برصغیر میں اسلام کے احیا اور آزادی کی تحریکیں

282

آٹھواں حصہ
نجیب ایوبی
پاکستان میں لیاقت علی خان کے قتل کے بعد امریکا نے پاکستان کے داخلی معاملات میں براہِ راست مداخلت کا راستہ اختیار کیا۔ گورنر جنرل غلام محمد کی صورت میں امریکا کو پاکستان میں اپنا بااعتماد رفیق میسر آچکا تھا۔ مداخلت کا یہ خوفناک سلسلہ کسی نہ کسی انداز میں آج تک جاری ہے۔ امریکی مداخلت کا پس منظر یہ تھا کہ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے پاکستان میں قراردادِ مقاصد کا ترمیمی مسودہ (جس پر علماء کرام اور سیاست دان سب متفق ہوچکے تھے) منظوری کے لیے دستور ساز اسمبلی کی جانب بھیجا۔ دستور ساز اسمبلی نے (اپنی تحلیل سے ذرا پہلے) آئین کے خاکے کے بارے میں بنیادی اصولوں کی کمیٹی کی جو رپورٹ منظور کی تھی، اس کے مطابق صوبوں میں آبادی کے لحاظ سے وسائل کی تقسیم کا منصوبہ پیش کیا گیا تھا۔ اس دستور ساز اسمبلی میں مسلم لیگ پنجاب کے اراکین ملک فیروز خان نون وغیرہ اس کے سخت خلاف تھے۔ ان کا خیال تھا کہ اس رپورٹ کی بنیاد پر بننے والا آئین مشرقی پاکستان کے حق میں چلا جائے گا (جو آبادی کے لخاظ سے سب سے زیادہ اکثریت والا صوبہ تھا)۔ مسلم لیگیوں خاص کر پنجاب کی سیاسی قیادت کو یہی خوف لاحق رہا کہ پنجاب کو نہ صرف پارلیمنٹ میں بلکہ سیاسی میدان اور بیوروکریسی و فوج میں اپنی بالادستی سے ہاتھ دھونے پڑ سکتے ہیں۔
مگر عین ان ہی دنوں ملک میں مذہبی فساد قادیانیوں پر حملے کی سازش کے ذریعے برپا کروایا گیا اور اس میں بہت بڑی تعداد مسلمان علماء، اور جماعت اسلامی کے مرکزی رہنمائوں کی گرفتاریاں عمل میں لائی گئیں۔ اس سازش کے نتیجے میں ملک میں بدامنی تو پھیل ہی چکی تھی، پھر اس کی آڑ لے کر حکومت کی جانب سے قادیانیوں کو سرکاری پروٹوکول دیتے ہوئے ان کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا۔ انتظامیہ میں بہت بڑے پیمانے پر رد و بدل شروع ہوگیا اور خاصی بڑی تعداد میں قادیانی افسران کو فوج، بیوروکریسی اور سول ایڈمنسٹریشن میں بھرتی کرنا شروع کردیا گیا (یہ قادیانی لابی کی دوسری بڑی کامیابی تھی)۔
پہلی کامیابی تو قادیانیوں کو 1948ء میں کشمیر کے جنگی محاذ پر ہوئی تھی کہ جب الفرقان بریگیڈ کے نام پر قادیانیوں کی علیحدہ بٹالین فوج میں شروع کی گئی۔ الفرقان بریگیڈ نے کشمیر کے محاذ پر پاکستانی فوج کی طرف سے عسکری کارروائیاں شروع کیں (عسکری تاریخ میں مذہب اور فرقے کی بنیاد پر تخصیص کی دنیا میں یہ واحد مثال ہے)۔ اس گرماگرم فضا میں تو کسی کو اندازہ ہی نہیں ہوا کہ یہ قادیانی سازش آئندہ چل کر کیا کیا گل کھلا سکتی ہے۔ قیام پاکستان کے تین مہینے بعد ہی کشمیر پر قبضے اور وہاں کے مسلمانوں کی مدد کے لیے قبائلیوں نے حملہ کردیا، جس کے نتیجے میں 27 اکتوبر کو کشمیر میں ہندوستانی افواج نے چڑھائی کردی۔ اس طرح برصغیر کی سیاست کا محور ہمیشہ کے لیے کشمیر ہوگیا۔ پھر اس حوالے سے جنگوں، فوجی معرکہ آرائیوں اور کشیدگیوں کا ایک نہ ختم ہونے والا چوہے بلی کا کھیل شروع ہوگیا۔
غلام محمد چونکہ پرانا بیوروکریٹ تھا لہٰذا عمدگی کے ساتھ اُس نے سول بیوروکریسی کو اپنے حق میں استعمال کرنا شروع کیا، اور پنجابی اور اردو زبان کی بنیاد پر پنجاب کے سیاست دانوں کو ساتھ ملاتے ہوئے خواجہ ناظم الدین کو وزارتِ عظمیٰ سے ہٹانے کے منصوبے بنانا شروع کردیئے۔ پنجاب میں احمدیوں کے خلاف فرقہ وارانہ فسادات کے ساتھ ساتھ ملک میں اناج کی مصنوعی قلت پیدا کی گئی تاکہ عوام خواجہ ناظم الدین کی وزارتِ عظمیٰ کے خلاف اٹھ کھڑے ہوں۔
17 اکتوبر 1951ء بروز جمعہ صبح سویرے خواجہ ناظم الدین کو گورنر جنرل کا پیغام ملا کہ فوراً مجھ سے ملو۔ خواجہ ناظم الدین نے عذر پیش کیا کہ مجھے حیدرآباد جانا ہے۔ دوسری طرف سے غلام محمد نے اس عذر کو اپنی توہین سمجھتے ہوئے نہایت سخت الفاظ میں اپنا مطالبہ دہرایا کہ مجھ سے فوراً ملو۔ چنانچہ خواجہ ناظم الدین بادلِ نخواستہ گورنر جنرل ہاؤس پہنچ جاتے ہیں۔ پہلے سے طے شدہ منصوبے کے تحت گورنر جنرل غلام محمد نے خواجہ ناظم الدین سے استعفیٰ طلب کیا۔ وزیراعظم خواجہ ناظم الدین نے اس فیصلے اور جبری حکم نامے کی وضاحت چاہی اور پس و پیش کیا۔ مگر گورنر جنرل کی طرف سے کھنک دار آواز میں جواب آیا ’’آئی۔ ڈس مس یو‘‘۔
خواجہ ناظم الدین بوجھل قدموں سے جیسے تیسے سیڑھیاں اتر کر گاڑی تک پہنچے تو معلوم ہوا کہ ان کی سرکاری گاڑی سے ’’پاکستان کا قومی پرچم‘‘ اتارا جاچکا ہے۔ اب گاڑی پر صرف پیتل کی ایک چمکتی ہوئی ننگی سلاخ تھی جو ’’قومی پرچم‘‘ سے یکسر محروم تھی۔
خواجہ ناظم الدین کو برطرف کرکے شاطر گورنر جنرل غلام محمد نے خصوصی اختیارات استعمال کرتے ہوئے مغرب نواز امریکی حمایت یافتہ محمد علی بوگرا کو وزیراعظم مقرر کرنے کا اعلان بھی کردیا (جس نے اپنی کابینہ میں پہلی بار عسکری قوتوں کے کمانڈر اِن چیف جنرل ایوب خان کو وزیر دفاع مقرر کیا تھا)۔
اس دوران خواجہ ناظم الدین نچلے نہیں بیٹھے، انہوں نے اپنی برطرفی کو عدالت میں چیلنج کیا (جس کی تفصیل آپ آنے والی اقساط میں دیکھ سکیں گے)۔
پھر 1954ء میں مشرقی پاکستان میں انتخابات ہوئے جس میں مسلم لیگ کو بہت ہزیمت سے دوچار ہونا پڑا۔ 237 نشستوں میں سے 223 جگتو فرنٹ نے جیت لیں اور صرف 10 سیٹیں مسلم لیگ کے حصے میں آئیں۔ جس کے بعد مشرقی پاکستان میں یہ مطالبہ زور پکڑتا چلا گیا کہ موجودہ اسمبلی عوام کی نمائندگی کا حق کھو چکی ہے لہٰذا نئے انتخابات کروائے جائیں۔ اس مطالبے کے بعد مغربی پاکستان کے مسلم لیگی اراکین کو یہ فکر دامن گیر ہوئی کہ کہیں ہمارا بھی حشر مسلم لیگ مشرقی پاکستان جیسا نہ ہو، اور ان میں یہ بھی ڈر پیدا ہوگیا تھا کہ غلام محمد موجودہ اسمبلیاں برخواست کرکے نئے انتخابات کا اعلان نہ کربیٹھے۔ اسی خوف سے اسمبلی نے اپنے اجلاس میں دس منٹ کے اندر گورنر جنرل کے اختیارات میں کمی کا بل منظور کروا لیا۔
جبکہ اصل بات کچھ اس طرح سے تھی کہ مشرقی پاکستان کے وزیراعلیٰ نورالامین کے کہنے پر یا مشورے پر عبدالستار پیرزادہ وزیراعلیٰ سندھ نے گورنر جنرل کے وسیع اختیارات کو چیلنج کیا اور انہیں ’’حد‘‘ میں رکھنے کے لیے دستور ساز اسمبلی میں ایک آئینی ترمیم منظور کرائی۔
ظاہر ہے اس ترمیم نے ڈکٹیٹر مائنڈ سیٹ کے حامل گورنر جنرل غلام محمد کو آگ بگولا کردیا۔ یہی نہیں بلکہ پنجاب سے تعلق رکھنے والے مسلم لیگی اراکین اور مفاد پرست سب ایک صفحے پر آگئے۔ وہ پہلے ہی مشرقی پاکستان کے سیاست دانوں کے سیاسی شعور کے مقابلے میں پریشان رہتے تھے، اب وہ یہ سمجھنے لگے کہ اگر ملک میں جمہوری ڈھانچے کے تحت آبادی کو بنیاد بنایا گیا تو مشرقی پاکستان کو مغربی حصے پر بالادستی حاصل ہوجائے گی اور اس طرح سے باقی چھوٹے صوبے کبھی مشرقی پاکستان کے ساتھ ہوگئے تو پنجاب سیاسی اعتبار سے تنہا رہ جائے گا۔
جناب قدرت اللہ شہاب نے ’’شہاب نامہ‘‘ میں اس کا نہایت تفصیل کے ساتھ ذکر کیا ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
’’غلام محمد کے کردار میں کسی قسم کا کوئی آئیڈیل ازم نہیں تھا، اُن کے مقاصد میں اوّلیت کا شرف ہوسِ اقتدار کو حاصل تھا۔ دوسرے درجے پر صنفِ نازک کی طرف اُن کا شدید رجحان تھا جو اکثر مریضانہ حد تک پہنچ جایا کرتا تھا۔ اپنے مقاصد کے حصول کے لیے وہ خودغرضی، خودسری، ہٹ دھرمی، دھونس، دھاندلی اور ایچ پیچ سمیت ہر قسم کا حربہ اختیار کرنے کی صلاحیت رکھتے تھے۔‘‘ آگے چل کر مزید لکھتے ہیں کہ ’’یہ مفلوج، معذور اور مغرور شخص ایسی مٹی سے بنا ہوا نہیں تھا کہ گورنر جنرل کے سنہری اور آئینی پنجرے میں بند ہوکر صبر شکر سے بیٹھا رہے‘‘۔
یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ یہ وہی وزیراعظم تھے جن کے بجٹ کو چند دن پہلے ہی قومی اسمبلی نے بھاری اکثریت سے منظور کیا تھا۔
چنانچہ گورنر جنرل غلام محمد کے کہنے پر5 اکتوبر 1954ء کے ایک اجلاس میں دستور ساز اسمبلی میں مسلم لیگ پنجاب نے تین مطالبات پر مبنی تجاویز (جو تجاویز سے زیادہ الٹی میٹم تھیں) پیش کیں اور کہا کہ اگر اس کے یہ مطالبات تسلیم نہ کیے گئے تو28 اکتوبر کو دستور ساز اسمبلی کے اجلاس سے قبل پارٹی کے تمام اراکین، اسمبلی سے اجتماعی طور پر مستعفی ہوجائیں گے۔
پنجاب مسلم لیگ اسمبلی پارٹی نے جو تین مطالبات پیش کیے تھے ان میں پہلا مطالبہ تھا کہ آئین میں مرکز کے پاس صرف چار امور یا شعبہ جات ہونے چاہئیں: (1) دفاع، (2) امور خارجہ، (3)کرنسی اور بیرونی تجارت، (4)مواصلات۔ دوسرا مطالبہ تھا کہ ان امور کے سوا تمام امور صوبوں کو تفویض کرنے کے لیے تمام صوبوں کے نمائندوں کی کمیٹی فیصلہ کرے۔ تیسرا مطالبہ تھا کہ اگلے پانچ برس تک نئے آئین میں کوئی ترمیم اُس وقت تک منظور نہیں ہوسکتی جب تک کہ اس کے حق میں تمام صوبوں کی اسمبلیوں میں 30 فی صد اراکین کی منظوری (حمایت) حاصل نہ ہو۔
اسمبلیاں تحلیل کرنے سے قبل غلام محمد کے لیے ضروری تھا کہ مشرقی پاکستان کے کسی بااثر سیاست دان کو ہاتھ میں لیا جائے، چنانچہ گورنر جنرل غلام محمد نے فوری طور پر ملک فیروز خان نون (مسلم لیگ پنجاب) کو زیورخ سوئٹزرلینڈ روانہ کیا جہاں عوامی لیگ کے صدر جناب حسین شہید سہروردی علاج کی غرض سے موجود تھے۔ زیورخ میں نون اور سہرودی کے درمیان معاملات طے پائے جس کی رو سے حسین شہید سہروردی کو مشرقی پاکستان میں جگتو فرنٹ کی معطل حکومت کو بحال کرنے کے وعدے پر قانون ساز اسمبلی کو تحلیل کرنے پر اپنے اعتماد کا اظہار کرنا تھا اور اسی کے ساتھ منسلک ون یونٹ کی تجویز پر آمادگی ظاہر کی (مغربی پاکستان کے تینوں صوبوں اور چھ نوابی ریاستوں کو ایک یونٹ میں ضم کرکے ون یونٹ کا قیام)۔ حسین شہید سہروردی کی صورت میں غلام محمد کو مشرقی پاکستان میں ’’مطلب کا آدمی‘‘ مل چکا تھا۔ ملک فیروز خان نون اور سہروردی کی خفیہ ملاقات رنگ لے آئی اور اس ڈیل کے نتیجے میں وہ ہوا جو نہیں ہونا چاہیے تھا۔
قدرت اللہ شہاب کہتے ہیں کہ ’’اس شب خون کا جواب گورنر جنرل نے33 دن کے بعد دیا۔ اور 24 اکتوبر 1954ء کو اچانک ملک بھر میں ہنگامی حالت کا اعلان کرکے قانون ساز اسمبلی کو برخواست کردیا۔‘‘
(حوالہ: شہاب نامہ)
(جاری ہے )
تبصرہ/ مہ جبیں اختر
نجیب ایوبی صاحب۔السلام علیکم
آپ کا جسارت سنڈے میگزین میں ہفتہ وار مضمون چھپ رہا ہے ج مجھے بہت پسند آیا ہے۔ اگر اس کی کوئی مکمل کتاب ہے تو مجھے وہ چاہیے۔ اور یہ بھی بتادیں کہ یہ کتاب کہاں سے ملے گی۔
میں اصل میں نوجوان لڑکیوں کی انگریزی میں کلاسز لیتی ہوں، ہمارے موضوعات قرآن، حدیث اور اسلامی تاریخ ہیں۔ آپ کے یہ قسط وار مضامین اس مقصد کے لیے بہترین رہیں گے۔ کم از کم مجھے سارے مضامین ہی کسی طرح مل جائیں تو مشکور ہوں گی۔
میرے والد ڈاکٹر سید مبین اختر بھی 1857ء کی تاریخ سے خاص دلچسپی رکھتے ہیں، اور کتابیں اور رسالے ڈھونڈ کر خود سے کتابچے بناکر لوگوں کی معلومات میں اضافہ کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ ان کو بھی آپ کے سلسلہ وار مضامین بہت پسند آئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اس کا ڈھیر سارا اجر عطا فرمائے۔ (آمین)