سوال

388

ہاجرہ ریحان
دوسری قسط
میں تو جیسے اس کو نظر ہی کم آتی تھی… اور سچ بات ہے کہ میری نظروں میں بھی وہ کم ہی سماتا تھا… پھر وہ اسکالرشپ لے کر ملک سے باہر پڑھنے چلا گیا اور پھر اکثر امی جان کہتی سنائی دیتیں کہ ’’وہ ہوتا تو ہم اتنے بے بس نہ ہوتے، ابھی پیسہ دیتے، جھٹ سامان حاضر کردیتا۔‘‘
بڑی پھوپھی بس خط کتابت تک پڑھی لکھی تھیں۔ دونوں ماں بیٹے میں خط کتابت ہوتی رہی اور پھر جب وہ پڑھ کر واپس آیا تو اس نے الگ مکان لے کر بڑی پھوپھی کو پچیس سال بعد اپنی چھت دی۔ اُس زمانے میں مَیں میٹرک کررہی تھی اور شاید وہی وقت تھا جب میں نے اُس کے بارے میں سننا اور سن کر سمجھنا شروع کیا تھا۔ بڑی پھوپھی اکثر ملنے آجاتیں اور آکر اس کے قصے سناتی رہتیں۔ باجی تو شادی کرکے اپنے پیا دیس سدھار چکی تھیں، بڑے بھیا ہمیشہ کے مصروف… کوئی بہانہ بناکر اٹھ جاتے۔ رہ گئی میں اور امی، جو بڑی پھوپھی سے بہت انسیت رکھتی تھیں، دونوں باتوں میں لگ جاتیں جیسے صدیوں سے ملاقات نہ ہوئی ہو، جب کہ میں ٹی وی پر چینل بدلتی رہتی… جب مجھے کوئی بات سننی ہوتی تو ریموٹ پر میری تیزی سے چلنے والی انگلیوں کی رفتار دھیمی پڑ جاتی، آواز بھی کم کردیتی، جب کہ اُس کی بات جب بھی بڑی پھوپھی چھیڑتی تھیں میں ایک ہی چینل پر اٹک جاتی۔
اور پھر اس ایک واقعے کے بعد تو میں ویسے بھی اُس کو بھلانا نہیں چاہتی تھی، نہ ہی بھول سکتی تھی۔ وہ ہمارے خاندان کا سب سے لائق بچہ ابھر کر سامنے آیا تھا۔ اُس نے نہ صرف اپنی والدہ بلکہ بابا جانی کو بھی سرخرو کردیا تھا۔ اس کی لائقی کے ہر جگہ ڈنکے بج رہے تھے… وہ ہر طرح سے مختلف تھا، اس کی سوچ مثبت تھی، وہ حق بات بڑے آرام سے کہہ ڈالتا تھا… وہ باقاعدگی سے بابا جانی کے پاس حاضر ہوتا، اپنے بزنس کے بارے میں تفصیل سے بتاتا، اور بابا جانی اُس کی ہر بات پر ہاں میں ہاں ملاتے تھے۔ اُس کی مصروفیت کبھی بھی اس روٹین میں حرج نہ ڈال سکتی، اور یہ بات اُس کو ہمارے خاندان میں اور بھی معتبر کرچکی تھی۔
انٹر کے بعد جب مجھے گھر بیٹھ جانے کو کہا گیا تو میں بلبلا اٹھی۔ مجھے تو ابھی آرکی ٹیکچر میں ڈگری لینی تھی اور پھر آرکی ٹیکٹ بننا تھا، خوب صورت عمارتیں بنانی تھیں اور بڑے بڑے پُلوں کی تعمیر میں اپنا حصہ ڈالنا تھا۔ میں یونیورسٹی سے باقاعدہ ڈگری لینے کی تیاری کررہی تھی۔ سب سے بڑا مسئلہ امی جان کا تھا، مگر اُس نے کچھ اس طرح بابا جانی کو شیشے میں اتارا کہ وہ مجھے اجازت دے بیٹھے۔ مجھے بڑی حیرت ہوئی کہ اُس کو میرے ارادوں کی خبر کیسے ہوئی! مگر جیسے بھی ہوئی، خوب ہوئی۔
میرے نمبر اچھے تھے لہٰذا داخلہ بڑی آسانی سے مل گیا اور میں آرکی ٹیکچر کی تعلیم کے لیے باقاعدہ یونیورسٹی جانے لگی۔ وہ جب بھی گھر آتا امی جان ایک ہی رونا روتیں کہ اللہ جانے یہ کیسی پڑھائی ہے کہ اس میں مجھے سارا سارا دن عجیب و غریب قسم کے نقشے، کبھی الٹی سیدھی لکیریں تو کبھی گتے کے ٹکڑوں سے چھوٹے چھوٹے گھر بنانے پڑتے ہیں۔
’’یہ اس کی تعلیم کا حصہ ہے ممانی جان، آپ اتنی فکر نہ کیا کریں۔‘‘ وہ ہنس ہنس کر امی جان کو دلاسہ دیا کرتا تھا… ساتھ کے ساتھ میری اُس سے دوستی ہوگئی۔ اب اکثر فون پر باتیں بھی کرلیتے تھے۔ وہ مجھے بتاتا کہ اس نے کون کون سے ٹینڈر حاصل کرلیے، کس کو چھوڑ دیا، اس کو اب کون سی شپمنٹ کہاں بھیجنی ہے۔ میں اس کو انہماک سے سنتی جاتی۔ کبھی میں اس سے اپنی پڑھائی کے بارے میں بات بھی کرتی تو وہ یہ کہہ کر بات بدل دیتا کہ اسے آرکی ٹیکچر کے بارے میں کیا معلوم…! گو کہ دیکھا جائے تو معلوم تو مجھے بھی اُس کے بزنس کے بارے میں کچھ نہیں تھا مگر میں اپنی سی کوشش کرکے سنتی تھی اور ساتھ ساتھ سمجھنے کی کوشش بھی کرتی تھی۔
وہ چار سال بہت خوب صورت گزرے، سب کچھ اچھا ہی رہا۔ زندگی بہت پُرسکون اور مزے میں آگے بڑھ رہی تھی… آخری سیمسٹر کا آخری پرچہ تھا کہ مجھے میرے ایک استاد نے اپنی ہی کمپنی میں جونیئر آرکی ٹیکٹ کی جاب آفر کردی، جس پر میں نے خوشی سے سرشار ہوکر اُس سے مشورہ کیا۔ اُس نے حسبِ معمول میری بات ٹال دی کہ ابھی سے خودکو کیوں ہلکان کیا جائے! رزلٹ تو آجائے۔ گو کہ میرے پچھلے ریکارڈ سے واضح تھا کہ میں اچھے نمبروں سے ہی پاس ہوجائوں گی… میں بھی آرام کرنے کا سوچ کر رزلٹ کا انتظار کرنے لگی۔ رزلٹ آیا تو میری خوشی دگنی ہوگئی۔ میرا ایسا گریڈ تھا کہ مجھے اچھی سے اچھی آرگنائزیشن میں بھی جاب مل سکتی تھی۔ اور جب میں نے بابا جانی سے نوکری کے بارے میں سوال کیا تو امی نے صاف انکار کردیا کہ پڑھائی تک کافی ہے، نوکری کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ایک بار پھر میں اُس کی مدد کی طلب گار ہوئی اور اس ایک دن اسی لیے اُس کے آفس ملنے گئی تھی… اُسے معلوم تھا۔ ہم فون پر بھی ایک بار جھگڑ چکے تھے… پھوپھی جان بارات لانے کے لیے تیار بیٹھی تھیں جب کہ میں کچھ سال سکون سے اپنے پروفیشن میں آگے بڑھنے کی دھن میں تھی۔ میں سوچ کر آئی تھی کہ اُس کو سمجھائوں گی، ہم دونوں مل کر بیچ کا کوئی راستہ نکال لیں گے۔ مگر وہ تو میری بات سرے سے رد کرچکا تھا۔ یہ بات میرے لیے ناقابلِ یقین کی حد تک جا چکی تھی کہ اُس جیسا سیلف میڈ بندہ بھی عورتوں کی نوکری کے خلاف بات کرے گا۔ کیا صرف ضرورت ہی عورت کو گھر سے باہر نکالتی ہے…؟ آخر ایسا کیوں ہے کہ ہمارے معاشرے میں عورت کے گھر سے باہر نکلنے کو ضرورت ہی کے تحت برداشت کیا جاتا ہے؟ کیا ہمارا اپنا کوئی شوق، کوئی مقصد نہیں ہوسکتا؟ وہ مجھے سوچ میں ڈوبا دیکھ کر پھر سے گویا ہوا:
’’تم سمجھتی کیوں نہیں، یہ سب بچوں کی باتیں ہیں۔ پھر تم کو نوکری کرنے کی ضرورت ہی کیا ہے! میں اچھا کماتا ہوں، تم کو تمہارے میکے سے زیادہ آرام دوںگا، اور میں نہیں چاہتا کہ تم نوکری کرکے گھر پر توجہ نہ دو… میں چاہتا ہوں کہ جب میں تھک کر گھر آئوں تو میرا گھر صاف ستھرا مہکتا ملے، تم مجھے ہنستی مسکراتی ملو۔ نوکری کرکے تو تم تھک جایا کرو گی۔ تم کو کیا معلوم کہ ایسے پروفیشن میں کیسے کیسے لوگوں سے واسطہ پڑتا ہے! جب تک کنسٹرکشن چلتی رہتی ہے آرکی ٹیکٹ دھوپ، گرمی کی پروا کیے بغیر سائٹ پر دیکھنے جاتا ہے۔ ایک مزدور جیسا شخص بھی اس کے قریب کھڑا ہوکر ہدایات لیتا ہے، تم یہ سب کیسے کرو گی… کبھی سوچا بھی ہے! تم کو پڑھنے کا شوق تھا پورا کرلیا، نوکری کی ضد چھوڑو۔ کیا تم ان مزدور ٹائپ لوگوں کے ساتھ ایسی ایسی جگہوں پر جائو گی جہاں پر ابھی بلڈنگ بن رہی ہو، دھول ہو اور تم…‘‘ میں اتنا ہی سن کر ایسا زچ ہوچکی تھی کہ کچھ بھی کہنے کی ہمت نہ ہوتے ہوئے جذباتی ہوکر کھڑی ہوگئی تھی۔ میں سمجھ گئی تھی کہ اس کا مقصد صرف میرے حوصلے پست کرنا تھا۔
’’میں نے امی سے کہہ دیا ہے، وہ کل تاریخ لینے آرہی ہیں۔‘‘ اُس نے مجھے بے دلی سے باہر کی طرف قدم بڑھاتے دیکھ کر لگاوٹ سے بتایا۔
میں کچھ بھی کہنے کے موڈ میں نہ تھی، میں نے آج تک جس کو اپنا آئیڈیل بنایا تھا وہ ایک دھوکا تھا… جس کی دو زبانیں تھیں، جس کے دو اسٹینڈرڈ تھے، جو بہت دھڑلے سے عورتوں کے لیے پروفیشن کی ڈیمانڈ تو کرتے ہیں مگر اپنی عورتوںکو گھر میں کسی سجائی جانے والی چیز کی طرح ایک حد میں، ایک احاطے میں رکھتے ہیں۔ اُس کے لیے میرا پڑھا لکھا ہونا بس یہاں تک تھا کہ وہ اپنے جاننے والوں میں فخر سے بتا سکے کہ اس نے اتنی پڑھی لکھی عورت سے شادی کی ہے، اور ہاں اس کی بیوی تو اپنی ہی مرضی سے گھر بیٹھ گئی ہے ورنہ اس نے تو کبھی اس پر کوئی روک ٹوک نہ لگائی۔
اسٹیج پر نکاح کے بعد مجھے لاکر بٹھا دیا گیا تھا۔ شرم سے رنگت خودبخود گلابی ہورہی تھی، جبکہ جھکی جھکی آنکھوں میں کاجل چبھ رہا تھا۔ ہر دو ایک لمحوں بعد کوئی دوست یا کزن آکر میرے کان میں چپکے سے میرے حسن کی تعریف کرجاتی تھی جس کو سن کر میں بے اختیار مسکرا دیتی۔ کھانے کے بعد ہم دونوںکو ایک ساتھ بٹھا دیا گیا اور مختلف قسم کے کیمرے… لوگ جوق در جوق اسٹیج پر آنے کے لیے لائن لگا کر کھڑے تھے۔
ہر طرف سے ایک ہی صدا آرہی تھی ’’سامنے دیکھیں… مسکرائیں…‘‘ ہر کوئی آکر سلامی کے ساتھ مبارک باد کے چند جملے بھی بول جاتا تھا، اور جو قریبی تھے وہ یہ پوچھنا نہ بھولتے کہ ہنی مون کے لیے جوڑا کہاں کہاں جائے گا اور کب تک واپسی ہوگی؟ سب معلومات کے بعد ہی معذرت کرتے کہ وہ دراصل شادی کی دعوت کرنی ہے اسی لیے پوچھ رہے ہیں… میں مسکراتے مسکراتے تھک گئی۔ ایک طرح کے مذاق سن سن کر دماغ پک گیا تھا، اور ایک بات بار بار دل کو جھنجھلائے دے رہی تھی۔ اتنے لوگوں نے میرے شوہر سے اُس کی آئندہ زندگی کے پلان کے بارے میں پوچھا تھا… اُس سے نئی زندگی کو بڑھانے اور پھر کس طرح سیٹل ہونے کا پوچھا تھا۔ مگر کسی نے بھی ایک بار بھی مجھے اس قابل نہیں سمجھا تھا کہ جھوٹے منہ ہی سوال کرلیتا کہ تم شادی کے بعد اپنی پرسنل لائف کے ساتھ ساتھ اپنی پروفیشنل لائف کا باقاعدہ آغاز کروں گی یا نہیں؟ سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ (جاری ہے)