وقت کی پابندی

11984

عدنان دانش
اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرتِ کاملہ اور رحمتِ خاص سے کائنات کو تخلیق فرمایا اور بے حد و حساب پھیلے ہوئے قدرتی خزانوں کی موجودگی بے شمار مخلوقات کو دنیا میں آباد کیا۔ انسان وہ واحد اور خوش قسمت ترین ہستی ہے جسے قادرِ مطلق نے علم کی دولتِ بے بہا سے آراستہ کرکے اشرف الخلوقات کا درجہ بخشا اور دنیا میں اپنے نائب کے مقام پر فائز کیا۔ اللہ تعالیٰ نے انسان کو بے شمار خوبیوں‘ طاقتوں اور صلاحیتوں سے مالا مال کرکے کائنات اس کے حق میں مسخر فرما دی ہے۔ کسی بھی انسان کو قدرت کی جانب سے جو نعمتیں عطا کی گئی ہیں ان کا شمار ممکن نہیں۔ اسباب و وسائل کی اس دنیا میں انسان کے کئی نقصانات کو قدرت پورا کر دیتی ہے۔ اگر صحت متاثر ہو جائے تو دوبارہ حاصل کی جاسکتی ہے۔ اگر دولت چھن جائے تو انسان پھر سے پا سکتا ہے‘ اگر اولاد بچھڑ جائے تو نعم البدل کی صورت میں یہ کمی بھی کسی حد تک پوری ہوسکتی ہے لیکن اگر وقت گزر جائے تو دنیا کی کوئی طاقت اسے واپس نہیں لا سکتی۔ ہر گم شدہ چیز لوٹ سکتی ہے مگر گیا وقت ہاتھ نہیں آتا۔ وہ اگر ضائع ہو جائے تو اس کی واپسی کی قطعاً کوئی توقع نہیں کی جاسکتی لہٰذا ’’وقت‘‘ کائنات میں قدرت کی عطا کردہ قیمتی ترین نعمت ہے۔
اپنی تربیت اور تزکیے کی خاطر اور زندگی میں عظیِم الشان کارنامے سرانجام دینے کے لیے اپنے وقت کا درست استعمال لازم ہے۔ یقینا وقت کی برکت کا راز اس امر میں پوشیدہ ہے کہ اسے بھرپور مربوط اور منظم انداز میں گزارا جائے۔ وقت کی قدروقیمت‘ اہمیت اور تنظیم اوقات کے حوالوں سے اہلِ علم اور اہل قلم حضرات نے رہنمائی کے لیے بے شمار روشن پہلو بیان کیے ہیں۔ دنیا میں شان دار اور کامیاب ترین زندگی گزارنے کے جو زرین اصول و ضوابط ہیں ان میں اوّلین اور بنیادی نکتہ یہ ہے کہ انسان روز مرہ کی سرگرمیوں اور اپنے تمام معاملات میں ’’وقت کی پابندی‘‘ کا اہتمام کرے وقت کی پابندی سے مراد یہ ہے کہ ہر کام کو اس کے مقررہ وقت پر اختیار کیا جائے اور بروقت پایۂ تکمیل تک پہنچایا جائے۔ یہی وہ زبردست طریقہ کار ہے جس پر انسان کی فلاح و کامرانی اور شادمانی منحصر ہے۔ وقت کی پابندی وہ ٹھوس حقیقت ہے جسے اپنا کر زندگی کے تمام شعبوں میں فتح یابی کو یقینی بنایا جاسکتا ہے۔و قت کی پابندی کو اپنی زندگی کا لازمی حصہ بنا کر انسان بلند ترین اہداف حاصل کرلیتا ہے اور انتہائی اہم امور میں بھی زبردست کامیابی سے سرفراز ہوجاتا ہے۔
دنیا کا نظام اللہ تعالیٰ کے مقررہ کردہ اصولوں کے مطابق رواںدواں ہے۔ فطرت اس بات کی مظہر ہے کہ یہاں ہر کام متعین وقت پر انجام پاتا ہے۔ سورج ہر روز خاص وقت پر طلوع ہوتا ہے اور اس کے غروب ہونے کے لمحات بھی طے شدہ ہیں۔ سال بھر کے تمام موسم خاص مہینوں میں ہی وقوع پزیر ہوتے ہیں۔ ہر روز رات اور دن کے قائم ہونے کے اوقات مخصوص ہیں۔ کائنات کا حسن و جمال اور اس کی سلامتی تمام فطری امور کے وقت پر انجام پزیر ہونے میں مضمر ہے ہمارا دینِ فطرت اسلام ہمیں ہر آن ’’وقت کی پابندی‘‘ کا درس دیتا ہے۔ نماز‘ روزہ‘ زکوٰۃ‘ حج اور جہاد ان تمام ارکانِ اسلام کی ادائیگی وقت کی پابندی سے مشروط ہے۔ پنج وقتہ نماز جو کہ دین کی بنیاد ہے‘ اس کی ادائیگی کے اوقات مقرر ہیں۔ روزے رکھنے کا اہتمام رمضان المبارک میں سحری اور افطار کے مخصوص اوقات کے ساتھ فرض قرار دیا گیا ہے اسی طرح حج کے فریضہ کی ادائیگی کا معاملہ مخصوص اوقات‘ ایام اور مقامات کی پابندی کے تصور سے مروط ہے۔
مومن موقع شناس ہوتا ہے‘ وقت کے تقاضوں کو سمجھنا اور اس سے فائدہ اٹھانا ہی انسان کی اصل عقل مندی ہے۔ عمر کی جو مدت انسانوں کو عطا کی گئی ہے‘ وہ برف کے گھلنے کی طرف تیز رفتاری سے گزر رہی ہے۔ اگر اسے تلف کر دیا جائے یا لغویات میں کھپا دیا جائے تو انسان کا خسارہ ہی خسارہ ہے۔ ہوشیاری اور سمجھ داری اسی بات میں ہے کہ انسان اپنی زندگی کے تمام معاملات میں مناسب وقت پر درست فیصلہ کرے اور اپنی ذمے داریوں کو بروقت اور احسن انداز میںپورا کرے۔ وقت کے حوالے سے عقل مند ’’آج اور ابھی‘‘ کے تصور پر یقین رکھتے ہیں اور راہِ عمل پر مسلسل گامزن رہتے ہیں۔ جب کہ بے وقوف ’’کل کریں گے‘‘ کے دھوکے میں مبتلا ہیں۔ اس بارے میں ایک بزرگ نے کہا کہ ’’دانائوں کے رجسٹروں میں کبھی کل کا لفظ نہیں ملتا البتہ بے وقوفوں کی جنتریوں میں یہ کثرت سے ملتاہے۔‘‘ ٹال مٹول یا کام موخر کرنے کی عادت انسانی زندگی کی ترقی کی راہ میں بہت بڑی رکاوٹ ہے‘ ترجیحات متعین کرکے تمام کاموں کو وقت پر نمٹانا ہی وہ خوبی ہے جو انسان کو ہر شعبۂ زندگی میں سرخروئی اور کامرانی کا حق دار بنا دیتی ہے۔
وقت کی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے علمائے کرام اور اہل دانش نے بھرپور رہنمائی فراہم کی ہے۔ شیخ عبدالفتاح ابو نمدہ شام کے نامور فاضل محقق اور جلیل القدر محدث گزرے ہیں۔ انہوں نے جامعہ ریاض میں ’’علمائے سلف اور وقت کی قدروقیمت‘‘ پر چند خطبات دیے تھے جو بعد میں ایک کتابچے کی شکل میں ’’قیمۃ الزمن عندالعلماء‘‘ کے عنوان سے شائع ہوئے۔ وہاں سے چند واقعات ہدایت و رہنمائی کی غرض سے یہاں درج کیے جارہے ہیں۔
عامر بن عبدقیس ایک زاہدمرتاض تابعی تھے۔ ایک شخص نے ان سے کہا ’’آئو بیٹھ کر باتیں کریں۔‘‘ انہوں نے جواب دیا ’’تو پھر سورج کو بھی ٹھہرا لو۔‘‘ یعنی زمانہ تو ہمیشہ متحرک رہتا ہے اور گزرا ہوا زمانہ واپس نہیں آتا ہے اس لیے ہمیں اپنے کام سے غرض رکھنی چاہیے اور بے کار باتوں میں وقت ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
امام ابن جریر طبری ( 224ھ تا 310ھ) نے 76 برس کی عمر پائی۔ ان کی عادت تھی کہ وہ ہر روز چودہ ورقے لکھ لیا کرتے تھے۔ ان کی مشہور عالم تفسیر اور تاریخ کے صفحات کی تعداد آٹھ ہزر کے قریب ہوگی۔ ان کے شاگرد قاضی ابو بکر بن کامل ان کے نظام الاوقات کی تفصیل اس طرح لکھتے ہیں۔
’’ابن جریر طبری ظہر کی نماز گھر میں پڑھ کر عصر تک تصنیف و تالیف میں مشغول رہتے تھے اس کے بعد نمازِ عصر پڑھنے مسجد میں چلے جاتے‘ نماز سے فارغ ہو کر درس و تدریس میں مغرب تک منہمک رہتے پھر عشاء تک فقہ کا درس دیتے اور نماز ادا کرنے کے بعد گھر چلے آتے اس طرح انہوں نے اپنے اوقات کو دین اور خلق خدا کی خدمت میں تقسیم کر رکھا تھا۔
ساتویں‘ آٹھویں صدی ہجری کی ایک ممتاز اور یگانہ روزگار شخصیت امام ابن تیمیہؒ ہیں۔ وہ اپنے وقت کا ایک لمحہ بھی ضائع نہیں کرتے تھے۔ اگر ان کے دن پڑھنے پڑھانے‘ مناظرے‘ مذاکرے اور دعوت و تذکیر میں صرف ہوتے تھے تو راتیں تلاوت و نوافل اور اللہ کے ذکر میں گزرتی تھیں۔ بعض فتاویٰ کی وجہ سے انہیں قید و بند کے مصائب سے بھی گزرنا پڑا۔ انہوں نے تاتاریوں کے خلاف جہاد میں بھی قائدانہ حصہ لیا تھا اور ان کو شکست فاش دی تھی۔ آلام و مصائب سے بھرپور زندگی کا تقاضا تھا کہ وہ تصنیف و تالیف سے دلچسپی نہ رکھتے لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ ان کی چھوٹی بڑی کتابوں اور رسائل و فتاویٰ کی تعداد ساڑھے تین سو سے زیادہ ہے۔ ان کے محبوب شاگرد امام ابن تیم نے ان کی تصانیف کی فہرست بائیس صفحات میں لکھی ہے جو شہو شامی فاضل صلاح الدین النجد کی عملی کاوش سے شائع ہوچکے ہے۔
وقت کی پابندی کے بیش بہا فوائد و ثمرات کسی بھی انسان کو میسر آسکتے ہیں۔ یہ وہ سنہری اصول ہے جس پر انسانی شخصیت کی تعمیر و ترقی اور خوش حالی کی عمارت استوار ہوتی ہے۔ وقت کو بہترین منصوبہ بندی سے بسر کرکے انسان وہ قوت و توانائی حاصل کرلیتا ہے جو زندگی کے تمام شعبوں میں اسے نمایاں کامیابی سے ہمکنار کر دیتی ہے۔ وقت کی پابندی کے طفیل انسان کی کارکردگی میں بے پناہ اضافہ ہوجاتا ہے اور نظم و ضبط کی خوب صورت عادت اس کی شخصیت کا عنوان بن جاتی ہے۔ پابندیٔ وقت کا وصف انسان کو اطمینان اور سکون سے آراستہ کر دیتا ہے اگتر اس خوبی کو پختہ بنا دیا جائے تو زندگی میں غیر معمولی کامیابیوں کے حصول کی راہ ہموار ہوجاتی ہے۔ ہر کام کو اس کے وقت پر انجام دینا وہ دل کش عادت ہے جو فتح و کامرانی کے در کھول دیتی ہے۔ جب وقت ہی زندگی کا سب سے بڑا سرمایہ ہے تو دانش مندی یہی ہے کہ اسے سنوارا جائے اور بہترین اور شاندار انداز میں اس سے استفادہ کیا جائے۔ تاریخ یہی بتاتی ہے کہ دنیا میں جتنی بھی کامیاب و کامران ہستیاں گزری ہیں ان کی ناموری اور پذیرائی کا مشترکہ راز یہی ہے کہ وہ وقت کی قدر دان‘ وقت کی پابند اور تنظیمِ اوقات کی خوبیوں سے متصف تھیں۔