کیا کراچی لاوارث ہے…؟

346

مشہور کہاوت ہے کہ ہاتھیوں کی لڑائی میں چو نٹیاں ہی پستی ہیں ایم کیو ایم اور پیپلز پارٹی کے درمیان آپس کی سیاسی محاذ آرائی میں کراچی مسلسل نظر انداز ہو رہا ہے پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی سیاسی چپقلش کیا کم تھی کہ ایم کیو ایم کے بطن سے وجود میں آنے والی نئی سیاسی جماعت پاک سر زمین پارٹی نے ایم کیو ایم کے سرکردہ لیڈران پر ایساکیا جادو کیا کہ وہ ایک ایک کر کے پی ایس پی میں شامل ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے دو نوں پارٹیوں کا دعویٰ ہے کہ کراچی کو ایک سازش کے تحت تباہ کیا گیا اور کیا جارہاہے اس حوالے سے دو نوں طرف سے ایک دوسرے پرسنگین الزامات کے ساتھ ثبوت بھی دیئے جاتے رہیں ہیں لیکن اس سیاسی محاذ آرائی کے نتیجے میں کس کو فائدہ اور کس کا نقصان ہو ا وہ تو وہی پارٹیاں بتائیں گی جو فائدے اور نقصان کی بات کر رہی ہیں مگر عوام جانتی ہے کہ اس محاذ آرائی سے کراچی میں سیاسی عدم استحکام پیدا ہوا ہے اور جب سے بلدیاتی انتخابات ہو ئے ہیں کراچی کے عوام اپنے بنیادی مسائل حل نہ ہو نے کی وجہ سے پریشان ہیںکیونکہ کل کے دوست آج ایک دوسرے کے دشمن بنے ہو ئے ہیں اس سیاسی دشمنی میں کراچی اور اس کے عوام پس رہے ہیں۔
کل تک جو لوگ کراچی میں آباد دوسری زبان بو لنے والوں کو اپنا دشمن سمجھتے تھے بلکہ جو ان کا سیاسی محاذ پر مخالف تھا وہ ان کا اور مہاجر قوم کا دشمن تصور کیا جاتا تھا لیکن وقت نے دکھا دیا کہ کون مہاجروں اور اس شہر کراچی کا دشمن تھا اس ضمن میں تفصیل بیان کرنے کی ضرورت نہیں اس حوالے سے پی ایس پی کے سربراہ سابق سٹی ناظم مصطفی کمال اور پی ایس پی میں جانے والے ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی سے لے کر بلدیاتی نمائندوں تک سب نے الطاف حسین اور ایم کیو ایم کے عزائم اور جرائم سے جو پردہ اُٹھایا ہے اس بات کے لئے کافی ہے کہ کراچی کو کس نے لاورث کیا کس نے تباہ کیا کس نے ترقیاتی کاموں کے بجائے تمام اختیارات ہونے کے باوجود محرومیوں کے تحفے اس شہر کو دیے لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایک مضبوط پارٹی کیسے بکھر رہی ہے اور ایک سے دو اور اب تین پارٹیوں میں تقسیم ہو چکی ہے اور کچھ نہیں کہا جا سکتا کہ مزید کتنے حصوں میں تقسیم ہو گی اس حوالے سے پیپلز پارٹی کے رہنما منظور وسان پیش گوئی کر چکے ہیں کہ نہ ایم کیو ایم پاکستان ہو گی نہ لندن اور نہ ہی پی ایس پی اور نہ آفاق احمد کی حقیقی بلکہ پاکستان کی یہ تینوں پارٹیاں ایک پارٹی میں ضم ہو جائیں گی اور پھر تینوں پارٹیوں سے وجود میں آنے والی پارٹی بھی بقول منظور وسان بہت جلد ختم ہو جائے گی منظور وسان کا کہنا ہے کہ وہ جلد ہی اس پارٹی کا کیا نام ہو گا اور اس پارٹی کا سربراہ کون ہو گا اگلا خواب دیکھنے کے بعد بتائیں گے سیاسی محاذ پر ایم کیو ایم کی بے بسی اور اس کے رہنمائوں کا پی ایس پی میں شامل ہو نا اس بات کی نشان دہی کر رہا ہے کہ ایک گرینڈ پارٹی بنانے کی طرف اسٹیبلشمنٹ نے کام شروع کر دیا ہے اس بات کا ثبوت یہ ہو سکتا ہے کہ تمام ارکان اسمبلی اور دیگر رہنما دیگر پارٹیوں میں جانے کے بجائے صرف پی ایس پی ہی میں کیوں جا رہے ہیں یا تو یہاں مقدمات سے جان چھڑانے کے لئے کو ئی فارمولا موجود ہے یا پھر ان کو مستقبل کے حوالے سے کوئی نہ کو ئی لائن ضرور کرائی گئی ہو گی جس کی وجہ سے ایم کیو ایم کے ارکان اسمبلی پیپلز پارٹی ، تحریک انصاف ، مسلم لیگ ن میں جانے کے بجائے پی ایس پی کو اہمیت دے رہے ہیں یا پھر ان کا اپنا کو ئی حلقہ اثر اور ووٹ بینک نہیں ہے اس لئے کسی اور پارٹی میں جانے کے بجائے پی ایس پی میں شامل ہو رہے ہیں کہ کل اگر دوبارہ مہاجر ازم کے نام پر ووٹ مانگے جاتے ہیں تو پھر سے قسمت آزمائی کرنے میں کیا حرج ہے لیکن جب ایک دفعہ اگر کو ئی لوٹا بن جاتا ہے اور خاص کر ایم کیو ایم کے لیڈران جب الطاف حسین کو چھوڑ سکتے ہیں بلکہ یوں کہا جائے کہ پوری ایم کیو ایم چھوڑ سکتی ہے تو پھر پی ایس پی میں جانا یا کہیں اور جانا معمول کی کارروائی جیسا عمل ہے
الطاف حسین سے کنارہ کشی اختیار کر کے ایم کیو ایم نے خود یہ راستہ دوسروں کو دیا کہ اب سب آزاد ہیں آزادی کا پروانہ ملنے کے بعد ایک لائن لگی ہے جو ایک ایک کر کے ایم کیو ایم پاکستان کے سرکردہ لیڈران پی ایس پی میں جارہے ہیں اور حال ہی میں ایم کیو ایم پاکستان اور کراچی کے ڈپٹی میئر ارشد وہرہ یہ کہتے ہو ئے پی ایس پی میں چلے گئے کہ متحدہ عوام کی خدمت کا جذبہ اور نیت ہی نہیں رکھتی میئر وسیم اختر اختیارات کا رونا رو کر عوام کو بے وقوف بنا رہے ہیں کئی اور ارکان اسمبلی اور یو سی چیئرمین میرے ساتھ آنے کے لیے تیار ہیں ارشد وہرہ کی اس بات میں وزن ہے کہ کئی اور یو سی چیئرمین میرے ساتھ ہیں کیو نکہ بعض علاقوں میں پی ایس پی کے دفاتر کھل گئے ہیں اور ان کا ایک بھی فرد یو سی چیئر مین اور کونسلر نہ ہو نے کے باوجود ضلع اور یو سی کی سطح پر ان کے کار کنان بلدیہ کراچی کے ملازمین کو کنٹرول کر رہے ہیں اس سے ظاہر ہو تا ہے کہ وہ یو سیز جہاں پی ایس پی کے کار کنان بلدیاتی امور کی نگرانی کر رہے ہیں وہ منتخب نمائندے ہی ہیں جو پی ایس پی کے لئے کام کر رہے ہیں اگر بلدیہ کو نسل میں ڈپٹی میئر کے خلاف قرارداد ناکام ہو جاتی ہے تو مفت میںپی ایس پی کو ڈپٹی میئر شپ مل جائے گی اس طرح اسٹیبلشمنٹ آئندہ کے حوالے سے ایک پارٹی کو عوام میں مقبول کرنے کے لیے جو کام کر رہی ہے اس سے لگتا یہی ہے کہ منظور وسان کا خواب پورا ہو نے جارہا ہے کچھ نہیں کہہ سکتے کہ یہ خواب پیپلز پارٹی ہی کا ہو جو شہری علاقوںسے اپنا مینڈیٹ لینے کے لیے سہانے سپنے دیکھ رہی ہوکیوں کہ پیپلز پارٹی کے رہنمائوں کا یہ بیانات دینا کہ جنرل حمید گل مرحوم کے بعد کچھ لوگ یتیم ہو گئے ہیں یہ اشارہ یقینا تحریک انصاف اور ایم کیو ایم کی طرف ہے۔
یہ بات درست ہے کہ قومی سوچ رکھنے اورقومی سطح پر وجود رکھنے والی پارٹیاں اب اپنا وجود ختم ہو تے دیکھ رہی ہیں اور جو پارٹیاں قومی سطح کی پارٹیاں شمار کی جاتی تھیں وہ بھی اب صوبائی سطح کی پارٹیاں بن چکی ہیں چاروں صوبوں کی زنجیر بے نظیر بھٹو کو کہا جاتا تھا لیکن بے نظیر بھٹو کے قتل کے بعد پیپلز پارٹی بھی سندھ تک ہی محدود ہو کر رہ گئی اس لیے شہر کراچی جس کو ایک سازش کے تحت عصبیت کی بھٹی میں زبر دستی جھونک دیا گیا تھا اس کی وجہ بھی یہی تھی کہ شہری علاقوں سے پر وان چڑھنے والی قومی اور سیاسی سوچ ملک کی سوچ نہ بننے پائے اس لیے جنرل حمید گل نے ایک انٹر ویو میں یہ اعتراف کیا تھا کہ ایم کیو ایم قومی سیاسی جماعتوں بالخصوص مذہبی جماعتوں کو کراچی سے آوٹ کر نے کے لیے بنائی گئی تھی اسی طرح ایمپائر کی انگلی پکڑ کر چلنے والے عمران خان نیازی کی جماعت کو اسٹیبلشمنٹ نے ایم کیو ایم کی طرز پر پورے پاکستان میں متعارف کرانے کی کو شش کی تھی کسی کے اشارے پر ہی بڑے بڑے نام اپنی پارٹی چھوڑ کر تحریک انصاف میں جارہے ہیں لیکن تمام تر سپورٹ کے باوجود تحریک انصاف کی کار کر دگی پیچھے کی طرف جانے والی پارٹی کی نشاندہی کر تی ہے اس حوالے سے امیر جماعت اسلامی سراج الحق نے بھی کسی کانام لئے بغیر یہ کہا ہے کہ میڈیا کے ذریعے پروان چڑھنے والی جماعت کا کوئی مستقبل نہیں ہے کیو نکہ اسٹیبلشمنٹ کی بنائی اور پالی گئی سیاسی پارٹی کو عوام کی طرف سے زیادہ عرصہ تک پزیرائی نہیں ملتی جس طرح ق لیگ کا حشر ہوا ہے اسی طرح اب ایم کیو ایم میں ٹوٹ پھوٹ کا عمل جاری ہے اور شہری ووٹر کو قومی سطح کی پارٹیوں کی طرف جانے سے روکنے کے لیے اسٹیبلشمنٹ اِدھر اُدھر جانے کا کھیل کھیل رہی ہے تاکہ عوام ان سے مایوس نہ ہوں بلکہ نئی پارٹی کو قبول کرلیں لیکن یہ کھیل یا پلاننگ زیادہ عرصہ نہیں چلے گی کیو نکہ پاکستان کا مستقبل صرف قومی جماعتوں سے وابستہ ہے اور اگر قومی سطح کی جماعتوں کو کسی بھی حوالے سے روکنے کی کو شش کی گئی تو علیحدگی پسندوں کی تحریک زور پکڑے گی جو ملک اور قوم کے لئے کسی بھی طرح مفاد میں نہیں ہوگا۔
کراچی کے حوالے سے مذہبی اور سیاسی جماعتیں بارہا اس بات پر زور دے چکی ہیں کہ کراچی کو تباہ کرنے والے اس شہر کے حال پر رحم کریںکیونکہ اس شہر کو منی پاکستان کہا جاتا ہے کراچی کی ترقی پاکستان کی ترقی ہے لیکن شاید کرپشن، بھتہ خوری کی سیاست اور ذاتی مفادات کی جنگ لڑنے والوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ عصبیت کی سیاست کا خاتمہ اس شہر کو نہ صرف امن کا شہر بنا دے گابلکہ کرپشن سے پاک قومی سطح کی سیاست کرنے والے یا پھر مذہبی جماعتیں اس شہر کے لوگوں کواپنی جانب متوجہ کر لیتی ہیں تو پھر اسٹیبلیشمنٹ لاوارث ہو جائے گی اس لیے سیاسی جماعتوں کا یہ کہنا بجا ہے کہ اس شہر اور اس کے باسیوں پر رحم کرو کیو نکہ کراچی لاوارث نہیں ہے۔