وہ بزم سجائی اس نے کہ

576

(رودادِ بزم ادب)
ثوبیہ فرحانہ
جامعۃ المحصنات میں طالبات کی ذہنی و فکری تربیت کے لیے مختلف سرگرمیوں کا انعقاد کیا جاتا ہے ۔اس میں سے بزم ادب کی نشست بھی معمول کی سرگرمیوں کا حصہ ہے ۔شعبہ نصاب ہر ماہ کے آغاز میں پلاننگ کرتا ہے۔اور کوشش کی جاتی ہے کہ یہ پروگرام ہر لحاظ سے طالبات کے لیے بھرپور اور مفید ہو ۔لہذا موضوعات اور افراد کا انتخاب مشوروں اور سوچ بچار کے بعد کیا جاتا ہے۔
اس مرتبہ بھی شعبہ نصاب کو پلاننگ کرنے کے لیے کہا گیا نگران ٹیچر نے ہمیں کہا کہ اس مرتبہ مصروفیت زیا دہ ہے کیونکہ ویلکم پارٹی کا بھی انتظام کرنا ہے لہذا بزم ادب طالبات کے حوالے کر دی جائے ۔بزم ادب کے ساتھ اس ’’بے ادبی‘‘ پر ایک لمحے کو تو دل نے کہاکہ صاف انکار کر دیں۔ ٹیچرسے پوچھا کہ کیا وہ بغیر راہنمائی کے اچھے طریقے سے اس پروگرام کو کرلیں گی؟یعنی ہمارے مقاصد کا حصول ہوجائے گا کیا ؟ انہوں نے کہا ہمیں امید ہے اچھا ہی نہیں ۔۔۔بہت اچھا ہوگا۔ کچھ دیر سوچ کربادل ناخواستہ شعبہ نصاب کو اجازت دے دی گئی کہ اس مرتبہ سینئیر طالبات ہی مکمل طور پر اس پروگرام کی ذمہ دار ہوں اور پروگرام بھی ہلکا پھلکا ہی ہو ۔
تاریخ اور وقت طے کرلیا گیا ۔گاہے بگاہے سنتے رہے کہ تیاری ہو رہی ہے ۔بالآخر بزم ادب کے لیے طالبات مقررہ جگہ پر اکھٹی ہوئیں۔ہم بھی دل کڑا کرکے آفس سے باہر نکلے اور اپنی نشست سنبھالی ۔تلاوت اور نعت ماشاء اللہ خوب عقیدت سے پڑھی گئی ۔اس کے بعدعالیہ سال اول کی طالبہ مریم وہاب کو بلایا گیا کہ وہ موٹی ۔۔۔۔ویشن پر بات کریں گی۔یہ لفظ ادا کرتے ہوئے کمپئیر نے ہماری طرف دیکھا تو ایک مرتبہ تو ہم’’ اس گستاخی‘‘پر ٹھٹکے ۔مگر پھر سمجھ آئی کہ وہ تو motivation پر بات کریں گی۔مسکراتے چہرے کے ساتھ مریم ڈائس پر آئیں اور آتے ساتھ ہی ایک سوال داغ دیا کہ کیا کبھی آپ کو کسی نےmotivateکیا ہے؟ خاموشی پر دوبارہ سوال کیا گیا۔ہم نے ساتھ بیٹھی اساتذہ پر نظر ڈالی اور سوچا خدایا ان میں سے کسی نے بھی کوئی ایسا جملہ نہیں کہا کہ کوئی بچیmotivate ہوگئی ہو؟ ہم یہ سوچ کر بیچ وتاب کھانے لگے ۔اسی دوران محسوس ہوا کہ اساتذہ بھی اسی کام میں مشغول ہیں یعنی بیچ وتاب کھانے میں ۔لیکن تھوڑے وقفہ کے بعد طالبات نے جواب دینے شروع کئے تو اتنے دلچسپ اور بھرپور جوابات دیئے گئے کہ دل خوش ہوگیا۔ کچھ جوابات سننے کے بعدمریم نے پروگرام آگے بڑھاتے ہوئے بہت اچھے انداز سے اپنی با ت سمجھائی اور طالبات کو مایوسی سے بچنے اور اللہ کی عطا کی گئی صلاحیتوں کو پہچاننے ور ان کو نکھارنے کی طرف توجہ دلائی ۔اپنی بات سمجھانے کے لیے وائٹ بورڈ کا بھی موئثراستعمال کیا اور مریم کے اعتماد سے اساتذہ بھی مطمئن نظر آرہی تھیں۔
پھر ایک اور طالبہ نازش کو ڈائس پر آنے کی دعوت دی گئی کہ وہ activities کروائیں گی نازش نے ڈائس کے پاس کھڑے ہوکر سب پر طائرانہ بلکہ شرارتی نظر ڈالی ۔گویا اندازہ کر رہی تھی کہ سب کتنے پانی میں ہیں اور پھر اپنی ہنسی کنٹرول کرتے ہوئے کہا کہ ریا ضی کا سوال ہے جوآپ کو حل کرنا ہے ۔ریاضی کا نام سنتے ہی سب کے منہ بن گئے ۔اف ریاضی۔۔!!۔سب بے بسی سے نازش کے سوال کے منتظر ہوئے نازش نے سوال رکھا کہ ۱۰۰ پرندے ۱۰۰ روپے میں خریدنے ہیں لیکن ان میں بازکی قیمت پانچ روپے ہوگی،کبوتر ایک روپے کا اور چڑ یا ایک روپے میں ۲۰ ہوں گی ’’یہ کیسا سوال ہے؟‘‘ سب ایک دوسرے کو دیکھنے لگے ۔پھر دماغوں پر زور دیاجانے لگا ۔لیکن کسی سے یہ خریداری نہ ہوسکے۔کوئی کبوتر زیادہ خرید بیٹھا اور کسی نے مقررہ رقم سے زیادہ خرچ کردی لیکن تعداد پوری نہ ہوئی۔کسی نے صرف چڑیا اورکبوتر خریدنے کافی سمجھے ۔ایک طالبہ نے تو ۱۰۰ روپے میں ۱۰۰ کبوتر خرید کر فخر سے سب کو دیکھا ۔ہم بھی بہت متاثر ہوئے کہ لوجی !یہ تو سیدھا سا حساب تھا ۔ایسے ہی اتنی دیر لگی ۔۔۔اس پر نازش نے کہا کہ نہیں بھئی پرندے تینوں قسموں کے ہی خریدنے ہیں ۔کبوتر خریدنے والی طالبہ دوبارہ خریداری میں مصروف ہوئیں مگر مایوس ہوکر واپس اپنی جگہ پر چلی گئیں۔
سب جوڑ توڑ میں لگے رہے لیکن کبھی ہاتھوں کے کبوتر اور چڑیا اڑ گئیں (کیونکہ طوطے تو تھے نہیں ) اور کبھی باز مقررہ تعداد میں دستیاب نہ ہوئے۔بالآخر ہار ماننی پڑی ۔ایک طالبہ نے تو تنگ آکر اعلان کر دیا کہ یہ سوال ہے ہی نہیں ۔دوسری نے پوچھا نازش باجی آخرآ ّپ نے یہ سوال لیا کہاں سے ہے ؟۔نازش فخرسے مسکراتی رہیں ۔اب تو ہمیں بھی تائو آیا اور پوچھا کہ اس activityکا کوئی وقت مقرر ہے کیا؟(عورتوں کو تو ویسے بھی خریداری میں وقت کا ہوش نہیں رہتا )۔نازش صاحبہ آگے بڑھیں۔فخر سے سب کو دیکھا اور پھرمسکرا کر وائٹ بورڈ پر خریداری کردی۔۹۵ روپے کے ۱۹ باز،ایک روپے کا ایک کبوتر،اور چار روپے کی ۸۰ چڑیاں ۔۔۔لوجی۔۔۔اتنا آسان حساب ۔۔۔سب ایک دوسرے کے جھینپی جھینپی مسکراہٹوں سے نوازنے لگے۔
اب نازش نے ایک اور حملہ کیا کہ اب بیت بازی ہوگی۔کچھ طالبات کے رنگ اڑے کیونکہ اشعار کا مقابلہ تھا۔نازش نے اعلان کیا کہ یہ بیت بازی روایتی نہیں ہوگی۔ہم نے دل میں سوچا کہ ٍاب ادب میں بھی روایتیں توڑ دی جائیں گی ۔فرمایا گیا کہ ہم آپ کو ایک لفظ بتائیں گے اور آپ نے اس کو شعر میں استعمال کر نا ہے ۔اس ایکٹیوٹی میں اساتذہ بھی حصہ لے سکتی ہیں ہیں ۔سب سنبھل کر بیٹھ گئے ۔پہلا لفظ آیا ’’آستینوں ‘‘ایک ٹیچر کی طرف سے فوراً شعر پڑھا گیا
اگرچہ بت ہیں جماعت کی آستینوں میں
جنم کدہ ہے جہاں لاالہ الاللہ
اب مزید الفاظ دئے گئے ہیں اور ان کے اشعار سامنے آتے رہے پھر کہا گیا کہ اب ایسا لفظ دیا جارہا ہے کہ جس پر سب کے ہاتھ کھڑے ہوں گے ہم منتظر ہوئے ۔لفظ تھا ’’دل‘‘اور یہ تو ایسے ہاتھ کھڑے ہوئے ہیں جیسے سب لوگ اپنے دل ہاتھوں میں لیے پھر رہے ہیں ۔ہمیں ہنسی آگئی ۔اس کے بعد چند الفاظ اور دئے گئے اور یہ مرحلہ بھی ختم ہوا۔
اب سب منتظر تھے کہ دیکھیں اب طالبات اپنی پٹاری سے کیا نکالتی ہیں ۔پتہ چلا کہ اب مرحلہ ہے اپنی’’ہی ‘‘ تحریریں ’’خود ‘‘ پیش کرنے کا ۔باری باری طالبات آئیں اور اپنی تحریریں پڑھتی گئیں ۔کسی نے نظم سنائی۔کسی نے سفرنامہ پیش کیا اور کسی نے افسانہ پڑھا ایک طالبہ نے جامعہ میں اپنے ’’وارد‘‘ ہونے کی داستان سنائی ۔اس مرحلہ کی خاص بات یہ تھی کہ آخر میں سامعین سے تمام نگارشات پر ووٹنگ کروائی گئی ۔سب نے شوق سے تحریریں سنیں۔ووٹنگ کی باری آئی تو سفر نامے والی طالبہ کو چند ووٹ ہی ملے ۔اس کی حوصلہ افزائی کے لیے ہم نے کہا ’’اصل میں یہ اکیلی چلی گئی تھی لہٰذا سب ناراض ہیں اور ووٹ کم دیئے‘‘۔افسانے کو سب سے زیادہ ووٹ ملے ۔ہمارا خیال ہے کہ اس کی وجہ یہ تھی کہ اس میں تعلیم بھی مکمل ہوگئی لڑکی بھی نیک بن گئی جو پہلے حد سے ذیادہ بگڑی ہوئی تھی ۔ماں بھی راضی ہوگئی اور آخر میں شادی بھی ہوگئی ۔شاید یہی آخری بات سب کو پسند آئی ہے۔(ہم نے سوچا)
ایک طالبہ نے دونظمیں سنائیں ۔بچی کی ’’صحت‘‘ کو دیکھتے ہوئے ہمیں یقین نہیں آیا کہ یہ ’’بھاری بھرکم ‘‘ اشعار ان کے ہی ہیں وائس پرنسپل سے تصدیق کی کہ کیا اس نے ہی یہ اشعار لکھے ہیں؟ انہوں نے تائید کی تو بے پناہ مسرت ہوئی ۔اور ہم نے اچھی شاعری پر طالبہ کی حوصلہ افزائی کی۔اب کافی وقت کافی ہوچکا تھالہذا کمپئیر نے ’’آج کا اصول‘‘ میں سب کو سلام پھیلانے کی عادت اپنانے کی ہدایت کی اور دعا کے ساتھ اس ہلکے پھلکے پروگرام کا اختتام ہوا۔
طالبات نے اس کو شش کو بہت پسند کیا ۔اور گزارش کی کہ آئندہ بھی سینئیر طالبات ایسے پروگرامز کا انتظام کیا کریں ۔ہم نے بھی شھادۃ عالیہ کی طالبات کو شاباش دی اور دعا گو ہیں کہ اللہ ا ن کی صلاحیتیوں کو نیکی اور خیر پھیلانے میں استعمال کرنے کی توفیق دے آمین۔