نیلوفر اسلم
میں نے ہاجرہ (عائشہ محمد کی بہو) سے پوچھا کہ ’’ہاجرہ پھر تو تم ہی وہ فرد ہو جو عائشہ کے آخری لمحات کی گواہ ہو، اور جس سے انہوں نے آخری مرتبہ بات چیت کی۔‘‘
’’جی…‘‘ ہاجرہ کا لہجہ سوگواری میں ڈوبا ہوا تھا۔
’’کیا ہوا تھا… کیا عائشہ بیمار تھیں؟‘‘
’’نہیں کوئی خاص بات تو نہ تھی، ایک دن پہلے ہی جمعرات کو وہ شعبہ دیہات کی جانب سے اندرون سندھ کے دورے سے واپس آئی تھیں۔ صبح معمول کے مطابق اٹھیں، ان کی بیٹی جس کے ہاں بچے کی ولادت ہوئی تھی، اسے 104 بخار تھا، اس کے سر پر ٹھنڈے پانی کی پٹیاں رکھتی رہیں۔ پھر بیٹی کے سر پر مالش کی۔ نواسے کے کپڑے دھونے کے بعد ناشتا کیا۔ اتنی دیر میں شعبہ دیہات کی گاڑی انہیں لینے آگئی جس کا انہیں پہلے سے علم نہیں تھا۔ لیکن کہنے لگیں: تھوڑی دیر کے لیے چلی جاتی ہوں، گاڑی کے آنے جانے میں پیٹرول خرچ ہوتا ہے۔ انہیں جماعت کی امانت کا احساس تھا۔ بات ختم کرکے جانے کے لیے پلٹیں اور کچن کے پاس گر کر بے ہوش ہوگئیں، اور کچھ ہی دیر میں وہ خالقِ حقیقی سے جا ملیں۔ یہ صبح دس بجے کی بات تھی۔‘‘
یہ ذکر ہے جماعت اسلامی حلقہ خواتین ضلع جنوبی زون گارڈن کی ناظمہ عائشہ محمد کا۔ جمعہ کو اُن کے اچانک انتقال کی خبر اُن کے جاننے والوں میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔
جس مشن کے ساتھ انہوں نے پوری زندگی گزاری اُس کے لیے آخری سانس تک سرگرم عمل رہیں۔ زون کی نظامت کے ساتھ شعبۂ دیہات سے بھی وابستگی تھی۔ اسی شعبے کی میٹنگ میں شرکت کی تیاری کررہی تھیں۔ پروگرام میں جانے کے لیے گاڑی انہیں لینے آئی ہوئی تھی۔ میٹنگ میں ساتھی ان کی آمد کے منتظر ہی رہے اور وہ اللہ کے بلاوے پر اُس کے پاس چل دیں۔
عائشہ نے ایسے گھرانے میں آنکھ کھولی جو تحریکی گھرانہ تھا۔ والدہ بھی جماعت سے وابستہ تھیں۔ وہ نابینا تھیں۔ اکثر پروگراموں میں عائشہ گود میں ننھے بچے کو سنبھالے دوسرے ہاتھ سے والدہ کا ہاتھ تھامے ہوتیں۔ کثیرالعیال تھیں لیکن یہ چیز اُن کی جماعت سے وابستگی اور کاموں میں کبھی آڑے نہیں آئی۔ نہایت سکون سے گود میں بچہ سنبھالے تنظیمی، دعوتی، تربیتی کاموں میں مصروف رہتیں۔ اچھی محلہ دار تھیں، پڑوس کا بہت خیال رہتا تھا۔ گھر میں جو کچھ پکتا تھا اسے پڑوس میں ضرور بھیجتی تھیں۔
ہاجرہ نے بتایا کہ وہ بہت اچھی ساس تھیں۔ غصے میں آکر کبھی بات چیت بند نہیں کی۔ ہاجرہ کہتی ہیں کہ میں نے امی سے کہہ دیا تھا کہ آپ میری فکر نہ کیاکریں، میں اپنی سسرال میں بہت اچھی طرح سیٹ ہوں۔ اپنے زون کے ساتھیوں کا بہت خیال رکھتی تھیں اور ہر ایک کے کام آنے کی کوشش کرتی تھیں۔ ان کے ساتھی ان کی اچانک وفات پر بہت دل گرفتہ دکھائی دیے۔
جمعیت کے بچوں کا بھی خیال رکھتی تھیں۔ جمعیت کے ایک سابق ناظم نے بتایا کہ ہم نے عائشہ آنٹی سے لڑکوں کے لیے بہت کھانے بنوائے تھے، ہم ان سے کہہ دیتے اور کھانا بن کر آجاتا تھا۔
عائشہ محمد کی ایک اور خوبی جو سامنے آئی وہ یہ تھی کہ اپنے علاقے کی خواتین اور بچوں کو جماعت کی دعوت سے قریب لانے کے لیے دوسرے پروگراموںکے لیے علاوہ پکنک کے پروگرام بھی بناتی تھیں۔ مردانہ نظم کے تعاون سے فارم ہائوس کی بکنگ کراکے، بسوں کا انتظام کرکے صبح دس بجے سے شام پانچ بجے تک پکنک کا پروگرام بنتا، جہاں جانے والی خواتین جماعت کی دعوت سے آگہی کے ساتھ ساتھ پکنک کا لطف اٹھاتیں۔ ان کے لیے بڑے بڑے پروگراموں کا انعقاد کوئی مشکل کام نہیں تھا۔
سابق ناظم کراچی نعمت اللہ خان کے دورِ نظامت میں چار سال تک کونسلر رہیں۔ اپنے علاقے کی سیاسی صورت حال سے اچھی طرح آگاہ تھیں۔ قومی اور صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کی نگران کی حیثیت سے اُن کی کارکردگی بہت اچھی تھی۔
لباس کے معاملے میں بہت سادہ تھیں۔ زیادہ کپڑے نہیں بناتی تھیں کہ اللہ کو کیا جواب دوں گی۔ بچوں کی تربیت کا خاص خیال رکھا۔ سب ہی بچے جماعت سے وابستہ ہیں، دینی شعور رکھتے ہیں۔ ان کی نمازِ جنازہ بھی ان کے بیٹے نے پڑھائی۔
بہت ساری ذمے داریوں کے باوجود عائشہ کی کوشش ہوتی تھی کہ مغرب تک گھر پہنچ جائیں۔ عائشہ محمد کی وفات سے جو خلا پیدا ہوا ہے وہ مشکل سے ہی پُر ہوسکے گا۔ اللہ رب العزت عائشہ کی ساری کوششوں اور سرگرمیوں کو قبول فرمائے اور ان کی بہترین میزبانی فرمائے، آمین۔
بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی
وہ ایک شخص سارے شہر کو ویران کر گیا