منّے سے مودودی تک

266

میمونہ عبد الجبار ،شازیہ سجاد
۱۹۰۰ء کی دہائی میں سادات کا ایک خاندان جو کہ ہرات کے قریب چشت کے معروف مقام پر آباد ہوا تھا۔اسی خاندان سے تعلق رکھنے والے ایک گھرانے میں ۲۵ ستمبر ۱۹۰۳ء میں ایک بچے کی پیدائش ہوئی جو اپنی مثال آپ تھا۔گھر والے پیار سے اسے’’ مّنا‘‘ کہ کر پکارتے تھے۔
بچپن ایک ایسا خوشگوار دور ہے جو شاہ کے شہزادے اور فقیر کے بچے کے لیے ایک جیسا ہی ہوتا ہے لیکن منّے کا بچپن غیر معمولی خصوصیات کا حامل تھا۔بچپن میں دوستوں کی محفلوں میں شرکت کی بجائے بزرگوں کی محافل میں بیٹھنے کو ترجیح دیتا تھا۔ایک ایسا دور کہ جس میں خاندان کے بچے سکولوں کی طرف بھاگ دوڑمیں مصروف ہوتے لیکن مّنا گھر بیٹھ کر اپنے والدِ محترم سے دینی و دنیاوی تعلیم حاصل کرتا رہا۔والدین کی یہی تربیت ورہنمائی تھی کہ مّنا ابھی صرف ۵ سال کی ہی عمر میں تھا کہ مسجد جا کر نہایت اونچی آواز میں اذان دے کراپنے بزرگوں کو ورطہء حیرت میں مبتلا کر دیااور ماں جی کی تو خوشی کا کوئی ٹھکانہ نہ رہا۔ عام حالات میںکوئی شخص یہ بات نہیں کہ سکتا کہ یہ مّنا اپنی زندگی میں کوئی بڑی شخصیت بننے والا ہے۔جس کو ایک نئی تاریخ رقم کرنی تھی۔ مّنا ایک ایسا نوجوان بنا جس نے دورِ حاضر کے تقاضوں کو پورا کرتے ہوئے اسلام کی تعبیر وتشریح کی۔بّرِصغیر میںہی نہیں بلکہ پوری دنیامیں اسلام کو ایک نئی جہت عطا کی اور اپنے آپ کو دنیا میں اسلام کے فکری راہنما کے طور پرپیش کیاکہ یہ مذہبی سکالر ہونے کے ساتھ ساتھ سیاسی راہنما بھی تھا۔یہ عظیم مبلّغ مفسّرِقرآن ،بہترین داعی دین ،عظیم مصنّف،نثر نگاری میں ماہر اسلام کے مایہ ناز فرزند،جماعت اسلامی کے بانی لوگوں کی دلوں کی دھڑکن اور داعیانہ تڑپ رکھنے والا مّنا جوکہ دنیا کے نقشے پر مولانا مودودیؒ کے نام سے ابھرا۔
مولانا مودودی ؒجو کہ اپنے لڑکپن میں ہی سایہء شفقت اور محبتِ پدری سے محروم ہو گئے اور اپنے ہی بل بوتے پہ انہوں نے دنیا میں قرآن وسنّت کو تھام کر کفر کے خلاف ڈٹ کر مقابلہ کیا۔
آپ ؒ نے اسلام کو سیاسی طرز ِ فکر کے طور پر پیش کیا اور اس پر اٹھنے وا لے عقلی اعتراضات کا مدلل جواب دیا ۔آپؒ نے قلمی جہاد کے ذریعے دنیائے اسلام کو ایسا پیغام دیا کہ جو رہتی دنیا تک کے لوگوں کے لیے استفادے کا باعث بنا ۔تفہیم القرآن اور الجہاد فی الاسلام آپ ؒ کی بہترین تحریریں ہیں جن کا دنیا کی کئی مختلف زبانوں میں ترجمہ ہوا۔
رسالہ ترجمان القرآن میں قرآن کا ترجمہ اور تفہیم شائع ہونا شروع ہوئی تو اس کو پڑھ کر متا ثر ہونے والے لوگوں نے مطالبہ کیا کہ آپ ہمیں ایسا پلیٹ فارم مہیا کریں کہ جس کے تحت ہم اسلام کے اصولوں پر چل کر دنیوی و اخروی نجات حاصل کر سکیں ۔اس پر آپؒ نے ایک مسودہ تیار کیا جس میں ۸۰ علما ء کا فتوی تھا یہ جماعت اسلامی کا دستور وآئین تھا ۔
جب شدّھی تحریک کے بانی کا قتل ہوا اس وقت برِ صغیر کے حالات شدت اختیار کر گئے اور اس جھوٹ کا پر چار ہونے لگا کہ اسلام میں جہاد کا فلسفہ تشدّد کو فروغ دیتا ہے تو دہلی کی مسجد میں مولانا جوہر علی ؒنے خطاب کرتے ہو ئے کہا کہ کاش کوئی اللہ کا بندہ ہو جو ان اعتراضات کے خلاف اسلامی جہاد پر ایسی کتاب لکھے جو ان اعتراضات والزامات کا جواب دے سکے ۔ان کو رفع کر کے جہاد کی اصل حقیقت دنیا پر واضح کر دے۔ الجہاد فی الاسلامِ انہیں اعتراضات کے جوابات اور جہاد کی حقیقی روح کو سمجھنے کے لیے ہی مولاؒنا نے تصنیف کی ۔
کہو وہ کون حسیں ہے تمھاری بستی میں
کہ جس کے نام کے ساغر اٹھائے جاتے ہیں
مولانا نے یہ کتاب ۱۷سال کی عمر میں تحریر کی ۔مولانا نے اپنی خداداد صلاحیت کی بناء پر قلم سے وہ نادر تصانیف تخلیق کیں جو موجودہ سیاسی و سماجی حالات میں اٹھنے والے سوالات کا بھر پور جواب تھیں اور تعلیم یافتہ طبقے سے فرنگی مرعوبیت ختم کرنے کا ذریعہ بنیں ان کے قلم کی تاثیر نے اس صدی کو یادگار بنا دیا۔