سیف الرحمن
سفیان کا پڑھائی میں دل نہیں لگتا تھا لیکن وہ امتحانوں میں نقل کرکے ہمیشہ پہلا نمبر آتا تھا۔ اس کے پہلے نمبر آنے پر وہ خود اور اس کے گھر والے خوش تو بہت ہوتے تھے پر اس کے گھر والے حیران بھی ہوتے تھے کیونکہ وہ لوگ سفیان کو پڑھائی کرتے بہت کم اور کھیل کود کرتے اور سائیکل چلاتے سارا دن دیکھتے تھے۔ اسے سائیکل چلانے کا بہت شوق تھا۔ وہ اسکول سے گھر آتا اور سائیکل چلانے باہر چلا جاتا تھا۔
ایک دن اس نے اسکول سے آکر بیگ چارپائی پر پھینکا اور یونیفارم تبدیل کرکے سائیکل چلانے نکل گیا۔ چلاتے چلاتے اس کی سائیکل خراب ہوگئی۔ اس نے وہیں پر کھڑے کھڑے سائیکل بنانے کی کوشش کی لیکن سائیکل نہیں بنی پھر وہ گھر آیا اور اپنے ابو کو سائیکل ٹھیک کرکے دینے کے لیے کہا لیکن اس کے ابو نے اسے ڈانٹ دیا کہ پہلے اپنی پڑھائی پر دھیان دو پھر یہ سائیکل چلاؤ۔ باپ کی ڈانٹ پر باپ سے خفا ہوکر اس نے خود ہی سائیکل بنانے کا پکا ارادہ کیا اور گھر کے ایک کونے میں بیٹھ کر اپنی پوری محنت، لگن اور سچائی سے سائیکل ٹھیک کرنے میں مصروف ہوگیا۔ اس کی سچی لگن اور محنت کی وجہ سے سائیکل بن بھی گئی۔ جس پر وہ خوشی خوشی دوبارہ سائیکل چلانے باہر نکل گیا۔ اسے سائیکل چلاتے ہوئے کبھی اتنی خوشی اور مزہ نہیں آیا تھا جتنا آج آرہا تھا کیونکہ آج وہ اپنی محنت سے بنائی ہوئی سائیکل چلا رہا تھا۔
اپنی محنت پہ خوش ہوتے اسے باپ سے اپنی ناراضگی اور ان کی بات یاد آئی کہ ’’پہلے اپنی پڑھائی پر دھیان دو پھر اپنی سائیکل چلاؤ۔‘‘ تو اس نے سوچا کہ جب مجھے اپنی سائیکل بنا کے اسے چلانے میں اتنی خوشی ہورہی ہے تو اگر میں اپنی پڑھائی میں بھی محنت کروں اور بغیر نقل کے پہلا نمبر لوں تو مجھے کتنی خوشی ہوگی۔ یہ سوچ کر وہ گھر آیا اور اس نے پڑھائی اور سائیکل چلانے کا ٹائم سیٹ کیا اور کتابیں لے کر اس نے اسی دن سے اس ٹائم ٹیبل پر عمل کرنا شروع کردیا۔ پھر اس نے اپنی محنت اور لگن سے اس دفعہ اپنی کلاس میں دوسری پوزیشن لی۔ پہلی پوزیشن کلاس کے ایک اور قابل شاگرد نے لی۔
دوسری پوزیشن لینے پر سفیان کو کوئی دکھ نہیں تھا بلکہ اسے بہت زیادہ خوشی تھی کہ اس دفعہ اس نے نقل کرکے کسی دوسرے شاگرد کا حق نہیں مارا تھا بلکہ اپنی محنت سے اس نے یہ پوزیشن لی تھی۔ اپنی سچی خوشی کو محسوس کرکے اس نے خود سے عہد کیا کہ وہ اب اس سے زیادہ محنت کرکے آئندہ سال پہلی پوزیشن لے گا اور آئندہ کی زندگی میں بھی کبھی بے ایمانی نہیں کرے گا بلکہ اپنی محنت سے آگے بڑھے گا۔ (انشاء اللہ)