سرزمین فلسطین اور صیہونی خنجر

594

مظفر احمد ہاشمی
اللہ کا فرمان
قرآن پاک میں سورۂ المائدہ میں اللہ پاک فرماتا ہے (ترجمہ)
’’اے لوگوں! جو ایمان لائے ہو، یہودیوں اور عیسائیوں کو اپنا رفیق نہ بنائو، یہ آپس میں ہی ایک دوسرے کے رفیق ہیں۔ اور اگر تم میں سے کوئی ان کو اپنا رفیق بناتا ہے تو اس کا شمار بھی انہی میں ہے، یقینا اللہ ظالموں کو اپنی رہنمائی سے محروم کردیتا ہے (۵:۵۱)
تاریخ شاہد ہے کہ یہود و نصاریٰ نے مسلمانوں کے ان کے ساتھ رواداری اور حسنِ سلوک کے باوجود مسلمانوں کا کبھی ساتھ نہیں دیا۔ رسول اکرمﷺ نے جب مدینۃ النبیؐ میں پہلی اسلامی ریاست قائم کی تو یہودیوں نے اس کے خلاف سازشوں کے جال بُن دیئے اور رسول اللہ ﷺ اور مسلمانوں کو ہر طرح زک پہنچانے کی ناپاک کوششیں کیں لیکن اللہ کے کرم اور مسلمانوں کے جہاد فی سبیل اللہ کی وجہ سے ہمیشہ منہ کی کھائی، عیسائی مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگوں کے ذریعے ان کو صفحہ ہستی سے مٹانے کے درپے رہے مگر کامیاب نہ ہوسکے۔ ترکوں کی عظیم الشان سلطنت عثمانیہ کے خلاف یہود و نصاریٰ اکٹھے ہوگئے اور سازشوں کے جال ہر طرف پھیلادیئے۔ عرب علاقوں میں عرب نسل پرستی کا بیج بوکر عرب قبائل کو ترکوں کے خلاف بغاوت پر اکسایا اور لارنس آف عربیا کے ذریعے عظیم الشان مسلم سلطنت ’’سلطنت عثمانیہ‘‘ کو پارہ پارہ کرنے میں اہم کردار ادا کیا۔
دوسری جنگ عظیم میں طاغونی قوتوں اور صیہونیوں کا گٹھ جوڑ
رسوائے زمانہ اور صیہونیت اور عیسائیت کے گٹھ جوڑ اور مسلم دشمنی کا آئینہ اور منہ بولتے اعلانِ بالفور کو نومبر میں پورے سو سال ہوجائیں گے۔ نومبر ۱۹۱۷ء میں برطانوی حکومت نے صیہونیوں کو وہ پروانہ دیدیا جو اعلانِ بالفور کے نام سے مشہور ہے۔
یہ انتہائی افسوس کا مقام ہے کہ برطانیہ صد سالہ جشنِ بالفور منارہا ہے اور اس میں شرکت کے لیے اس نے اسرائیل کے وزیراعظم نیتن یاہو کو مدعو بھی کیا ہے۔ وزیراعظم برطانیہ تھریسا مے نے پارلیمنٹ میں یہ کہا کہ ہمیں اس بات کا فخر حاصل ہے کہ ہم نے اسرائیل کے قیام میں بنیادی کردار ادا کیا اور ہم ہمیشہ اعلان بالفور کی سالگرہ بڑے کرّوفر سے مناتے رہیں گے جبکہ اس کے برخلاف لیبر پارٹی کے سربراہ جیریمی کوربن نے جو ہمیشہ فلسطینیوں کی حقوق کی حمایت کرتے رہے ہیں، انہوں نے اس جشن میں شرکت سے انکار کردیا ہے اور ان کی پارٹی نے وزیراعظم سے مطالبہ کیا ہے کہ اس موقع پر برطانیہ فلسطین کو باقاعدہ طور پر تسلیم کرنے کا اعلان کرے۔ یہ وہی منحوس اعلامیہ ہے جس کا برطانوی حکومت جشن منارہی ہے اور جس کے نتیجے میں فلسطینی قوم اپنی سرزمین سے محروم ہوگئی کیونکہ برطانیہ، امریکہ اور روس کی حمایت سے صیہونیوں نے اس پر قبضہ کرلیا جو آج بھی قائم و دائم ہے اور جس کے نتیجے میں لاکھوں فلسطینی بے گھر ہوئے اور ہزاروں اپنی جان سے گئے اور لاکھوں دوسرے ملکوں میں پناہ گزینوں کی حیثیت سے کسمپرسی کی زندگی گزار رہے ہیں اور بیشمار فلسطینی خود اپنی سرزمین پر یعنی مقبوضہ بیت المقدس اور اسرائیلی تسلط کے زیر تحت بدترین غلامانہ زندگی گزار رہے ہیں۔
برطانیہ گزشتہ سات دہائیوں سے اپنے ہی جاری کردہ اعلان بالفور کی اعلانیہ خلاف ورزی کررہا ہے جبکہ اس اعلامیہ میں کہا گیا تھا کہ کوئی ایسا اقدام نہیں کیا جائے گا کہ جس سے فلسطین میں غیریہودی آبادی یعنی فلسطینی عرب اپنی شہری اور مذہبی آزادی سے محروم ہوں۔
اعلان بالفور کی تاریخ
۲ نومبر ۱۹۱۷ء کو برطانیہ کا وزیرخارجہ ارتھر جیمس بالفور، برطانیہ کے سب سے زیادہ ممتاز اور بااثر یہودی شہری بیرن والٹر رتھ چائلڈ (Baron Walter Rothchild) کے نام ایک خط میں لکھتا ہے کہ برطانوی حکومت، فلسطین کی سرزمین پر ایک صیہونی ریاست بنانے کی حمایت کرتی ہے اور اس کے قیام میں عملی مدد بھی فراہم کرے گی۔
اس سے پہلے دسمبر ۱۹۱۶ء میں ڈیوڈ لائڈ جارج انتخابات میں برطانیہ کے وزیراعظم منتخب ہوگئے تھے، جنہوں نے کھلے عام صیہونی ریاست کی حمایت کا اعلان کردیا جس کی تحریک برطانیہ میں ایک روسی یہودی کیم وائزمین (Chaim Weizman) نے چلارہا تھا۔ یہودیوں نے دوسری جنگ عظیم کے موقع پر برطانیہ کو بھرپور مالی امداد فراہم کی جس کے عوض وہ برطانیہ کی حکومت سے سلطنت عثمانیہ کی اتحادیوں کے ہاتھوں شکست کے بعد اور برطانیہ کی ریشہ دوانیوں سے عربوں کے علاقے کے حصے بخرے کرکے چھوٹی چھوٹی عرب ریاستوں کے قیام کے بعد عرب سرزمین میں اسرائیل کا خنجر گھونپنے میں کامیاب ہوگئے۔ یہودیوں کو عرب سرزمین میں بسانے میں تمام طاغوتی طاقتیں متفق تھیں جن میں روس، امریکہ، برطانیہ اور فرانس سب شامل تھے۔
اعلان بالفور کے وقت فلسطین میں یہودیوں کی کل آبادی پانچ فیصد بھی نہ تھی۔ اس موقع پر لارڈ بالفور اپنی ڈائری میں لکھتا ہے: ہمیں فلسطین کے متعلق کوئی فیصلہ کرتے ہوئے وہاں کے موجودہ باشندوں سے کچھ پوچھنے کی ضرورت نہیں ہے۔ صیہونیت ہمارے لیے ان سات لاکھ عربوں کی خواہشات اور تعصبات سے بہت زیادہ اہمیت رکھتی ہے جو اس قدیم سرزمین میں اِس وقت آباد ہیں۔‘‘
1917ء میں یہودی آبادی جو صرف 25 ہزار تھی وہ پانچ سال میں بڑھ کر 38 ہزار کے قریب ہو گئی۔ 1922ء سے 1939ء تک ان کی تعداد ساڑھے چار لاکھ تک پہنچ گئی۔ جنگ عظیم دوم کے زمانے میں ہٹلر کے مظالم سے بھاگنے والے یہودی ہرطریقے سے بے تحاشہ فلسطین میں داخل ہونے لگے۔ انہوں نے مسلح تنظیمیں قائم کیں، جنھوں نے ہر طرف مار دھاڑ کر کے عربوں کو بھگانے اور یہودیوں کو ان کی جگہ بسانے میں سفاکی کی حد کر دی۔
برطانیہ نے فلسطین اور اسرائیل کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کردیا
1947ء میں برطانوی حکومت نے فلسطین کا مسئلہ اقوام متحدہ میں پیش کر دیا نومبر 1947ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے فلسطین کو یہودیوں اور عربوں کے درمیان تقسیم کرنے کا فیصلہ صادر کر دیا۔ اس کے حق میں 33 ووٹ اور اس کے خلاف31 ووٹ تھے۔ دس ملکوں نے کوئی ووٹ نہیں دیا۔ امریکہ نے زبردستی اور ناجائز طور پر غیرمعمولی دباؤ ڈال کر ہائیٹی، فلپائن اور لائبیریا کو مجبور کر کے اس کی تائید کرائی۔ یہ بات خود امریکن کانگریس کے ریکارڈ پر موجود ہے کہ یہ تین ووٹ زبردستی حاصل کیے گئے تھے۔ تقسیم کی جو تجویز ان ہتھکنڈوں سے پاس کرائی گئی، اس کی رو سے فلسطین کا 55 فیصد رقبہ 33 فیصد یہودی آبادی کو، اور 45 فیصد رقبہ 67 فیصد عرب آبادی کو دیا گیا۔ حالانکہ اس وقت تک فلسطین کی زمین کا صرف 6 فیصد حصہ یہودیوں کے قبضے میں آیا تھا۔ اس کے باوجود یہودیوں نے مار دھاڑ کر کے عربوں کو نکالنا اور ملک کے زیادہ سے زیادہ حصے پر قبضہ کرنا شروع کر دیا۔ آرنلڈ تائن بی اپنی کتاب A Study of History میں لکھتا ہے کہ: وہ مظالم کسی طرح بھی ان مظالم سے کم نہ تھے جو نازیوں نے خود یہودیوں پر کیے تھے۔ کتاب میں دیریا سین میں 9 اپریل 1948ء کے قتل عام کا خاص طور پر ذکر ہے، جس میں عرب عورتوں، بچوں اور مردوں کو بے دریغ موت کے گھاٹ اتارا گیا اورعرب عورتوں اور لڑکیوں کا برہنہ جلوس نکالا گیا اور صیہونی جگہ جگہ یہ اعلان کرتے پھر رہے تھے کہ: ’’ہم نے دیریا سین کی عرب آبادی کے ساتھ جو کیا ہے، اگر تم نہیں چاہتے کہ تمہارے ساتھ بھی یہی کچھ ہو تو یہاں سے نکل جائو‘‘۔
صیہونی ریاست کا باقاعدہ اعلان
ان حالات میں 14مئی 1948ء کو عین اس وقت جبکہ اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی فلسطین کے مسئلہ پر بحث کر رہی تھی، یہودی ایجنسی نے رات کے دس بجے اسرائیلی ریاست کے قیام کا باقاعدہ اعلان کر دیا اور سب سے پہلے امریکہ اور روس نے اس کو تسلیم کرلیا۔ حالانکہ اس وقت تک اقوام متحدہ نے یہودیوں کو فلسطین میں اپنی قومی ریاست قائم کرنے کا مجاز نہ کیا تھا۔ اس اعلان کے وقت تک 6 لاکھ سے زیادہ عرب گھر سے بے گھر کیے جا چکے تھے اور اقوام متحدہ کی تجویز کے بالکل خلاف یروشلم (بیت المقدس) کے آدھے سے زیادہ حصے پر اسرائیل قبضہ کر چکا تھا۔ پس یہی ہے وہ منحوس دن جس کو تاریخِ فلسطین میں یوم نکبہ کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔
۱۹۶۷ء میں عرب اسرائیل جنگ کے بعد
اسرائیل نے اس جنگ میں پیش قدمی اور پہل کرکے مصر کی ساری فضائی قوت کو اس کے اپنے ہوائی اڈوں پر تباہ کرکے رکھ دیا، صحرائے سینا پر قبضہ کرلیا، بیت المقدس پر قبضہ کرلیا اور شام کی گولان کے سارے پہاڑی سلسلے پر قبضہ کرلیا جس کے بعد مزید ہزارہا فلسطینی بے گھر ہوکر اردن، شام، لبنان اور دیگر مسلمان ملکوں میں پناہ لینے پر مجبور ہوگئے۔ اسرائیل نے امریکی پشت پناہی پر پورے مقبوضہ بیت المقدس میں صیہونیوں کی بستیاں بسانا شروع کردیں اور اس کی اس ریاستی دہشت گردی میں امریکہ کھلے عام اور دوسرے اسلام دشمن ملک درپردہ اس کی بھرپور مدد کرتے رہے۔
اکتوبر ۱۹۷۳ء میں جو ’’جنگِ رمضان‘‘ کے نام سے مشہور ہے مصری فوج نے جنگ شروع کرکے صحرائے سینا کا علاقہ نہ صرف واپس لے لیا بلکہ اسرائیل کے ناقابلِ شکست ہونے کا بت بھی پاش پاش کردیا۔
دنیا اور عالمِ اسلام کی بے حسی
15 مئی 1948ء کو ناجائز وجود پانے والی اسرائیلی ریاست کے قیام کو تقریباً ستر سال ہونے والے ہیں۔ یہ تمام عرصہ ایک طرف تو عالم اسلام کی اجتماعی بے حسی اور مظلوم فلسطینیوں سے مسلم حکمرانوں کے منافقانہ رویوں کی طویل اور دردناک داستانوں سے بھرا ہوا ہے تو دوسری طرف یہ ماہ و سال ظلم و بربریت وحشت و درندگی کی قدیم و جدید تاریخ سے بھرپور اور سفاکیت کے انمٹ مظاہروں کی خوفناک کہانیاں پیش کرتے ہیں۔ ارضِ مقدس فلسطین میں ہر دن قیامت بن کر آتا ہے، ہر صبح ظلم و ستم کی نئی داستان لے کر طلوع ہوتی ہے، ہر لمحہ بے گناہوں کے خون سے، گھر بار، سڑکیں، بازار، مساجد و عبادت گاہیں، سکول و مدارس کو تر کرنے کا پیغام لے کر آتا ہے۔
سوفیصد ناجائز ریاست اسرائیل کے درندہ صفت حکمرانوں نے ان برسوں میں خون آشامیوں کی جو تاریخ رقم کی ہے اس کی مثال تاریخ کے صفحات بیان کرنے سے قاصر ہیں۔کون سا ظلم ہے، جو بے گناہ، معصوم اور مظلوم ارض مقدس فلسطین کے باسیوں پر روا نہیں رکھا گیا بلآخردرماندہ، ظلم و ستم کی چکی میں پسنے والے اور اپنے وطن، گھر اور آبائی سرزمین کے حصول کی خواہش رکھنے والے فلسطینیوں نے استعماری سازشوں کا مقابلہ اور اسرائیلی مفادات کو نقصان پہنچانے کیلئے کارروائیاں شروع کیں۔ دوسری طرف اسرائیل کو عالمی طاقتوں بالخصوص امریکہ نے نہ صرف مالی و فوجی امداد دی اور ہر قسم کا تعاون کیا بلکہ اقوام متحدہ میں پیش ہونے والی اسرائیل مخالف قراردادوں کو ویٹو کرنا بھی امریکہ نے اپنا وطیرہ بنا لیا، جبکہ امریکہ، اسرائیل کے خلاف اقوام متحدہ کی پاس کردہ قراردادوں پر عمل درآمد بھی نہیں ہونے دیتا۔ اس کشمکش میں اسرائیل نے لبنان پر بھی حملے کیے اور لبنان کے کئی علاقوں پر بھی قابض ہو گیا۔ یوں تحریک آزادی فلسطین کے بعد مزاحمت اسلامی لبنان نے بھی جنم لیا اور اسرائیل کی توسیع پسندی و تشدد پسندی کے خلاف قربانیوں کی داستانیں رقم کرنے کا سلسلہ شروع کیا۔
جہاد اور شہادت کا راستہ
ایک طرف تو یہ ظلم و ستم بڑھتا رہا اور دوسری طرف ظلم و سازشوں اور اپنوں کی بزدلی و منافقت کے شکار ارضِ مقدس فلسطین اور لبنان کے باسیوں میں ظالموں جابروں، ستم گروں اور منافقوں سے نفرت اور حقیقی قیادت و صالح مقاصد کے حصول کا جذبہ فروغ پاتا رہا۔ لبنان میں امریکی، فرانسیسی اور صیہونی فوجیوں کے خلاف خودکش دھماکوں کا سلسلہ شروع ہوا تو یہ لوگ دم دبا کر بھاگ کھڑے ہوئے اور فلسطین میں حماس اور جہادی تحریکوں نے رفتہ رفتہ زور پکڑا اور آپس کے اختلافات کو پسِ پشت ڈال کر غاصب یہودیوں کے خلاف کارروائیوں کو تیز کیا۔اسرائیل کے غاصبانہ قبضے کے خلاف نہتے فلسطینیوں کی پتھر سے شروع ہونے والی تحریک غلیل سے ہوتی ہوئی کلاشنکوف اور راکٹ لانچر کے بعد میزائلوں تک پہنچ چکی ہے۔
آج فلسطین کی غیور ملت نے مزاحمت اور جہاد و شہادت کا راستہ اختیار کر لیا ہے۔ ارض فلسطین کی آزادی کیلئے ان سات عشروں میں ہزاروں لوگ اپنی جانوں کے قیمتی نذرانے پیش کر چکے ہیں، ان میں عام لوگ بھی ہیں اور تحریک آزادی کے قائدین اور مجاہدین بھی۔ گذشتہ برسوں میں شیخ احمد یٰسین، ڈاکٹر رنتیسی اور حماس و جہاد اسلامی کے قائدین نے شجاعت کی بے مثل داستانیں رقم کی ہیں۔
آج کا فلسطینی بچہ اور جہاد و شہادت کی گھٹی
آج فلسطین کے اندر یا باہر پیدا ہونے والے ہر فلسطینی بچے کو جہاد و شہادت کی گھٹی دی جاتی ہے، ان کے کانوں میں شہادت و جہاد کے شعار کی اذان دی جاتی ہے۔ فلسطین کی عظیم مائیں ایثار و قربانی کے جذبہ سے سرشار ہو کر اپنے بچوں کی تربیت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر عالمی سازشوں، ظلم و تشدد اور منافقت کے پروردوں کی غداری کے باوجود یہاں پر ارضِ مقدس فلسطین کی آزادی اور یہودیوں کو یہاں سے مکمل طو ر پر نکال باہر کر دینے کے جذبات اور احساسات غالب آچکے ہیں۔ آج ہر فلسطینی بچہ، بزرگ، نوجوان، خواتین، اس عزم پر آمادہ و تیار نظر آتے ہیں کہ وہ اپنی گردنیں تو کٹوا سکتے ہیں، لیکن ارضِ مقدس فلسطین پر ناپاک صہیونی قبضہ کسی صورت برداشت نہیں کریں گے اور اپنی مقدس سرزمین کا ایک ایک انچ اسرائیلی قبضے سے آزاد کراکر رہیں گے۔