٹ کیولری کے سپاہیوں کو قید کی سزا سنائی گئی، کیوں کہ انہوں نے اُن کارتوسوں کو استعمال کرنے سے انکار کیا تھا جن پر گائے اور سور کی چربی مَلی ہوئی تھی۔ اس واقعے پر مشتعل ہوکر دوسرے سپاہیوں نے بھی بغاوت کردی اور پورا شہر بغاوت کی لپیٹ میں آگیا۔ میرٹھ چھائونی سے دِلّی چالیس میل دور تھی۔ باغی سپاہیوں نے دِلّی کا رخ کیا، انہوں نے کلکتہ دروازے سے داخل ہوکر فصیل بند شہر پر قبضہ کرلیا۔
لال قلعہ مغلوں کا پایہ تخت تھا۔ بہادر شاہ ظفر اب بھی وہاں تخت نشین تھے۔ اگرچہ ان کی سلطنت قلعہ کی فصیلوں تک محدود تھی۔ وہ اُس وقت 82 سال کے ہوگئے تھے۔ ان کے شوق موسیقی، شاعری، کبوتر بازی اور مرغ بازی تھے۔ ان کا وقت انہی مشغلوں میں گزرتا تھا۔ اگرچہ وہ اپنے وقت کے بہترین نشانہ باز، شہ سوار اور تیر انداز تھے لیکن اب وہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے وظیفہ خوار تھے۔ سلطنت تباہ ہوچکی تھی لیکن اس کے باوجود اُن کی ایک علامتی حیثیت ضرور تھی۔ دلی مغل سلطنت کا مرکز رہ چکی تھی، لہٰذا لوگوں کا رہنمائی کے لیے ان کی طرف دیکھنا فطری تھا۔
آزادی کے لیے باغیوں نے بہادر شاہ ظفر سے مدد چاہی تو انہوں نے اپنی مجبوری اور گوشہ نشینی کا ذکر کیا، مگر بالآخر انہوں نے کانٹوں کا یہ تاج پہن لیا۔ اب لال قلعہ پوری طرح باغیوں کے قبضے میں تھا۔ بہادر شاہ ظفر کے پانچویں بیٹے مرزا مغل نے کمان سنبھالی۔
جلد ہی آزادی کی لہر پڑوس کے دوسرے اضلاع اور شہروں میں پھیل گئی۔ سردھنہ، باغپت، بلند شہر، سہارن پور، بریلی، رام پور، امروہہ، بجنور، بدایوں، شاہ جہاں پور اور فرخ آباد مکمل طور پر آزادی کی تحریک میں شامل ہوگئے۔ وہاں کے خزانوں اور اسلحہ خانوں پر قبضہ کرلیا گیا۔
اس دوران انگریزوں نے دلی پر دوبارہ قبضے کے لیے کوششیں شروع کردیں۔ انگریز فوج نے فصیل پر گولہ باری شروع کردی۔ اتنے میں آزادی کے مجاہدوںکی ایک بڑی فوج بخت خان کی قیادت میں 22 جولائی کو دلی میں داخل ہوئی۔ بخت خان کو مرزا مغل کی جگہ باغیوں کا سپہ سالار بنایا گیا۔ اس نے انگریزوں پر کامیاب حملہ کیا لیکن افسوس درباری سازشوں کے باعث بخت خان جیسے مستعد اور تجربہ کار جنرل کو برطرف کردیا گیا۔ یوں ایک بار پھر برطانوی فوجوں کا پلڑا بھاری ہوگیا۔ 14 ستمبر کو انگریزوں نے دلی پر ایک منظم حملہ کیا۔ ان ایام میں درباریوں کی سازشوں کے باعث بہادر شاہ نے آزادی کے سپاہیوں کے ساتھ رہنے کے بجائے 17 ستمبر کو قلعہ خالی کرکے ہمایوں کے مقبرے میں چلے جانے کو ترجیح دی۔
20 ستمبر کو قلعہ خالی ہوگیا، لوگ جانیں بچا کر اِدھر اُدھر چلے گئے اور انگریز قلعہ میں داخل ہوگئے۔
دوسرے دن بہادر شاہ کو ہمایوں کے قلعہ سے بغیر کسی مزاحمت کے گرفتار کرلیا گیا۔ قلعہ سے تھوڑے فاصلے پر صدیوں پرانا خونیں دروازہ ہے جہاں بہادر شاہ کے دو بیٹوں اور ایک پوتے کو قتل کیا گیا۔ مرزا مغل، مرزا خضر اور پوتے مرزا ابوبکر کے سر کاٹ کر تھال میں بہادر شاہ ظفر کے سامنے پیش کیے گئے اور لاشوں کو لٹکا دیا گیا۔
کیپٹن ہڈسن نے بہادر شاہ کو صدمہ پہنچانے کے لیے اُن کی اولاد کے سر کاٹ کر پیش کیے تو بوڑھا بادشاہ انہیں دیکھ کر جوش میں آگیا۔ افسردہ ہونے کے بجائے جوش سے کہا کہ ’’تیموری شہزادے اپنے باپ کے سامنے ایسے ہی سرخ رو ہوکر پیش ہوتے ہیں۔‘‘
آزادی کی اس جنگ میں انگریزوں نے مسلمانوں پر بڑے ظلم ڈھائے، خاص طور سے دہلی کے مکینوں پر، جہاں کے ہر گلی کوچے میں خوف و ہراس کا ماحول تھا۔ تاریخ میں لکھا ہے کہ صرف کوچہ چیلاں میں ایک دن کے اندر 1,400 لوگوں کو ہلاک کیا گیا۔ ایک انگریز اپنی کتاب میں اس کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتا ہے کہ ’’بوڑھوںکو قتل ہوتے دیکھ کر بڑا افسوس ہوتا تھا۔‘‘
یہ جنگِ آزادی مسلمانوں کے لیے بڑی ہلاکت خیزی اور تباہی لانے کا سبب بنی، بڑے پیمانے پر مسلمانوں نے نقل مکانی کی۔ انگریزوں نے گائوں کے گائوں جلا ڈالے اور جگہ جگہ درختوں پر مسلمانوںکو پھانسی دینا شروع کی۔ آزادی کی جنگ میں مسلمانوں خاص طور سے علماء نے بڑا اہم کردار ادا کیا تھا۔
انگریزوں کو ہمیشہ اگر کوئی خوف اور ڈر تھا تو مسلمانوں کی طرف سے تھا، نہ کہ ہندوئوں کی طرف سے، جو تعداد میں مسلمانوں سے بہت زیادہ تھے۔
ایک معروف انگریز ڈاکٹر ولیم میور نے وائسرائے کو رپورٹ بھیجی کہ 1857ء کی جنگ تو صرف مسلمانوں نے لڑی ہے، ان کے دلوں میں جذبۂ جہاد ہے۔ ہم اُس وقت تک ان پر اپنی حکومت مضبوط نہیں کرسکتے جب تک ان کے جذبۂ جہاد کو ختم نہ کیا جائے، لہٰذا اس کے لیے ضروری ہے کہ علماء کو راستے سے ہٹا دیا جائے کیونکہ یہ علماء ہی ان میں جذبۂ جہاد کو ابھارتے ہیں۔
اس خطرناک اور زہریلے مشورے پر عمل کرتے ہوئے عام بغاوت پر قابو پانے کے لیے مسلم علماء کے خلاف انتہائی جبر اور ظلم کی پالیسی اپنائی گئی۔ وحشت اور اذیت کے ساتھ ان کا قتلِ عام شروع ہوا۔ ظلم کی وہ مثالیں قائم کی گئیں کہ آج بھی انسانی روح کانپ اٹھتی ہے۔
انگریز مؤرخ ڈاکٹر ٹامس اپنی یادداشتوں میں لکھتا ہے کہ 1864ء سے1867ء تک تین سال ہندوستان کی تاریخ کے الم ناک ترین سال تھے۔ ان تین برسوں میں 14 ہزار علماء کو انگریزوں نے پھانسی پر لٹکایا۔ وہ لکھتا ہے کہ دلی کے چاندنی چوک سے پشاور تک کوئی درخت ایسا نہ تھا کہ جس پر علماء کی گردنیں لٹکتی نظر نہ آتی ہوں۔ علما کو خنزیر کی کھالوں میں بند کرکے جلتے تندور میں ڈال دیا جاتا تھا۔ لاہور کی شاہی مسجد میں پھانسی کا پھندا تیار کیا گیا اور ایک ایک دن 80, 80 علماء کو پھانسی پر لٹکایا جاتا۔
یہی ٹامس لکھتا ہے کہ مَیں دلی میں خیمے میں ٹھیرا ہوا تھا کہ مجھے گوشت جلنے کی بو محسوس ہوئی، میں خیمے کے پیچھے گیا تو کیا دیکھتا ہوں کہ انگارے دہک رہے تھے اور ان انگاروں پر چالیس علماء کو کپڑے اتارکر پائوں باندھ کر ڈال دیا گیا۔ پھر اس کے بعد چالیس علماء لائے گئے اور ایک انگریز افسر نے ان سے کہا کہ ’’اے مولویو! جس طرح ان کو آگ میں ڈال کر جلایا جارہا ہے تم کو بھی اسی طرح آگ میں جھونکا جائے گا۔ اگر تم میں سے ایک آدمی بھی یہ کہہ دے کہ ہم 1857ء کی جنگ میں شریک نہیں تھے تو تم کو چھوڑ دیا جائے گا۔‘‘
ٹامس کہتا ہے کہ پھر میں نے دیکھا کہ یہ علماء آگ پر پک گئے لیکن کسی ایک مسلمان عالم نے بھی انگریز کے سامنے گردن نہ جھکائی اور نہ معافی کی درخواست کی۔
تاریخِ آزادیٔ ہند میں مسلمانوں کے مثالی کردار کا ذکر کرتے ہوئے مولانا جعفر تھانیسری ’’تاریخ کالاپانی‘‘ میں لکھتے ہیں کہ ہمارے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں، پائوں میں بیڑیاں اور جسم پر پھٹا ہوا لباس اور کمر پر لوہے کی سلاخیں تھیں۔ میرے ساتھ دو اور علماء تھے۔ انگریزوں نے ہم کو لوہے کے پنجروں میں بند کردیا۔ ان پنجروں کے اندر لوہے کی نوکیلی سلاخیں لگائی گئی تھیں۔ ہم نہ تو سہارا لے سکتے تھے، نہ بیٹھ سکتے تھے۔ ہمارے پائوں اور جسم سے لہو بہتا رہتا تھا۔
شیخ الہند مولانا محمودالحسن، جو تحریک ’’ریشمی رومال‘‘ کے بانی تھے، جب ان کا انتقال ہوا تو ان کی میت دیوبند لائی گئی، غسل کے لیے میت کو تختے پر لٹایا گیا اور ان کی کمر سے کپڑا ہٹایا گیا تو ہڈیوں کے سوا کچھ نہ تھا۔ یہ دل خراش منظر دیکھ کر لوگ رو پڑے۔
مولانا حسین احمد مدنی سے ایک ملاقات میں انہوں نے بتایا تھا کہ جب وہ مالٹا کی جیل میں پابندِ سلاسل تھے تو انگریز انہیں تہ خانے میں لے جاتے اور لوہے کی سرخ گرم سلاخیں ان کی کمر پر پھرائی جاتیں، وہ بے ہوش ہوجاتے۔ اور جب ہوش میں آتے تو وہ ایک ہی بات دہراتے کہ ’’اے انگریز میرا جسم پگھل سکتا ہے، میں سیدنا بلالؓ کا وارث ہوں، تم میری چمڑی ادھیڑ سکتے ہو لیکن میں تمہارے حق میں فتویٰ نہیں دے سکتا۔‘‘
یہ سب ہماری تاریخ کے اوراق ہیں جنہیں ہم نے فراموش کردیا ہے۔ آزادی کے اس قدر دلدوز سفر کو ہم نے بھلا ڈالا، اور اب ہم طاقت ور قوموں کی حاشیہ برداری اور سہارے سے اپنے وجود کو برقرار رکھنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ بیرونی امداد اور قرضوں پر انحصار کرکے اپنے لیے پھر سے غلامی کے جال بُننے میں لگے ہیں۔ ہمارا میڈیا ہندوانہ تہذیب کا زہر ہماری نسلوں کے ذہن میں بھر رہا ہے۔ ہمارے نوجوان ہندو اداکاروں کے شیدائی بنا دیے گئے ہیں، ان کی فلمیں ہمارے ٹی وی کے اکثر چینلز کی روز کی نشریات میں شامل ہیں۔
کیا اس قدر قربانیوں کے بعد آزاد پاکستان کی سرزمین اس لیے حاصل کی گئی تھی؟ یہ وہ سوال ہے جو آج ہر پاکستانی کو اپنے آپ سے کرنا چاہیے۔