اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی

774

رابعہ گل
(غیسل الملائکہ)
آئین جواں مرداں حق گوئی و بے باکی
اللہ کے شیروں کو آتی نہیں روباہی
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ایک شہید صحابی کے بارے میں :
میں نے دیکھا زمین و آسمان کے درمیان بارش کے تازہ پانی سے چاندی کے تھالوں میں فرشتے ان کو غسل دے رہے ہیں ۔
یہ فضیلت جاں نثار رسول اور صحابی رسولﷺحضرت حنظلہ کو نصیب ہوئی۔
اس کی فضیلت کاسبب جاننے کے لئے لوگوں نے شہید کی بیوہ سے پوچھا تو انہوں نے کہا؛
گزشتہ رات ہی ان کی شادی کی رات تھی رسولﷺ کی طرف سے جہادکا اعلان سنتے ہی حضرت حنظلہ ــــ’’لبیک لبیک‘‘ کہتے ہوئے حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور تعمیل ارشاد میں اتنی تاخیر بھی گوارا نہ کی کہ غسل کرسکیں۔
نبی کریم ﷺ نے ہجرت مدینہ کے بعد شریعت الہی کو نافذکرنے کے لئے جنگیں لڑیں جن کو غزوات کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ان غزوات میں نبی اکرم ﷺ کے جان نثاروں نے شہادت حق کی پاداش میں طوق و سلاسل کی صعوبتوں کو خندہ پیشانی سے قبول کیا دارو رسن کی آزمائش کے سامنے ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئی تلواروں کی دھاروں پر رقص بسمل ان کا معمول رہا۔
تاریخ شاہد ہے کہ کسی بھی نبی اور پیغمبر کو صحابہ کرام رضی اللہ عنہ جیسے حواری اور ساتھی میسر نہ آئے صحابہ کرام ؓ کائنات کی وسعتوں میں بکھرے وہ ستارے ہیں جو بھٹکی ہوئی انسانیت کی رہنمائی و رہبری کے لئے اپنی ضوفشاں کرنیں بکھیرتے رہے ہیں ۔
وہ ادائے عشق تھی کیا غضب ہوا اہل قریش کو حکم رب
جو لباس ان کے گدا کا ہے وہ قدسیوں کا پیرہن
چنانچہ ہجرت مدینہ کہ بعد جو سب سے پہلی جنگ لڑی گئی وہ غزوہ بدر تھی جس میں ان جاں نثاروں نے رسولﷺ کی معیت میں دشمنان اسلام کو شکست فاش سے دوچار کیا۔مسلمانوں کو اس نئی ابھرتی ہوئی قلیل جماعت سے شکست نے قریش کو جذبہ انتقام میں مبتلا کر دیا ۔اس انتقام کے جذبے نے قریش کو ابو سفیان کی سپہ سالاری میں۵شوال ۳ ہجری کو مدینہ پر حملہ کرنے کے لئے مجبور کر دیا ۔
کفار کا لشکر وادی قناۃکے وسط میں شہر مدینہ کا سامنے جبل احد کی سمت خیمہ زن ہوا ۔۵شوال کو آپﷺ نے اپنے جاں نثاروں کے ہمراہ مدینے سے روانگی کا ارادہ فرمایا ۔اس جنگ میں جن سرفروشوں نے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا ۔ان میں حضرت حنظلہ ؓ بھی تھے۔حضرت حنظلہ ؓ ابو عامر فاسق کے بیٹے تھے جو کہ کفار کے لشکر جرار میں شامل تھا ان کی طرف سے لڑ رہا تھا حضرت حنظلہ ؓ نے بارگاہ رسالت میں عرض کیا کہ :یا رسول اللہ مجھے ﷺ! مجھے اجازت دیجیئے کہ میں اپنی تلوار سے ابو عامر کا سر کاٹ لائوں مگر حضور اکرم کی رحمت نے یہ گوارا نہیں کیا کہ بیٹے کی تلوار باپ کا سر کاٹ لائے۔حضرت حنظلہ ؓ جوش میں اس قدر بھرے ہوئے تھے سر ہتھیلی پر رکھ کر قلب لشکر تک پہنچ گئے لشکر کے سپاہ سالار کو ابو سفیان نے دیکھا تو تلور لہراتے ہوئے اس پر جھپٹے۔اپنی تلوار کا پہلا وار کیا جو اس کے گھوڑے کو لگا ،گھوڑا ابو سفیان سمیت گرا ،وہ چلایا اور مدد کے لئے پکارا ،اس کی پکار سن کر اسود بن شداد اس کی مدد کے لئے آیا۔اپنے نیزے سے حضرت خنظلہ پر حملہ کیا نیزہ ان کے جسم کو چیرتا ہوا باہر نکل گیا۔حنظلہ ؓ زخمی شیر کی طرح غراتے ہوئے اس پر حملہ آور ہوئے۔اسود نے دوسرا وار کیا جو جان لیوا ثابت ہوا اور یوں حضرت حنظلہ ؓ شہادت کے اعلی مرتبے پر فائز ہوئے اور ملائکہ نے ان کو غسل دیا حضرت ابو سعید الساعدی ؓکہتے ہیں کہ ہم ان کے پاس گئے تو ان کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے تھے۔
یہ تھے جان نثاران رسول ﷺجنہوں نے پکار رسولﷺ پر لبیک کہتے ہوئے اپنی جان کا نذرانہ تک پیش کردیا اور ہمارے لئے یہ درس چھوڑ گئے کہ اتباع رسولﷺ ہر حالت میں لازم ہے ۔اور جس طرح انہوں نے اتباع رسول میںاپنی جان و مال اور اہل و عیال کی پروا نہ کی ،اور حکم رسول و رضائے الہی کو فوقیت دی۔اسی طرح ہمیں بھی محض زبانی و کلامی حب رسول ﷺکا دعوی کرنے کے بجائے محبت کا عمل و ثبوت پیش کرنا ہوگا ۔اتباع رسول ﷺمیں مال و اولاد کی محبت آڑے نہیں آنی چاہیے۔
نبی اکرمﷺنے فرمایا:یومن احدکم حتی اکون احب الیہ من والدہ والناس اجمعین۔
ترجمہ:تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک کہ میں اسے اس کے والدین ،اولاد اور تمام لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جائوں۔