ترقی…؟

351

سیدہ عنبرین عالم
’’ترقی‘‘… یہ ایک ایسا لفظ ہے جس کی آج تک تشریح نہیں ہوسکی۔ کیا زیادہ مال و دولت جمع کرلینا ترقی ہے؟ یا سائنسی آلات کو اپنی زندگی پر سوار کرلینا ترقی ہے؟
گزشتہ روز میں نل کھول کر وضو کررہی تھی، میری والدہ نے کہا کہ بچپن میں ہم لوٹے میں پانی لے کر وضو کیا کرتے تھے، حالانکہ نل ہمارے گھر میں بھی تھا۔ میں نے کہا کہ یہ کیا بات ہوئی! جب ترقی ہوگئی اور گھروں میں نلوں کے ذریعے پانی استعمال ہوسکتا ہے تو لوٹے سے وضو کرنے میں کیا منطق ہے؟ والدہ نے جواب دیا کہ یہ ترقی نہیں ہے، ہم ایک لوٹے پانی سے وضو کرلیا کرتے تھے اور ایک بالٹی پانی سے نہا لیا کرتے تھے، لیکن اب نلوں کے بے دریغ استعمال سے وضو میں کم از کم 4 لوٹے پانی ضائع ہوجاتا ہے، اور نہانے میں بھی شاور اور نل وغیرہ سے 4 بالٹی پانی خرچ ہوتا ہے۔ یہ موجودہ حالات میں تو سہولت اور ترقی محسوس ہورہی ہے، مگر یہ ترقی بہت برا انجام دکھائے گی آئندہ نسلوں کو، جب زمین میں میٹھا پانی کم ہوجائے گا اور پینے کو بھی نہیں بچے گا، پانی پر جنگیں ہوا کریں گی۔
اب اسی نقطے کو آپ ذہن میں رکھیں، اونچی اونچی بلڈنگیں دیکھ کر ہم سحر کا شکار ہوجاتے ہیں اور ان بلڈنگوں کو ہی ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے، مگر آپ کو یہ نہیں معلوم کہ یہ بلڈنگیں تعمیر کرنے کے لیے جو بجری استعمال کی گئی ہے وہ دریائوں اور سمندروںکے پاس سے اٹھائی جاتی ہے جس کی وجہ سے ساحل ختم ہوتے چلے جارہے ہیں، پانی کے اندر سے ریتی نکالی جارہی ہے جس کے نتیجے میں آبی حیات بے حد متاثر ہے، کئی ملکوں میں ریتی کو سمندر سے نہ نکالنے کے لیے تحریکیں بھی چلائی جارہی ہیں جن میں بھارت بھی شامل ہے۔
ترقی کی ایک اور اعلیٰ نشانی ملیں اور فیکٹریاں ہیں۔ یہ کس طرح ماحول کو تباہ کررہے ہیں، یہ سب کو معلوم ہے۔ ہماری اوزون لیئر تو پھٹ ہی چکی ہے جس سے بے وقت بارشیں، طوفان وغیرہ کے مسئلے ہیں۔ ان ملوں اور فیکٹریوں کا فضلہ بھی آبی وسائل کو تباہ کررہا ہے۔ آخر جب سب کام ہاتھوں سے ہوتے تھے اُس وقت بھی تو دنیا چل رہی تھی، اب کیا مسئلہ ہوگیا ہے؟
ہم سب نے وہ قصہ تو پڑھ رکھا ہے کہ جب انگریزوں نے ہندوستان میں فیکٹریاں لگانی شروع کیں اُس وقت بنگال کا وہ ریشم بہت مشہور تھا جو وہاں کے کاریگر خود اپنے ہاتھوں سے بنایا کرتے تھے۔ ایک تھان ایک مٹھی میں آجاتا تھا۔ اتنا اعلیٰ درجے کا کپڑا… اِس کپڑے کے آگے فیکٹریوں سے مشینوں کا بنا ہوا کپڑا کیسے بکتا؟ اس مسئلے کا انگریزوں نے یہ حل نکالا کہ ریشم کے تمام بنگالی کاریگروں کے داہنے ہاتھ کے انگوٹھے کٹوا دیے۔
جب اتنی زیادہ پروڈکشن ہوگی تو اس کو کھپانے کی بھی جان لیوا کوششیں ہوں گی، لہٰذا ایسے رواج پروان چڑھائے گئے کہ جو عورت صرف عید اور بقرعید پر جوڑا بناتی تھی وہ ہر مہینے تین، تین جوڑے بنانے لگی، ایک بار پہنا ہوا جوڑا دوبارہ پہننا بے عزتی تصور کیا جانے لگا۔
یہ ترقی صرف یہیں تک نہیں رہی، ہمارے دستر خوانوں پر بھی آگئی۔ کیمیکل ڈال کر کیچپ، اچار، جام، جیلی، شربت، دودھ وغیرہ کو اس طرح تیار کیا جانے لگا کہ یہ لمبے عرصے تک خراب نہ ہوں۔ یہ تو فطرت سے جنگ ہے۔ کوئی بھی خوراک اپنے وقت پر خراب ہوگی، بس کیمیکل کی وجہ سے آپ کو مضر اثرات واضح نظر نہیں آئیں گے۔ اس کے علاوہ یہ کیمیکل خود صحت کے لیے بہت مضر ہے اور ہم خوش ہورہے ہیں کہ کتنی ترقی ہوگئی، دودھ ابالنا نہیں پڑتا، تین مہینے کا سودا لاکر گھر بھرلو، کوئی چیز خراب نہیں ہوگی۔ یہ ترقی نہیں ہے، آپ خوش ہیں کہ ترقی ہوگئی، فریج آگیا، سال بھر بقرعید کا گوشت محفوظ کرکے کھاتے رہیںگے۔ لیکن یہ آپ کی صحت کے لیے کتنا نقصان دہ ہے، آپ کو نہیں معلوم۔ یہ ترقی نہیں ہے، یہ نسلِ انسانی کو سینکڑوں نت نئی بیماریوں میں مبتلا کرنے کے طریقے ہیں۔
سادگی میں بہت ترقی ہے۔ میں چیلنج کرتی ہوں کہ آپ ایک سال تک سنتِ نبویؐ کے مطابق زمین پر بیٹھ کر، مٹی کے برتن میں بغیر چمچے کے ہاتھ سے کھانا کھائیں، مٹی کے برتن میں پانی پئیں۔ میں گارنٹی دیتی ہوں کہ آپ کی صحت پر بہت مثبت اثرات پڑیں گے۔ آپ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرح ہر کام اپنے ہاتھ سے کریں، ان کی طرح پیدل چلیں۔ وہ تو ایک شہر سے دوسرے شہر پیدل چلے جاتے تھے، بلکہ آپ اپنی نانی، دادی سے پوچھیں، کراچی میں بھی لوگ 1940ء اور 1950ء کے عشرے میں میلوں پیدل چلتے تھے۔ اگر ایک گھنٹے کی مسافت ہے تو مطلوبہ جگہ پیدل چلے جاتے تھے، ورنہ تانگے میں جاتے تھے جن سے نہ شور نہ فضائی آلودگی۔ پھولوں سے مہکتے باغ کی سی تازہ فضا تھی کراچی کی۔ مگر ہم نے اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ چھوڑ دیا۔ نکڑ سے دہی لینے جانا ہے تو بھی بائیک پر۔ پھر کیا ہوگا؟ اب ہر ٹی وی پروگرام میں فون کرکے لوگ ایک ہی مسئلہ پوچھتے ہیں کہ ہم کو موٹاپا کم کرنے کا طریقہ بتا دو۔ بھئی جب ہرکام مشین کرے گی تو آپ کو تو موٹا بھی ہونا ہے اور دس بیماریاں بھی لگیں گی۔
میں ہرگز یہ نہیںکہہ رہی کہ کار بیچ کر گدھا گاڑی خرید لو، پانی کی لائن کٹوا لو، میں تو صرف ترقی کے معنی سمجھا رہی ہوں، میں چاہتی ہوں کہ آپ ترقی اور بربادی میں فرق کرسکیں۔ کہا جاتا ہے کہ ان مشینوں سے وقت بچ گیا… کس لیے وقت بچ گیا! انٹرنیٹ کے لیے؟ ٹی وی کے لیے؟ بے ہنگم موسیقی کے لیے؟ اگر جو وقت بچا اُس میں آپ عبادت کرتے ہیں، کسی بیمار کی خدمت کرتے ہیں، یا کسی اَن پڑھ کو تھوڑا علم دیتے ہیں تو وقت بچانے کا فائدہ بھی ہے۔ لیکن آپ جس طرح وقت برباد کررہے ہیں بلکہ خود کو برباد کررہے ہیں، اس سے تو اچھا ہے وقت نہ ہی بچے۔
پنکھے، ائرکنڈیشنر اور ہیٹر وغیرہ سے آپ موسم اپنی مرضی کے مطابق بنا لیتے ہیں، لیکن کیا آپ کو معلوم ہے کہ یہ موسم بھی ترقی کی دین ہیں! پہلے موسم اتنے شدید ہوتے ہی نہیں تھے کہ ان مشینوں کی ضرورت پڑے۔ وقت پر بارش ہوتی تھی، نہ سردی زیادہ، نہ گرمی زیادہ، نہ زلزلے، نہ سیلاب زیادہ۔ فضائی آلودگی کی وجہ سے قدرت اتنی بے رحم ہوگئی۔ الٹا آپ AC اور ہیٹر کے مزے لوٹنے کے چکر میں تازہ ہوا سے بھی محروم ہوجاتے ہیں۔ پھر وہی صحت برباد۔ آپ اللہ کے حکم کے مطابق صرف اسکارف باندھنا شروع کریں، آپ کا ہیئر ڈرائر اور اسٹریٹنر کا خرچہ ختم، کنڈیشنر اور ہیئر اسٹائلسٹ کا خرچہ ختم۔ ورنہ سچی بات ہے ہمارے بچپن میں تو ایک لال صابن آتا تھا، اسی سے نہاتے، اسی سے منہ دھوتے، اسی سے سر دھوتے۔ یہ جسم کے ہر حصے کے لیے الگ دھونے کی چیز کا رواج نہ تھا۔ ظاہر ہے کہ جب ملیں چلانی ہیں تو لوگوں میں نئے نئے شوق بھی ڈالنے پڑیں گے۔
کئی چیزیں ہماری زندگی میں ایسی شامل کر دی گئی ہیں جو صرف پیسے کا ضیاع ہے، جن کا الگ سے کوئی فائدہ نہیں، جیسے کولڈ ڈرنک، چپس، مائیکرو ویو اوون، فیس واش، شیمپو، باڈی لوشن، جیلی، ببل، ٹافیاں، چاکلیٹ، ٹی وی، اسمارٹ فون اور ایک لمبی قطار۔ میری نانی بتاتی ہیں کہ ہجرت سے قبل انڈیا میں دودھ کی دکانوں میں کڑھائیاں چڑھی رہتی تھیں اور لوگ گرم گرم دودھ لے کر پیتے بھی اور گھر بھی لے جاتے۔ اچانک کچھ گاڑیاں روز آنے لگیں جو مفت میں سب کو چائے پلاتیں۔ تین سے چار سال کے عرصے میں پورا انڈیا چائے کا عادی ہوگیا جو ایک بے کار چیز ہے، اور چائے کی کمپنیاں آج تک کما رہی ہیں۔ سوچیے آج بھی اگر کثرت سے دودھ پینے کا رواج ہوتا تو لوگوں کی صحت کتنی شاندار ہوتی۔
پھر بجلی کی کمی کا رونا… بھائی تیس سال قبل بجلی سے صرف ایک پنکھا اور ایک بلب جلتا تھا، اب موبائل، ٹی وی، فریج، مائیکروویو، استری، ڈرائیر، ہیر ریموور مشین، بلینڈر، چوپر، ائر کنڈیشنر، سینڈوچ میکر اور نہ جانے کن کن چیزوں میں بجلی کا بے دریغ استعمال ہورہا ہے۔ جب زندگی کا ہر کام بجلی سے ہوگا تو بجلی تو کم پڑے گی۔ اس کا حل زیادہ، اور زیادہ بجلی بنانا نہیں، کیوں کہ جتنی بھی بنا لیں گے وہ کم ہی پڑے گی، بجلی کا استعمال تو بڑھتا ہی جارہا ہے۔ ہاتھ سے کام کرنے والے کاریگر نہیں، فیکٹریوں کو بجلی چاہیے۔ گھر کا ہر کام بجلی سے۔ آپ آخر کتنی بجلی بنائو گے؟ زندگی وہی بہتر ہے جو فطرت سے قریب تر ہو، ورنہ تباہی ہی تباہی ہے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’تو تم ایک ہی طرف رخ کرکے دین پر چلو (یعنی) فطرتِ الٰہی جس پر اللہ نے لوگوںکو پیدا کیا ہے، جو اللہ نے بنایا اس میں تبدیلی نہیں ہوسکتی، یہی سیدھا دین ہے اور اکثر لوگ نہیں جانتے۔‘‘ (سورہ روم، آیت 30)
انسان فطرت سے لڑکر خود اپنی اور اپنی زمین کی تباہی کا باعث بن رہا ہے۔ قدرت سے بغاوت کو ترقی نہیں کہتے۔ ترقی یہ نہیں کہ انسان ایٹم بم اور ہائیڈروجن بم بنا لے۔ ترقی یہ ہے کہ انسان آپس میں لڑنا چھوڑ دے، نہ کوئی جنگ ہو، نہ کسی ہتھیار کی ضرورت پڑے۔ پھر اس محبت اور امن کو ترقی کہا جاسکتا ہے۔ ترقی یہ نہیں ہے کہ کم سے کم محنت میں کام ہوجائے، ترقی یہ ہے کہ انسان دوسروںکے کام آنا سیکھ جائے، بوڑھوں اور بیماروںکی مدد کرے۔ ترقی یہ نہیں ہے کہ نئے نئے علاج دریافت کیے جائیں، ترقی یہ ہے کہ ایسا اعلیٰ معیارِ زندگی ہو کہ کوئی بیمار ہی نہ پڑے۔ کیا فائدہ ایسی ترقی کا کہ روز نئی نئی بیماریاں انسان پر حملہ آور ہوں، کوئی کسی مجبور کی مدد نہ کرے اور سب انسان ایک دوسرے کو جان سے مارنے کی فکر میں ہوں۔
اچھا چلیں ہم یہ نہیں کہتے کہ مشینوں کی وجہ سے بے روزگاری بڑھی ہے، جو کام دس لوگ مل کر کرتے تھے، اب وہ ایک مشین کرلیتی ہے۔ لیکن آپ بتائیے کہ کیا واقعی مشینوں سے وقت کی بچت ہوتی ہے؟ ہمارے بڑوں کے پاس تو اتنا وقت ہوتا تھا کہ ہر رشتے دار کے گھر بھی جاتے تھے، محلے میں بھی سب سے تعلقات تھے، نیکی وبھلائی کے کاموں کے لیے بھی وقت نکال لیتے تھے۔ مگر آج تو کسی کے پاس دو منٹ بھی نہیں ہیں، سب انتہائی مصروف ہوگئے ہیں۔ پہلے لوگوںکے پاس گھڑی نہیں ہوتی تھی مگر وقت ہوتا تھا، اب سب کے پاس گھڑی تو ہے مگر وقت نہیں۔ پہلے مروت تھی، اب صرف خودغرضی ہے۔ ان مشینوں نے ہم کو بھی مشینوں جیسا پتھر دل کردیا ہے، کوئی انسانی جذبات ہی نہیں رہے۔ آپ خود گواہ ہیں کہ اس ترقی نے اخلاقیات کو کس قدر تباہ کیا ہے۔ تہذیب، اقدار، روایات سب ختم… صرف فیشن، اسٹائل اور ٹو دی پوائنٹ… اسپیڈ اور کمرشل ازم… پرافٹ اور جگاڑ… یہی ہے ترقی۔