روبینہ اعجاز
کچھ ہی دیر پہلے میری نظر سے خواجہ میر درد کا شعر، جو اپنے اندر صوفیانہ رنگ سموئے ہوئے ہے، گزرا اور دل پر اثر کر گیا:
تہمت چند اپنے ذمے دھر چلے
کس لیے آئے تھے ہم کیا کر چلے
یہ دنیا ایک سفر ہے اور ہم سب ابدی اور آخری دنیا کے مسافر ہیں۔ مگر اِس عارضی قیام میں ہم اس قدر محو ہوجاتے ہیں کہ دنیا کی رنگینیوں میں کھو کر اصل مقصدِ حیات کو فراموش کر ڈالتے ہیں۔ ان رنگوں میں غیر اسلامی رنگ نمایاں ہوتے جا رہے ہیں جیسا کہ ویلنٹائن ڈے منانا۔ کچھ عرصہ پہلے اس دن کا کوئی وجود نہ تھا، ہم اس قسم کی خرافات سے نابلد تھے، مگر صد افسوس کہ میڈیا اور دیگر عوامل نے اس رسم کو فروغ دیا، بالخصوص ہماری نوجوان نسل جو کہ مستقبل کی معمار ہے، وہ اس رسم کو اپنانے لگی۔ اب اس قسم کی رسومات کا رواج جڑ پکڑتا جارہا ہے۔ آخر ہم کس نہج پر جارہے ہیں! حقیقت یہ ہے کہ برائی کو اگر نظرانداز کردیا جائے اور نہ روکا جائے تو وہ جڑ پکڑ لیتی ہے اور ہمارے ستونوں کو کھوکھلا کر ڈالتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ والدین، اساتذہ اور میڈیا اس بارے میں مثبت قدم اٹھائیں۔ ہمیں اس بارے میں حقائق بتانے چاہئیں کہ غیر اسلامی رسوم کی پیروی ہمارے لیے زہرِ قاتل ہے۔ کیونکہ ہم اللہ کے بندے اور امتِ محمدیؐ ہیں، امتِ وسط ہیں، ہمیں تو اللہ کے احکامات کی پابندی اور رسولؐ کی سنت کی اطاعت لازمی کرنی ہے۔ مگر صد افسوس کہ ہم غیر اسلامی رسموں کے دلدادہ ہوگئے ہیں۔ آخر ہم سب کس نہج پر جارہے ہیں! یومِ آخرت میں کس طرح جواب دہ ہوں گے! ان رسومات کا ہمارے مذہب، ہماری ثقافت اور روایات سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے۔ آخرت میں تو سراسر نقصان والا عمل ہے۔ اگر دُنیوی نظر سے دیکھا جائے تو تحفے تحائف کے تبادلے میں کتنے پیسوں کا اسراف ہوتا ہے۔ حیا اور عزت کو تو بالائے طاق رکھ دیا جاتا ہے۔ حدیث ہے ’’جس میں حیا نہیں وہ ہم میں سے نہیں‘‘۔ اس غریب ملک میں اگر ان پیسوں سے کسی گھر کا چولہا جل جائے، کسی کا تن کپڑوں سے ڈھک جائے تو یہ پیسہ ان لوگوں کے لیے نافع بن جائے گا۔
اللہ تعالیٰ ہم سب کو صراطِ مستقیم پر چلنے، عمل کرنے اور سب سے بڑھ کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی توفیق عطا فرمائے، آمین