حمیرا خالد
’’یہ چھٹیاں بھی کتنی طویل ہوتی ہیں۔‘‘ ماہم نے بے زاری سے پائوں پٹختے ہوئے بھائی کی طرف دیکھا۔ ’’تم ہی کچھ بتائو ناں…‘‘
شانی جو عمر میں اس سے چند سال ہی بڑا تھا، لیکن اپنی ذہانت کی وجہ سے بہن بھائیوں پہ خوب رعب رکھتا تھا، اس کے مشورے کے بغیر کوئی اسکیم کامیاب نہ ہوتی تھی، ماہم کی بات سن کر جوش سے چلاّیا ’’آئیڈیا…‘‘
’’وہ کیا…؟‘‘ ماہم کے ساتھ دونوں چھوٹے بہن بھائیوں نے بھی کان لگا لیے۔ سب کو متوجہ دیکھ کر شانی نے تجسس بڑھایا اور سر سہلاتے ہوئے کھڑکی سے باہر دور کہیں نظریں جما دیں۔ آخر ماہم نے اُس کی نظروں کا تعاقب کرتے ہوئے بے قراری سے پوچھا ’’بتائو ناں کیا آئیڈیا ہے، یا باہر کہیں کچرے میں ڈھونڈ رہے ہو؟‘‘شانی مسکرایا ’’ارے بھئی بتاتا ہوں، ذرا سامنے دیکھو، سگنل کے پاس کونے کا خالی پلاٹ نظر آرہا ہے ناں…‘‘
’’ہاں ہاں… تو کیا وہ پلاٹ خرید رہے ہو… یہی آئیڈیا ہے کیا؟‘‘
’’سنو تو سہی…‘‘ شانی نے اب سنجیدگی سے سب کو اپنے قریب کیا۔ ’’ان دو ماہ کی چھٹیوں میں ہم یہاں اسکول، اسکول کھیلیں گے۔‘‘
’’وہ کیسے…؟‘‘ اب رانی اور ذکی کو بھی کچھ اچھا لگا۔ لیکن تشویش یہ تھی کہ اسکول کا ڈھیر سارا سامان اور پڑھنے والے بچے کہاں سے آئیں گے۔
’’سب انتظام ہوجائے گا، فکر نہ کرو۔‘‘ شانی نے پورے اعتماد سے یقین دلایا۔ اب ذکی نے فکرمندی سے پوچھا ’’اچھا تو فیس کتنی ہوگی؟‘‘
’’ارے بھئی کوئی فیس ویس نہیں ہوگی، ورنہ کون آئے گا بھلا! اور پھر ہمارا خرچ بھی تو کچھ نہیں ہوگا۔‘‘ اس نے منصوبہ بتایا۔ ’’یہ گلی کوچے میں پھرنے والے بچے دیکھنا کیسے بھاگے بھاگے آئیں گے… بس کچھ ٹافیاں، بسکٹ اور کھلونے جمع کرنے ہوں گے۔‘‘
’’ایک دری، بلیک بورڈ، پرانی کتابیں، اسٹیشنری کا سامان، کلرز کاپیاں اِدھر اُدھر سے جمع کرلیتے ہیں، بلکہ تم سب اپنے اپنے دوستوں سے کہنا کہ اتنا نیکی کا کام ہے، دیکھنا سب خوشی خوشی مدد کریں گے۔ کیسا خیال ہے؟‘‘ اس نے فخر سے بہن بھائیوں کو دیکھتے ہوئے اُن کے تاثرات جاننا چاہے۔
’’ایک دم فرسٹ کلاس بھیا! میں تو میڈم کہلوائوں گی اپنے آپ کو…‘‘ رانی نے دمکتے چہرے سے فیصلہ سنایا۔ ’’اور میں سر ذکی…‘‘ اس نے گردن اکڑائی۔
’’اچھا اچھا ٹھیک ہے…‘‘ ماہم نے دونوں بہن بھائیوں کو تصوراتی دنیا سے نکالا ’’یہ بتائو اسکول کا نام کیا ہوگا؟‘‘
’’بہن بھائی اسکول‘‘ شانی نے برجستہ کہا۔
’’یہ کیا بات ہوئی…؟‘‘ ماہم کو اس نام پر اعتراض ہوا۔
’’اسٹریٹ اسکول، برج تلے اسکول، خالی پلاٹ اسکول، لبِ سڑک اسکول، آسمان تلے اسکول بس یہی نام ہوتے ہیں… تب ہی تو لوگ ہمدردی کرتے ہیں اور پھر خوب فنڈ ملتا ہے… تم سب کی تنخواہ بھی مزے سے نکل آئے گی۔‘‘
’’کیا…!‘‘ ذکی مسکرایا ’’ہمیں تنخواہ بھی ملے گی؟‘‘
’’تو اور کیا… میں تو مفت میں کام نہیں کروں گی‘‘۔ رانی نے اعلان کیا۔’’تو پھر ڈن…‘‘ شانی نے بڑی خوب صورتی سے سب کو کام سمجھائے اور ہفتہ بھر میں اسکول تیار تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے گھر گھر سے نیا اور پرانا سامان جمع ہوگیا۔ پلاٹ کے چاروں طرف رنگ برنگی جھنڈیاں اور غبارے لگائے گئے، خوب صورت رنگین تصاویر اور پلے کارڈز سے اسکول کی سی صورت بنائی گئی… پرانے کھلونے، کلرز کاپیاں، گیلو اور بلاک بھی رکھ دیے گئے۔ اس کے ساتھ بچوں کی دلچسپی کے کھیل کود بھی موجود تھے۔ اب دُور سے ہی یہ جگہ بچوں کی ایک اچھی تفریح گاہ دکھائی دے رہی تھی۔ یوں دیکھتے ہی دیکھتے تماشائی بچے جمع ہونا شروع ہوگئے جنہیں ٹافیاں اور بسکٹ دے کر اسکول کا داخلہ دے دیا گیا۔
شانی، ذکی، رانی اور ماہم اپنی اپنی عمر کے بچوں کے گروپ بنا کر کلاسوں کی شکل میں بیٹھ گئے اور استاد بن کر استادی کا رعب داب دکھانا شروع کیا جو اُن کے لیے ایک اچھا شغل تھا۔ پڑھنے والوں کو تعلیم سے دلچسپی تھی اور نہ پڑھانے والوںکو پڑھانے کا تجربہ تھا۔ البتہ ہم عمر بچوں کے ساتھ اچھی وقت گزاری تھی۔ انگریزی اسکولوںکی طرز پر بلاک اور کلرز وغیرہ سے کچھ تفریحی چیزیں ضرور سب کی دل چسپی کا مرکز تھیں اور مصروف بھی رکھتیں۔ یوں سرِ راہ گزرتے لوگوں کو ایک اچھا تاثر ملتا کہ غریب غربا کے بچوں کو تعلیم دی جارہی ہے، کیا احسن قدم ہے۔ اس طرح معاشرے سے ناخواندگی دور ہوگی، اور پھر مفت تعلیم دینا کتنا عظیم کام ہے۔ اس طرح وہ فنڈ باکس ان کے لیے زیادہ ہمدردی کا مستحق تھا جو سارا بار اٹھائے ہوئے تھا۔ بعض گاڑی والے تو جاتے جاتے اچھی خاصی رقم کا چیک بھی دے جاتے۔ نیک کام ہو تو کیا سوچنا۔ پانی کی بوتلیں، جوس کے ڈبے، بسکٹ کے پیکٹ… ہر کوئی حسبِ حیثیت نوازنے کو تیار تھا۔ مفت کی ان اشیا سے اب شانی اور ماہم کے دوستوں کی اچھی خاصی پارٹی ہوجاتی اور ٹیچر بننے کا شوق بھی پورا ہورہا تھا۔
پندرہ دن بعد ہی شانی کے پاس اتنی رقم تھی کہ سب بہن بھائیوں کو دو ہفتے کی اجرت دے دی اور کافی رقم بچ بھی گئی۔ یہ ساری رقم شانی نے اپنا حق سمجھ کر محفوظ کرلی۔
اسکول اسکول کھیلتے ہوئے دو ماہ ایسے گزرے کہ پتا ہی نہ چلا۔ اب اس کھیل کا ڈراپ سین تھا، کیوں کہ تمام تعلیمی ادارے کھل رہے تھے اور سب کو اپنے اپنے اسکولوں کا رخ کرنا تھا، لہٰذا شانی نے جیسے ہی اسکول، اسکول کا کھیل بند کرنے کا حکم سنایا سب سوچ میں پڑ گئے۔
ماہم ندامت کے احساس سے خود کو بہت بوجھل محسوس کررہی تھی، وہ سوچ رہی تھی کہ جب پلاٹ خالی اور اسکول غائب ہوگا تو کیا مفت تعلیم پر سے لوگوں کا بھروسہ جاتا نہیں رہے گا؟ اس کا دل ڈوب رہا تھا۔ نیکی کے نام پر ہم نے کتنے لوگوں کو دھوکا دے ڈالا۔ ماہم کو شدت سے اس غلطی کا احساس ہورہا تھا کہ کھلے آسمان کے نیچے اسکول کا نقشہ بنا کر ہم نے ہمدردیاں تو سمیٹیں اور اس کا معاوضہ بھی لے لیا، لیکن کیا واقعی اس مقدس کام کا حق ادا کیا؟ وہ پچھتا رہی تھی کہ آئیڈیا تو اچھا تھا کاش ہم نے نیکی کو کھیل نہ بنایا ہوتا… کاش شانی تم یہ کام بھکاری بن کر نہ کرتے۔ اصل بات یہ ہے کہ یہ کام نیک نیتی سے کیا ہوتا تو یوں لبِ سڑک نہ کرتے بلکہ کسی چھت کے نیچے عزت سے کررہے ہوتے۔ اس طرح شاید عطیات تو نہ ملتے البتہ برکت، رحمت اور سکونِ قلب ضرور ملتا۔ اس نے ضمیر کی عدالت میں جج بن کر اس کارِ خیر کو جاری و ساری رکھنے کا فیصلہ کرلیا۔